رحمت کلیم(ٹی وی اینکر)
رواں سال میں مسلم ممالک کے مابین اتحاد کی ایک نئی لہر دیکھنے کو مل رہی ہے اور اس میں سعودی عرب کا قائدانہ رول بھی دیکھنے کو مل رہا ہے،سعودی عرب نے برسوں کے گلے شکوے اور ناراضگی کو ختم کرتے ہوئے ایران کو گلے لگا لیا ہے اور ایران نے بھی اس موقع کو غنیمت جان کر سعودی عرب کے ساتھ چلنے کا اعلان کردیاہے،اس اتحاد کے پیچھے کونسی طاقتیں کام کررہی تھیں ،یہ سب کے سامنے ہے ،لیکن ایران کو سعودی عرب کا گلے لگانا، امریکہ اور اسرائیل کو بے چین کرگیا،امریکہ کی پرواہ کئے بغیر دونوں مسلم ممالک نے سفارتی تعلقات بحال کئے اوراب رشتے مضبوط ہوتے جارہے ہیں۔اسی بیچ ایک اور فیصلے نے امریکہ اور اسرائیل کو تلملا دیا ہے اور وہ فیصلہ ملک شام کو عرب لیگ میں واپس لانے کاہے،جوکہ امریکہ اور اسرائیل کیلئے سفارتی سطح پر بڑی شکست ہے۔دراصل عرب لیگ کے وزرائے خارجہ نے ایک دہائی سے بھی زائد عرصے کے بعد ملک شام کو دوبارہ اپنی تنظیم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کا مقصد شامی صدر بشار الاسد کے ساتھ تعلقات معمول پر لاتے ہوئے علاقائی طاقتوں کے فیصلے کو مستحکم کرنا ہے۔ اتوار سات مئی کے روز مصری دارالحکومت قاہرہ میں عرب وزرائے خارجہ کے بند کمرے میں ہونے والے ایک اجلاس کے دوران یہ فیصلہ کیا گیا۔
عرب لیگ نے شام کی رکنیت سن 2011ء میں اسد حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلنے والے مظاہرین کے خلاف خونریز کریک ڈاؤن کے بعد معطل کر دی تھی۔ اس احتجاج اور حکومتی رد عمل نے بعد میں ایک طویل اور تباہ کن خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی تھی، جس میں نہ صرف لاکھوں افراد مارے گئے بلکہ بہت بڑی تعداد میں عام شہری بے گھر بھی ہوئے۔ اس دوران کئی عرب ریاستوں نے اپنے سفیروں کو دمشق سے نکال بھی لیا تھا۔لیکن اب حالات ایسے بنتے چلے جارہے ہیں جن کی وجہ سے مسلم ممالک متحد ہونے کو وقت کی اہم ضرورت سمجھ رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ عرب لیگ نے اسد کے تمام گناہوں کو معاف کرتے ہوئے گلے لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔اوراب تک سعودی عرب ، مصر سمیت کئی عرب ریاستوں نے شام کے ساتھ اعلیٰ سطحی دوروں اور ملاقاتوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا ہے، اگرچہ قطر سمیت کچھ دیگر خلیجی ممالک شام کے تنازعے کے سیاسی حل کے بغیر اسد حکومت کے ساتھ تعلقات مکمل طور پر معمول پر لانے کے مخالف ہیں۔لیکن بیشتر مسلم ممالک نے اتحاد پر زور دیتے ہوئے ملک شام کو قبول کرلیا ہے اور معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ عرب ممالک اس بات پر بھی اتفاق رائے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا شامی صدر اسد کو انیس مئی کو سعودی دارالحکومت ریاض میں ہونے والے عرب لیگ کے اگلے سربراہی اجلاس میں مدعو کیا جائے۔
ایران کے بعد ملک شام کو قبول کرنا بھلا امریکہ اور اسرائیل کو کیسے راس آسکتا ہے،یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے شام کی رکنیت بحال کرنے کے عرب لیگ کے فیصلے کی سخت نکتہ چینی کی ہے۔ امریکی رہنماوں نے تعلقات کو معمول پر لانے کے عرب لیگ کے فیصلے کو ایک "سنگین اسٹریٹیجک غلطی” قرار دیاہے۔ امریکی کانگریس کے اہم اراکین نے پارٹی خطوط سے اوپر اٹھ کر بائیڈن انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ شام کی اسد حکومت کو تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش سے روکنے کے لیے اس پر پابندی عائد کرنے سمیت دیگر سخت اقدامات کرے۔انہوں نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ اسد کے ساتھ تعلقات کو معمول پر آنے سے روکنے کے لیے پابندیاں عائد کرنے کی طاقت کا استعمال کرے۔حالانکہ ملک شام کی عرب لیگ میں واپسی کی جب کوششیں ہورہی تھیں تب سے ہی امریکہ اس کوشش میں تھا کہ ایسا نہ ہونے دیا جائے لیکن امریکہ کی تمام تر کوششوں کے باوجود عرب لیگ نے شام کی رکنیت بحال کرکے امریکہ،اسرائیل کو زبردست جھٹکا دیا ہے۔اب امریکہ روکاوٹیں ڈالنے کے نئے طریقوں پر غور کررہا ہے اور دوسری جانب مسلم ممالک ،بطور خاص عرب ممالک آپسی اتحاد اور باہمی مفادات کو ترجیح دینے کی حکمت عملی پر گامزن ہے اور اگر یہ حکمت عملی کامیاب ثابت ہوئی تو پھر آج جس طرح سے دنیا ہر بات پریوروپ وامریکہ کی طرف دیکھتی ہے ،کل عرب اور مسلم ممالک کی طرف دیکھنے کو مجبور ہوگی۔