مملکت سعودی عرب کا سن تاسیس 1727عیسوی

0
0
                  از:محمد عارف عمری
صحیح معنوں میں خلافت عباسیہ کے اختتام تک دنیا کے مشرقی ممالک میں مسلمانوں کی ایک متحدہ سلطنت قائم رہی، اس کے بالمقابل دیار مغرب (اسپین، الجزائر سسلی وغیرہ) میں یہ سلسلہ تا دیر چلا،زمانے کے انقلابات کے تحت اور ارشاد خداوندی کے بموجب (تلک الایام نداولھا بین الناس) ان ایام کو ہم لوگوں کے درمیان الٹتے پلٹتے رہتے ہیں، عالم اسلام میں متعدد سلطنتوں کا قیام عمل میں آیا اور ایک مخصوص مدت گزار کر وہ حکومتیں تاریخ کے اوراق کی زینت بن گئیں،
مملکت سعودی عرب اگلے چار سال میں اپنی تاسیس کی تین صدیاں مکمل کرنے کے بالکل قریب ہے، ان میں دو ابتدائی صدیاں عرب کے ایک قبائلی حکومت کی نمائندگی کرتی ہیں، جس کا خاص طرہ امتیاز یہ تھا کہ بانی مملکت محمد بن سعود الاول کو مجدد عصر شیخ الاسلام محمد بن عبد الوھاب ؒ کی رفاقت میسر آگئی اور یہ قبائلی حکومت (جس کے ابتدائی افراد محض دو سو نفوس پر مشتمل تھے) تصحیح عقیدہ اور اتباع سلف صالحین کے وصف خاص سے ممتاز ہوگئی، اس طویل دو سو سالہ دورانیہ میں سعودی عرب کی مختصر سی قبائلی حکومت عالم اسلام کی نمایاں اور وسیع وعریض حکومت "خلافت عثمانیہ” کے مقابلے میں ایک نو زائیدہ پودے کی حیثیت رکھتی تھی، حکومت اگر فکر ونظر سے عاری محض سلطنت کی وسعت اور سلطانی جلال وہیبت کا نام ہے تو یقیناً سلطنت عثمانیہ پچھلی ایک صدی قبل عالم اسلام کے اسٹیج پر مسلمانوں کی سب سے بڑی حکومت تھی، مگر اسی کے ساتھ عقیدہ توحید کا فساد، قبر پرستی، اور بہت سے مظاہر شرک کے پائے جانے کے باعث اس کو مسلمانوں کی حکومت تو کہا جا سکتا ہے، اسلام کی حکومت نہیں،
الغرض اس دو صد سالہ مدت میں متعدد سعودی قبائلی سردار اور اہل علم سلطنت عثمانیہ کے بغاوت کے جرم میں شہید کئے گئے، بالخصوص شیخ الاسلام محمد بن عبد الوھاب ؒ کی مشہور زمانہ تصنیف "کتاب التوحيد” کے عظیم شارح شیخ سلیمان، مصنف "تیسیر اللہ العزیز الحمید” کو بھی جام شہادت نوش کرنا پڑا،
عثمانی سلطنت کا عربی خطے میں دائرہ عمل حجاز مقدس تک محدود تھا، جنگ عظیم اول کے آس پاس جب سلطنت عثمانیہ کے پاؤں لڑ کھڑا نے لگے تو سعودی حکومت نے نجد کی وادی سے باہر قدم نکالے اور ایک طویل کشمکش کے بعد حجاز کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا، اس تسلط پر تقریباً پون صدی کی مدت گزرچکی ہے، اور الحمد للہ سعودی حکومت مختلف میدانوں میں (معاشی، اقتصادی، زمینی ذخائر کی حصول یابی، قدیم اور جدید تعلیم، بلندوبالا عمارتیں اور ایک مضبوط عسکری قوت کے لحاظ سے) عالمی سطح پر اپنی حیثیت منوا چکی ہے،
ہم لوگوں کا زمانہ طالب علمی آج سے 40 سال پہلے تھا، اس وقت یہ محسوس ہوتا تھا کہ سعودی عرب کے افراد زندگی کے مسائل سے نبرد آزما ہونے میں نو آموز ہیں، نوجوان نسل تعیش پسند تھی، گھنٹے دو گھنٹے ڈیوٹی انجام دینے کے بعد "واللہ تعبان” ان کی زبان سے سننے میں آتا تھا، لیکن سعودی حکومت کی موجودہ قیادت نے موجودہ عالمی منظر نامہ میں بالخصوص نائن الیون کے واقعہ کے بعد اپنے بل بوتے پر جینے
کا حوصلہ پیدا کیا ہے، جس کا ایک عظیم مظہر یہ ہے کہ سعودی حکومت نے اپنے نقطہ آغاز کو تین سو سال پہلے کی جفاکشی، مجاہدہ، ظلم وستم برداشت کرنے، عثمانی سلطنت کے جبر وتشدد کا مقابلہ کرنے سے کیا ہے، واضح رہے کہ اس دور میں اس خاندان کے ایک اہم فرد کو گرفتار کرکے ترکی لے جایا گیا اور وہاں انہیں سر عام پھانسی دیدی گئی تھی،
سعودی حکومت کا اپنے سن تاسیس کو 1727 عیسوی قرار دینا عزم و حوصلہ اور میدان عمل میں جانبازی دکھانے کی تاریخ دوہرانے سے عبارت سمجھنا چاہیےہمارے یہاں کچھ لوگ لارنس آف عربیہ کے حوالے سے ترکی کے خلاف عربوں کی بغاوت کو آل سعود کے سر منڈھ دیتے ہیں، جبکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ترکی کی حکمرانی کو آل سعود ناپسند ضرور کرتے تھے، لیکن ترکی کا اصل رشتہ حرمین تک محدود تھا، استنبول سے مدینہ منورہ تک ترکی نے ریلوے لائن بچھائی تھی جس پر ٹرینیں دوڑتی تھیں، اس زمانے میں حرمین پر ترکی کے نامزد گورنر حکمراں ہوا کرتے تھے جن کو "شریف مکہ” کہا جاتا تھا، ترکی کے خلاف علم بغاوت شریف مکہ نے بلند کیا، جس کا فائدہ شریف مکہ کو انگریزوں کی حمایت سے اردن اور شام میں حکومت سازی کا ملا اور اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سعودی حکمراں ملک عبدالعزیز نے اپنے بیٹے شاہ فیصل کی کمان میں حرمین کو اپنے قبضے میں لے لیا،
نائن الیون کے واقعہ کے بعد سعودی حکومت جس طرح عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مسلسل دباؤ میں آگئی تھی، اس کا بہترین حل خادم الحرمین الشریفین الملک سلمان بن عبدالعزیز آل سعود حفظہ اللہ کی سرپرستی میں سعودی حکومت کا مختلف عالمی طاقتوں سے روابط ہموار کرنا، جدید تعلیم کو فروغ دینا، تعلیم نسواں کو اہمیت دینا اور ٹیکنالوجی میں ترقی کرنا جیسے منصوبے شامل ہیں، جن میں کئ ایک پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں، دنیا کی خالص عورتوں کی سب سے بڑی یونیورسٹی الامیرہ نورہ بنت عبد الرحمن اسی عزم کا تازہ ترین ثبوت ہے، برسوں پہلے جامعۃ الملک عبد العزیز جدہ میں خالص عورتوں کی تعلیم کے مختلف شعبے قائم کئے گئے ہیں، اور اب تو جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں جس میں نصف صدی سے صرف علوم دینیہ کی تعلیم ہوتی تھی، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے بڑھا دئے گئے ہیں، در اصل یہ وقت کی وہ بنیادی ضرورت ہے جس کا ادراک جس فرد یا جماعت کو ہوجائے گا وہ ناقابل تسخیر بن جائے گا، ہمارے ملک میں حضرت مولانا غلام محمد وستانوی حفظہ اللہ کو طبقہ علماء میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ مولانا محترم نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھا اور دین و دنیا کا ایک حسین تعلیمی سنگم اکل کوا (مہاراشٹر) میں قائم کیا۔
سعودی حکومت نے اپنے نوجوانوں کو محنت کش بنانے کی پوری کوشش کی ہے، حج کے سفر میں سعودی نوجوان آرمی، پولیس اور امن عام کے والنٹیر کی وردی پہنے ہوئے اپنی خدمات انجام دیتے نظر آئے تو اسی کے ساتھ "شاہ فہد فوجی ٹریننگ کالج” کے طلباء بھی اپنی وردی میں ملبوس نظر آرہے تھےسعودی عرب کے وزیراعظم اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان آل سعود حفظہ اللہ اپنی بعض تقریروں میں صاف یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ مستقبل قریب میں خطہ ایشیا مغرب کی بالادستی سے آزاد ہوگا اور مشرقی ممالک دست نگر نہیں رہیں گےہم کو یقین کامل ہے کہ عنقریب وہ وقت آئے گا اور اس نہضہ (تحریک) کی صف اول میں سعودی عرب کی حکومت کھڑی ہوگی، وما ذلک علی اللہ بعزیز
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا