مدثر احمد
9986437327
گذشتہ دنوں ایک اسکول کے جلسے میں مہمان خصوصی کے طور پر میںشرکت کررہا تھا میرے ساتھ ہی ایک نوجوان عالم دین بھی اس جلسے کیمہمان خصوصی تھے۔ موجودہ حالات میں علم کی اہمیت ، نوجوانوں کا مستقبل اور والدین کی ذمہ داری پر مولانا نے جس طرح سے جامع اور معنی خیز خطاب کیا تھا وہ واقعی میں قابل قبول رہی ہیں۔ ائے دن جہاں بعض علماء مسلک مسلک کا کھیل ، اپنے مفادات کی تکمیل اور چندمخصوص مدعوں کو لے کر تقاریر کرتے ہوئے امت کو موجودہ حالات کے تعلق سے بیدار کرنے کے بجائے گمراہ کررہے ہیں ایسے میں علماء کرام کا نوجوان طبقہ حالات حاضر ہ کی مناسبت سے اپنی تقاریر کا استعمال کرتے ہیںتو اسکا بہت اچھا اثر سماج پر پڑسکتاہے۔ کسی بات کو عوام الناس تک پہنچانے کے لئے علماء کے پاس منبر ایک مضبوط پلاٹ فار م ہے اور اسکا فائدہ بہت کم علماء ہی اٹھاتے ہیں۔ قوم مسلم کو بیدار کرنے کے لئے علماء کرام کے پاس جو منبر جیسا پلاٹ فارم ہے اس کا صحیح استعمال ہوتاہے تو یقین جانئے کہ مسلمانوں کو علیحدہ جلسوں کاانعقاد کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی نہ ہی ان جلسوں کے لئے لاکھوں روپیے خرچ کرنے پڑینگے۔ اس وقت مسلمانوں کو اگر اپنا مستقبل بچانا ہے۔ اپنی نسلوں کو غلامی سے بچاناہے اور لاچارگی و بے بسی کی زندگی سے دور رکھناہے تو اسکے لئے ضروری ہے کہ مسلمان اپنی نسلوں کو تعلیم سے اراستہ کریں۔ ہر حال میں تعلیم سے دلوائیں۔ اج کے دور میں والدین اپنے بچوں کو جہاں پندرہ بیس ہزار روپئے کا موبائل دلواسکتے ہیں ، چھوٹی چھوٹی تقریبات اور کسی اور رشتہ دار کی شادیوں کے لئے ہزاروں روپئوں کے کپڑے دلواسکتے ہیں تو تعلیم پر خرچ کرنے سے کیوں پیچھے ہٹتے ہیں ؟۔ دیکھا گیا ہے کہ مسلمانوں کے پاس اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے کہیں نہ کہیں سے پیسوں کا جگاڑ ہوجاتا ہے لیکن بات تعلیم کے حصول کی اتی ہے تو اسکے لئے رونا رویا جاتاہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین اپنے بچوں کی خواہشات و ضروریات کو پورا کرنے کے بجائے انکے مستقبل کو سنوارنے کے لئے ترجیح دیں۔ ضرورتیں تو مرتے دم تک ختم نہیں ہوتی لیکن علم حاصل کرنے کے مواقع ضرور ختم ہوجاتے ہیں۔ اگر والدین اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر قابل بنالیتے ہیں تویقیناََ انکے بچے اپنی ضرورتوں کو خودبخود پورا کرنے کے اہل ہوسکتے ہیں۔ دیکھا جاتاہے کہ مسلم بچوں کے پاس 20-30 ہزارر وپئے کا موبائل تو ہوتا ہے لیکن انکیپاس فیس کے لئے پیسے نہیں ہوتے۔ دیکھا گیا ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں کے برتھ ڈے پر ہزاروں روپئے تو خرچ کردیتے ہیں لیکن اسکول و کالجوں میں غربت کا رونا روتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقع ہمارے ساتھ پیش یا تھا۔ ایک غریب اٹو ڈرائیور نے اپنی بیٹی کے داخلے کے لئے ہم سے سفارش کروائی تھی۔ کالج کی فیس 30 ہزار روپے تھی جو کہ سفارش کے بعد 15 ہزار روپئے ہوگئی تھی۔ کچھ دن بعد اسی اٹو ڈرائیور سے ہماری ملاقات بیکری میں ہوئی جہاں پر وہ کیک خرید رہے تھے ، ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا اپ کی بیٹی کو برتھ ڈے ہے تو انہوںنے کچھ ہچکچا تے ہوئے کہا کہ نہیں بھائی میری بیٹی نے ایک پرشین کیٹ پال رکھی ہے اسی کا جنم دن ہے۔ ہم نے دیکھا کہ صاحب کیک کے علاوہ ارائش اور سجاوٹ کا سامان، گوشت اورکولڈڈرنکس بھی اپنے ساتھ رکھے ہوئے ہیں جو اندازََ 10 ہزار روپئے کی خریداری تھی۔ اندازہ لگائیں کہ قوم کتنی پرسکون ہے ؟۔ ان حالات میں نوجوان علماء کرام جو حالات حاضرہ پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ قوم مسلم کو تعلیم کی اہمیت ، والدین کی فرماں برداری ، سماج میں نئی نسل کی ذمہ داری ، ہماری زندگیوں کا مقصد کیا ہے اس پر روشنی ڈالیں۔ چونکہ زبان ، بیان کی خوبیاں علماء میں پائی جاتی ہیں۔ منبر و محراب انکے پاس ہوتا ہے اسکا استعمال ان معاملات پر بھی کیا جائے۔
٭٭٭