اسلام میں خواتین علومہ کی میراث

0
0

ڈاکٹر جی۔ایم۔پٹیل

یہ نہایت ہی اہم اور بے حد ضرور ی ہے کہ دور ِ حاضر میں خواتین علومہ کی علمی فضیلت اور اس کی روایت کو بہت زیادہ زندہ رکھا جائے اور زمانہ اپنی قوم کے لئے مسلم خواتین کی ایثار و قربانیوں کو اہمیت جا ن لیں اور ان کا احترام کریں۔ظہور اسلام سے پہلے خواتین کو کم یا کوئی حقوق حاصل ہی نہیں تھے ،ساتویں صدی میں عرب میں عورتوں کو شوہر کی جائیداد کے طور پر زیادہ دیکھا جاتا تھا۔ اور انہیں جائیداد یا وراثت کے حقوق کاکوئی حق حاصل نہیں تھا۔یہ وہ بد ترین جہالت ،دراندانہ اور وہشیانہ دور تھا جس میں نو زاد بچیوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا۔ لیکن آقا محمد ؐ کی تعلیمات نے ان بچیوں کو زندگی بخشی اور تمام شعبوں میں خواتین کے حقوق بحال ہوئے۔
اللہ قرآن میں فرماتا ہے ’’ میں تم میں سے مرد یا عورت کو تمہارے اعمال کے اجرسے کبھی انکار نہیں کروں گا‘‘ (۲۹۵ :۳) ۔پوری تاریخ میں خواتین نے اللہ کی رضا کی پیروی کی ہے اور امت مسلمہ کے لئے روشن خیال کا ذریعہ بننے کی کوشش کرتے ہوئے آقا محمد ؐ کے مشن کو آگے بڑھایا ہے۔عالم کی مختلف حصوں میں شروع ہونے والی اسلام کی ان ابتدائی خواتین علما نے طویل سفر کیا ، کئی دہائیوں تک تعلیم حاصل کی، مہارت حاصل کیں۔ اسلام کی تاریخ کے اوراق پر نظر دوڑائیں تو آپ عظیم خواتین علومہ ظہور میں آئیں گی جنہوں نے نہ صرف قرآن اور حدیث میں مہارت حاصل کی بلکہ بڑی مساجد اور مدارس میں مرد اور زنانہ کو یکساں تعلیم فراہم کیا۔ سب سے پہلے شیخہ مریم بنت ابراہیم نیا س ’ خادم القرآن ‘‘ کی تفصیلات پیش ہیں۔
I ..شیخہ مریم بنت ابراہیم نیاس ’ خادم القرآن ‘
آغازِ مضمون اس معروف’’ دینی عالمہ ’’مریما ابراہم نیاسی ‘‘ سے ہوا جاتا ہے جنہیں ’’ خادم القرآن ‘‘ یا خدمت گار قرآن کا لقب عطاہے ۔ مریما ابراہیم نیاسی ۱۹۳۲ میں کوسی ایمبیٹی( سینیگال) میں اس دنیائے فانی میں اپنی آنکھیں کھولیں۔آپ مشہور مغربی صوفی عالم مولانا شیخ الحاج ابراہیم نیاس کی دختر تھیں۔ ابراہیم نیاس جو واحد و اول مغربی افریقی تھے جہوں نے مصر میں ’ الازہر‘ مسجد کی امات کی۔انہیں’’ شیخ الاسلام ‘‘ کا خطاب عطا تھا ۔شیخہ مریم ابراہیم نیاسی ایک وسیع پیمانے پر قابل احترام شیخہ تھیں۔اپنی زندگی کے دوران آپ نے قرآنی تعلیم کی وکالت کی اور قریب ۱۷ سے زائد ممالک کا سفر کیا اور آپ کی کوششوں کو متعدد مسلم ممالک کی حمایت حاصل ہوئی ۔ مغربی افریقہ سے آگے طالب علموں نے آپ کے ساتھ سینیگال میں قرآن کی تعلیم حاصل کرنے لئے الجزائر ،فلسطین اور امریکہ تک سفر کیا۔ ،اس دوران آپ نے بہت سے عالم، فاضل اور دینی رہنماؤں سے ملاقات کی ، بشمول ’ کوامے انکرومہ ‘ ایران ‘ اور سوڈان میں متعدد سفارتی مشنوں کی قیادت کی ۔
شیخہ مریم نیاسی ایک قابل احترام عالمہ اور رہنما ہیں جو مغربی افریقہ میں سب سے زیادہ مشہور قرآنی درسگا ہ ڈاکار میں واقع ’’ دارالقرن ایکول شیخہ مریم نیاس ‘‘ میں اسکول سے لیکر سیکنڈری سال تک ہزاروں طلبا اور طالبات قرآن کے تعلیم فراہم کراتے ہیں۔ساتھ ساتھ عربی، فرانسیسی اور اسلامی علوم کی تعلیم بھی فراہم ہے۔ شیخہ مریمہ نے مغربی افریقہ میں ہزاروں خواتین کو اسلامی روایتی تعلیم اور روحانی رہنمائی فراہم کروانے میں اپنے والد کی میراث کے آگے بڑھایا ہے۔آپ مقامی اور علاقائی سیاست پر اپنے اثر اور رسوخ اوی سینیگ ال اور ایران کے ساتھ ساتھ سینیگال اور سوڈان کے درمیاں تنازعہ پر مذاکرات کے لئے کافی مشہور ہیں۔
’’ ۲۰۲۱ کے اوئل میں شیخہ مریمہ بنت ابراہم نیاس انتقال کرگئیں اور قرآن کے لئے وقف زندگی کی ناقابل یقین میراث چھوڑ گئیں۔آپ تیجانی صوفی ترتیب میں ایک سرکردہ شخصیت کے طور پر یاد رکھی جائیں گی ‘‘ "Beyond Timbuktu ٹمبکو سے آگے‘‘ عثمان عمر کیں شیکۃ کی تحریر کردہ تصنیف مسلم مغربی افریقہ کی ایک فکری تاریخ اس بات کا ایک بصیرت انگیز تجزیہ ہے کہ کس طرح صدیوں کے دوران اور مختلف زاویوں سے مسلم دانشوروں نے اسلامی علم کی پیداوار ، پھیلاؤ اور مواد کو سماجی و سیاسی سیاق و سباق کے حوالے تشکیل دیا جس میں وہ رہتے تھے۔لوئس بریز اسکول آف اورینٹل ایند افریقن اسٹڈیز لندن یونیورسٹی اسلامی مغربی افریقہ کی فکری تاریخ کا ایک دلچسپ اور جامع تجزیہ ہے۔ اسلامی تعلیم کی مغربی افریکی روایت عربی خواندگی کے پھیلاؤ کے ساتھ مل کر کمال کو پہنچایاہے،جس سے عربی آج افریقہ میں سب سے زیادہ بولی جانے والی ز بان ہے۔
نوآبادیاتی دور میں مغربی افریقی تعلیم میں ڈرامائی تبدیلیاں ،میڈیا ٹیکنالوجیزکے عروج قور افریقی مسلم دانشور کے مسلسل عوامی کردار کے ساتھ پورے برِ اعظم میں دینِ اسلام کی بے انتہاتبلیغ کرنا اور اسے پھیلانا جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یخہ مریم بنت ابراہیم نیاسے جو علما خاندان سے تھیں آپ نے اپنی شادی کے بعد اپنا اسکول شروع کیا اور ۱۹۵۱ میں سینیگال کے دارا لحکومت ڈاکار میں سکونت اختیار کی۔ دن رات کی محنت ،جدوجہد کے ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد ۱۹۶۱ میں کلیمینساؤ اسکول میں داخلہ لیا، دو نظاموں کی تعلیم کا عہد کرنا پڑا،۔ فرانسیسی اسکول کو چونکہ وہاں کی ڈگری کو ایک پہچان حاصل تھی اور دینی تعلیم کے لئے آپ نے اپنے طالبات میں ایک مسلم شخصیت سے تعلق کے احساس کو تشکل دی۔
شیخہ مریم بنت ابراہیم نیاس کی پیدایش کے بعد کا قصہ بھی کافی مشہور ہے۔جب شیخہ مریم نیاس کی پیدائش ہوئیں تو آپ کے والد محترم مولانا شیخ ابراہیم نیاس قرآن کی تفسیر میں مصروف تھے ۔مولانا قرآن کی ۱۹ ویں سورہ (سورۃ مریم ) کی ابتدا کرنے ہی والے تھے کہ انہیں خبر ہوئی کہ وہ ایک دختر کا ان کے ہاں جنم ہوا ہے تو انہوں نے کیا ’’ بڑی خوش آئند خبر سارے عالم میں عام کردی اور با فخر ، لیکن یہ دختر زندہ رہے گی اور مردوں میں ایک برتر و اعلیٰ مقام حاصل کرلے گی۔ علم کی تلاش مردوں کے مقابل رہیں گی اور وہ ایک با عزت با وقر متقی خاتون ہوگی۔ پھر اس دختر کا نام ’ مریم ‘ رکھا جو عیسی ؐ کی والدہ تھیں۔
ایک خاص ملاقت میں حساس شیخہ مریم نے اپنے جذبات کی عکاسی کرتی ہوئی فرمائیں ’’ میں نے اپنے والد محترم کے ساتھ جو زندگی بسر کی ہے انکی غیر معمولی یادیں میرے ذہن کے گوشے گوشے میں پیوست ہیں۔ والد محترم نے پر خلوص پدرانہ محبت کا اظہار کیا انکی خاص نگاہ کرم کی مہر بونیوں میں پرورش پاتی رہی۔ صرف پانچ سال کی عمر میں ذاتی طور دینی تعلیم اور مقدس قرآن پاک کی تعلیم کا بڑی سنجیدگی سے توجہ دی ،احترام کیا ۔مکہ مکرمہ میں پہلی بار حج کے وقت والد محترم نے مجھے کسی اور کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا ۔ کیوں کہ اس زمانے میں مکہ میں حج کی سر گرمیاں بے حد مشکل ترین تھیں ۔ ریگستان کی گرمیاں ، طویل سفر ، بہ مشکل سواری دستیاب ہوتی ،گرم لو ، اور شدت کی پپش میں ارکان کا انجام دینا بے حد مشکل تھا۔اور بعض اوقات حجاج اکرام سفر ہی میں انتقال کر جاتے ۔ان حالات میں والد محترم نے مجھے ایک معروف موریطانہ کے عالم دین ’احمد ربّانی ‘ کے سپرد کیا۔میں نے اپنے والد کی واپسی تک اپنی تعلیم جاری رکھی اور قرآن کی تعلیمات پر مکمل عبور حاصل کرلیااور جب والد محترم کی حج سے لوٹے تو یقینناََ میری تعلیم اور میری دینی ترقی سے بے انتہا خوش ہوئے اور بطور عطیہ سونے کے کچھ تمغے دئے ۔ والد صاحب نے مقدس کتاب قرآن کے کچھ راز سکھائے احمد تھیم یانی اندرونی غائبانہ کو یقینی بناے کی مکمل کوشش کی۔ قرآن کی تعلیم کے بعد والد صاحب نے میری روحانیت کی طرف متوجہ رہے اور پندرہ سال کی عمر میں میں نے وردی تیجانی جو شیخ احمد تیجانی اور بے نیاس کی تعلیمات کے نقطۂ آغاز میں ایک تھے ۔میری شادی سے پہلے میرے والد مجھے تربیہ ؟؟ سے گزارا تھا یعنی خدا اور اسکے ان گنت رازوں کی تلاش ‘‘
شیخہ مریم نیاس نے ہزاروں لوگوں کو قرآن کی تعلیم سے متاثر کیا اور کوشش کیا اور درس دیتی رہی کہ ’’ تم سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سمجھے،اسے سیکھے ، اپنے دل دماغ میں بسا لے اوراس کی تعلیم دے‘‘ مریم ایک مثالی دینی خاتوں تھیں ،ایک روحانی رہنما ،بے سہارا لوگوں کی عظیم ماں اور ایک فراخ دل ،نیکی کا مظہر اور ولی عہد کے یت کے دائرے میں ایک ملکہ تھیں۔
9822031031

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا