مضمون نگار مومن فہیم احمد عبدالباری ایم کام، ایم اے (معاشیات)، ایم اے (ایجوکیشن)، بی ایڈ، NET ، ڈپلوما ان جرنلزملیکچرر و کرئیر کونسلر،صمدیہ جونیر کالج، بھیونڈی 9970809093mominfahim@rediffmail.com
فروری اور مارچ ۲۰۲۰ء میں دسویں اور بارہویں کے بورڈ امتحانات کے پیش نظر طلبہ کمر بستہ ہوجائیں۔
بالعموم تعلیم اور موجودہ دور میں اعلیٰ تعلیم کی اہمیت سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کرسکتا۔ دور حاضر میں بدلتی ہوئی تعلیمی قدروں نے معلومات کے ساتھ ساتھ امتحانات میں اچھے نمبرات حاصل کرنے کو بھی اہم بنا دیا ہے۔ یوں تو ہم اس بات کے قائل ہیں کہ طلبہ اپنے نصاب کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ اور غیر نصابی سرگرمیوں سے بھی بخوبی واقف ہوں ، کیونکہ’ با علم‘ ہونا ایک الگ چیز ہے امتحانات میں اچھے نمبرات حاصل کرلینا الگ بات۔ اس کے باوجود بھی اعلیٰ تعلیم کے حصول میں امتحانات میں امتیازی نمبرات، اچھے فیصد نشانات کار گر ثابت ہوتے ہیں اس سے انکار ممکن نہیں۔ جس وقت آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہوں گے دسویں اور بارہویں بورڈ امتحانات کو لگ بھگ پچاس سے پچپن دن باقی ہوں گے۔ یہ دورانیہ بھی طلبہ کے لیے بہت غنیمت ہے اگر وہ حقیقی معنوںمیں امتحان کے تئیں سنجیدہ ہوجائیں۔ ایسے طلبہ جنھوں نے ششماہی امتحان میں ساٹھ سے ستر فیصد مارکس حاصل کیے ہوں ، ایسے طلبہ جو پاسنگ مارکس حاصل کرکے پاس ہوئے ہوں یا ایک دو مضامین میں فیل ہوگئے ہوں ان کے لیے یہ وقفہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، باضابطہ، بہتر نظمِ اوقات اور سنجیدگی کے ساتھ پڑھائی ان کے تعلیمی معیار اور بورڈ نتائج میں بہتری کا سبب بن سکتی ہے۔ آئیے دیکھیں اس’ مشن‘ کی کامیابی کے لیے آپ کو کن باتوں پر عمل کرنا ہوگا۔ (۱) منظم ٹائم ٹیبل کا تعین ! سب سے پہلا اور بنیادی کام روزانہ کا ٹائم ٹیبل طے کرنا ہے۔ طلبہ کو اپنے تمام مضامین کو مشکل ترین، مشکل اور آسان مضامین میں درجہ بندی کرکے ہر مضمون کے لیے مناسب وقت کا تعین کرنا ہوگا۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ تمام طلبہ کے لیے ایک ہی مضمون بہت مشکل ہو، کسی کے لیے ریاضی تو کسی کے لیے مراٹھی، کسی کے لیے انگریزی تو کسی کے لیے کوئی اور مضمون مشکل ہوسکتا ہے۔ اس لیے دوسروں کے بجائے خود یہ طے کریں کہ آپ کو کن مضامین کو زیادہ اور کن مضامین کو کم وقت دینا ہے۔ ایسے طلبہ جنھیں شروع سے پڑھائی کی عادت ہے وہ اپنے روزانہ کے اوقات (ٹائمنگ) میں اضافہ کریں لیکن جو طلبہ ابھی تک صرف اسکول اور ٹیوشن کلاسیس کی پڑھائی کے بھروسے ہیں انھیں الگ سے وقت نکالنا ہوگا۔ اس لیے اپنی سہولت کے مطابق لازمی طور پر اپنی پڑھائی کے اوقات میں اضافہ کریں۔ (۲) سیلف اسٹڈی بہت ضروری ہے! اکثر طلبہ اس مفروضے کے قائل ہیں کہ وہ پابندی سے اسکول جاتے ہیں، اسکول سے آنے کے بعد ٹیوشن بھی بلا ناغہ جاتے ہیں ، اپنا ہوم ورک بھی مکمل رکھتے ہیں اس لیے انھیں علاحدہ ’سیلف اسٹڈی‘ کی ضرورت نہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہر طالب علم کو اسکول ، ٹیوشن اور ہوم ورک کے علاوہ خود سے پڑھائی کرناانتہائی ضروری ہے۔ آپ امتحانات میں ٹاپ کرنے والے، مسابقتی امتحانات میں کامیابی حاصل کرنے والے افراد کی اگر معلومات حاصل کریں تو پتا چلے گا کہ یہ تمام افراد کمرہ جماعت، ٹیوشن اور اساتذہ کی مدد حاصل کرنے کے علاوہ خود بھی مطالعہ اور ذاتی نوٹس تیار کرتے تھے اور یہی ان کی کامیابی کی اصل وجہ رہی ہے۔ (۳) سیلف اسٹڈی اور نوٹس تیار کرنا ! دسویں اور بارہویں جماعت کے طلبہ عموماً سیلف اسٹڈی کے طریقہ کار سے واقف نہیں ہوتے۔ ’نوٹس تیار کرنا‘ ویسے تو یہ پورے سال کیے جانے والا عمل ہے لیکن پھر بھی اگر آپ نے پورے سال ’نوٹس میکنگ‘ نہیں کی تو اب بھی وقت ہے۔ امتحانات قریب آنے پر اساتذہ مکمل نصاب کا اعادہ کرتے ہیں یا اہم مضامین کے اہم اسباق کا اعادہ کرتے ہیں ایسی صورت میں آپ ان مضامین کے اہم نکات کو نوٹ کرلیں۔ ضمنی سرخیوں (سائڈ ہیڈنگ) وغیرہ کو ان کی بنیادی سرخی (مین ہیڈنگ )کے ساتھ نوٹ کریں۔ ریاضی، طبیعات، اکائونٹینسی اور ایسے مضامین جن میں آپ کو پریکٹیکل سوالات حل کرنے ہوتے ہیں ان کی بار بار مشق کریں۔ زباندانی، سماجی علوم اور سائنسی مضامین کے اہم اسباق کو حکومت کی شائع کردہ ٹیکسٹ بک سے بار بار پڑھیں اور ان میں سے اہم نکات کو نوٹ کرلیں۔ تقریباً تمام مضامین میں معروضی (Objective) سوالات لازمی طور پر پوچھے جاتے ہیں ان کی تیاری سبق کے آخر میں دی گئی مشق کے علاوہ سبق کے متن (Text) سے بھی کریں، حل کیے جانے والے سوالات میں اعدادوشمار خود سے تبدیل کرکے انھیں دو بارہ اور سہ بارہ حل کریں۔ ضابطے، پہاڑے، مربع، مساوات، ترسیم وغیرہ کو لکھ کر بار بار مشق کریں کیونکہ انھیں یاد کرنے کا یہ سب سے اچھا طریقہ ہے۔ (۴) نصاب کی تقسیم اور مارکنگ اسکیم طلبہ کو عام طورپر تمام مضامین کے نصاب اور ان کے مارکس کی تقسیم سال کی ابتداء میں ہی بتا دی جاتی ہے۔ اساتذہ امتحانات کے قریب آنے پر دوبارہ مارکنگ اسکیم اور نصاب کی ذیلی تقسیم کا اعادہ کرتے ہیں۔ منظم پڑھائی کے لیے مکمل نصاب اور مارکنگ اسکیم کی معلومات ہمیشہ ذہن میں ہونی چاہیے تاکہ آپ اہم اسباق کو زیادہ وقت دے سکیں۔(۵) سوالیہ پرچے حل کریں ۔ بورڈ امتحانات کی تیاری کا سب سے اہم مرحلہ گذشتہ امتحانات کے پرچے حل کرناہے۔اس کے لیے بورڈکے پرچے یا پھر نجی پبلشرس کی جانب سے شائع کیے جانے والے’ نمونہ سوالیہ پرچے(Model Question Papers) ‘ کی کتابوں سے استفادہ کیا جاسکتاہے۔ نصاب کا مکمل مطالعہ کرلینے کے بعد سوالیہ پرچے حل کرنا طلبہ کو امتحانات کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ کم از کم ہر مضمون کے گذشتہ پانچ برسوں تک کے پرچے ’تفویض کردہ وقت‘ میں حل کرنے کی کوشش کریں۔ پرچے حل کرتے وقت یہ ذہن میں رکھیں کہ سوال کتنے مارکس کا پوچھا گیا ہے اور اس کے لیے کتنا لکھنا ہوگا؟ بعض اوقات کوئی بہت آسان سوال کم مارکس کے لیے ہو تو صرف اس کا بنیادی متن لکھیں جبکہ وہی سوال زیادہ مارکس کے لیے ہو تو اضافی معلومات لکھنا ضروری ہوتا ہے۔ عموماً ایسے سوالات سماجی علوم کے پرچوں میںاور بارہویں جماعت میں اکثرپوچھے جاتے ہیں۔ زباندانی کے پرچوں میں اب یاد کرنے والے سوالات کے بجائے اپنی سمجھ کے مطابق جواب لکھنے پر زیادہ زور ہوتا ہے۔ اس لیے نصابی کتابوں کے مطالعے کے علاوہ عام مطالعہ بھی فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اخبارات میں شائع ہونے والے مراسلے، خطوط، تشہیری مواد کو بھی طلبہ اگر باقاعدگی سے دیکھیں تو بہت آسانی سے ان سوالات میں اچھے مارکس حاصل کرسکتے ہیں۔ فارغ اوقات میں تفریح کی غرض سے انٹرنیٹ پر انگریزی یا دیگر زبانوں کی خبروں کو بغور سن کر سمجھنے کی کوشش کریں اس سے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوگا اور ’پرسنل ریسپانس‘ کے سوالوں کے جواب لکھنے میں مدد ملے گی۔(۶) صحت کا خیال رکھیں۔ امتحانات کی تیاری کے دوران غیر ضروری تنائو کا شکار ہوں نہ غذا میں کوئی تخفیف کریں۔ مناسب اور مقوی غذا کھائیں ، بھرپور نیند لیںاور روزانہ ہلکی پھلکی ورزش کو عادت بنائیں تاکہ پڑھائی کے دوران ترو تازہ محسوس کریں۔ دوران پڑھائی تھوڑا تھوڑا وقفہ ضرور لیتے رہیں۔(۷) کیوں ضروری ہیں امتیازی نشانات اور اچھے فیصد ؟ امتحانات کے نتائج آنے پر اگر آپ نے اچھے مارکس اور امتیازی نشانات حاصل کیے ہیں تو آپ کو یقیناً بہت خوشی ہوگی ، ساتھ ہی ساتھ آپ کے اساتذہ اور والدین و سرپرست حضرات بھی آپ کی اس کامیابی پر خوش ہوں گے۔ لیکن اس کے علاوہ بھی اس کے کئی فائدے ہیں۔ موجودہ دور میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اچھے تعلیمی اداروں میں داخلہ اور جدید کورسیس میں داخلے کے لیے معاشی طور پر مضبوط ہونا بھی بہت ضروری ہوگیا ہے۔ بڑھتی ہوئی مقابلہ آرائی اور مسابقت نے اسے مزید مشکل بنا دیا ہے۔ اچھے مارکس کی بنیاد پر آپ کو اچھے اور معیاری تعلیمی اداروں میں داخلہ کا موقع میسر ہوگا ، اگر ادارہ اورکورس حکومت سے امداد یافتہ ہوں تو فیس کم بھرنا پڑے گی،مزید آپ کو اسکالرشپ کی حصولیابی میں سہولت ہوگی۔ (۸) اہلیتی امتحانات کی تاریخوں پر نظر رکھیں ! کئی اہلیتی امتحانات کی تاریخیں بورڈ امتحانات کے دوران بلکہ اس سے پہلے ہی ظاہر کردی جاتی ہیں۔ اس لیے امتحانات کی تیاری کے ساتھ ساتھ ان اہلیتی امتحانات کی تاریخوں پر بالخصوص بارہویں جماعت کے طلبہ نظر رکھیں۔ بالخصوص میڈیکل کے لیے NEET، انجینیئرنگ کے لیے JEE، MAH-CET ،آرکیٹیکچر کے لیے NATA، ایل ایل بی کے لیے CLAT/MAHA-CET-Law وغیرہ ۔ اس کے لیے باقاعدگی سے معیاری اخبارات کا مطالعہ آپ کے لیے فائدہ مند ہوگا۔
٭٭٭