مسلم دنیا کے حکمران اور عوام بعد المشرقین ہیں

0
0

محمد امین اللہ

کسی بھی ملک کی ترقی ، آزادی اور سلامتی قومی وحدت اور نظریاتی بنیاد پر قائم رہنے سے منسوب ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ
کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کے 57 آزاد ریاستوں کے باوجود تمام ممالک چند ایک معدود کے عالمی طاغوت یعنی یہود ونصاریٰ اوراہل ہنود کے اتحاد خبیثہ کے زیر نگیں اس لئے ہیں کہ تمام مسلمان ممالک کے حکمران ان کے کاسہ لیس ہیں۔ تفصیل سے بات کرنے سے پہلے تمام مسلم ممالک کے جغرافیائی اور علاقائی اہمیت کے ساتھ ساتھ وہاں ریاستی ڈھانچے کا جائزہ پیش نظر ہونا
ضروری ہے۔ عرب و عجم میں مسلمان ممالک کی اکثریت ایشاء ، افریقہ اور مشرقی بعید میں انڈونیشیا تک پھیلی ہوئی ہیں۔ عرب دنیا میں ایشیا اور افریقہ کے مسلم ممالک ہیں۔ عرب کی تمام خلیجی ممالک معاشی اعتبار سے آج امریکہ اور یورپ کی معیشت کو سہارا دیئے ہوئے ہیں۔ مصر ، سوڈان ،لیبیا ، الجزائر ، تیونس ، مراکش یہ افریکی بر اعظم میں ہونے کے باوجود عرب ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ افریقہ کے وسطی اور مشرقی افریقی مسلمان ممالک ہیں۔ بر صغیر میں پاکستان اور بنگلہ دیش ہیں مگر ان دونوں ممالک کے مقابلے میں ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ملائشیا ، انڈونیشیا ہیں اور انڈونیشیا میں تمام مسلمان ممالک کے مقابلے میں مسلمانوں کی ابادی سب سے زیادہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج دنیا کے آٹھ ارب انسانوں میں ہر تیسرا آدمی مسلمان ہے۔ اور دنیا کا کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں مسلمان موجود نہ ہوں۔
لیکن 1947 سے پہلے ترکی اور افغانستان کے علاوہ تمام مسلمان ممالک برطانیہ اور یورپی سامراج کے غلام تھے اور وسط ایشیا کی تمام مسلمان ممالک روس کی غلامی میں جکڑے ہوئے تھے جو جہاد افغانستان کی برکت اور روس کی پسپائی کے بعد جغرافیائی طور پر آزاد ہوئے ہیں۔ یہ اس وجہ سے ہوا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانوی اور یورپی سامراج اس لائق نہیں رہ گئی تھیں کہ ان ممالک پر اپنا قبضہ برقرار رکھ سکتیں۔ حتیٰ کہ چین ، برما کو بھی 1947 میں ہی برطانیہ سے آزادی ملی۔
اب مسلم ممالک میں حکومتی ڈھانچے کا جائزہ لیتے ہیں۔ عرب دنیا میں جابرانہ اور ظالمانہ بادشاہت ہے اور عوام کو مالی
خوشحالی ملنے کے باوجود انسانی حقوق کا الف بھی حاصل نہیں ہے اور مذہبی عقائد بھی بادشاہ کے عقائد کے ساتھ منسوب ہے۔اختلاف رائے کا مطلب موت اور زندانوں کی کال کوٹھری ہے۔ مصر میں کئی دہائیوں سے بدترین فوجی آمریت ہے اور اخوانالمسلمین جیسی عوامی مقبولیت رکھنے والی خدا ترس اور با صلاحیت جماعت زیر عطاب ہے جس کے کئی مرشدیں تختہ دار پرلٹکانے جا چکے ہیں اور ہزاروں پابند سلاسل ہیں۔ یہی حال تمام عرب ممالک میں ہے۔ عرب کے پڑوس میں ایران جو خمینی انقلاب کے بعد مکمل طور پر اک شیعہ ریاست میں تبدیل ہو چکا ہے اور انقلاب کے بعد مسلسل دیگر مسلم اقلیتیں با الخصوص سنیمسلمان زیر عطاب ہیں اور ان کو اپنے مذہبی عقائد کے اظہار کا موقع فراہم نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے وہاں مسلسل شو رش برپاہے۔ سوڈان اپنی آزادی سے لے کر آج تک فوجی آمریت اور پے در پے بغاوت اور شورش اور خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔ لیبیا
کی مستحکم مگر کرنل قذافی کی آمرانہ حکومت کے خاتمے کے بعد خانہ جنگی کا شکار ہے۔ عراق صدام کی آمرانہ حکومت کے
بعد اور امریکی جارحیت اور حملے کے بعد مکمل تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ جہاں پورا ملک کرد ، شیعہ اور سنی کے درمیان خانہ
جنگی اور اجتماعی ہلاکتوں کا شکار ہے اور یہاں کی تیل کی دولت امریکہ اور برطانیہ اپنی فوجی موجودگی کی وجہ سے لے رہے
ہیں۔ شام گزشتہ دو دہائیوں سے بشارت الاسد کی سنی اکثریت کے خلاف اجتماعی قتل و غارتگری کا شکار ہو کر مکمل طور پر تباہ
ہو چکا ہے اور یہ روس اور ایران کی حمایت سے جاری ہے لاکھوں لوگ مارے جا چکے ہیں اور لاکھوں یورپ اور ترکی میں جان
بچانے کے لئے ہجرت کر گئے ہیں۔ لبنان جو شیعہ ، سنی ، دروج اور عیسائی آبادیوں کے خانہ جنگی کا مسلسل شکار ہے جہاں
ایران کی پشت پناہی میں حزبِ اللّٰہ اک طاقتور جنگی مشین میں بدل گیا ہے جس کا حدف صرف اور صرف اپنے عقیدے کی بالادستیکے سوا کچھ بھی نہیں۔ مراکش میں بادشاہت موجود ہے جو مکمل طور پر یورپ کے زیر نگیں ہے۔ یہ وہی مراکش ہے جہاں سے یوسف بن تاشفین نے 400 سال بعد دوبارہ اندلس کو اسپینی حملے سے بچایا تھا۔ بادشاہ کے خلاف بولنا قابلِ گردن زدنی جرم ہے۔
الجزائر جو فرانس سے آزادی کے بعد مسلسل فوجی آمریت کی چکی میں پس رہا ہے۔ گزشتہ 20 سالوں سے F .I.S.کی کامیابی کے بعد فوجی بغاوت ہوئی اور اسلام پسندوں اور فوج کے درمیان خانہ جنگی کی وجہ سے اب تک لاکھ سے زیادہ افراد قتل کئے جا
چکے ہیں۔ تیونس میں عرب بہار کے بعد کئی دہائیوں سے قائم لادین حکمرانی کا خاتمہ تو ہوا مگر آج بھی حالات ایسے ہی ہیں جو
کل تک تھے۔
افریقہ کے تمام مسلم ممالک معدنی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود جرنیلی آمریت کی وجہ سے بد امنی اور معاشی زبوں حالیکا شکار ہوکر مستقل افرا تفری کا شکار ہیں اور حکمرانوں کی لا دینی کی وجہ سے شدت پسند اسلامی تنظیمیں معرض وجود میں آ
چکی ہیں اور بوکو حرام جیسی انتہائی شدت پسند تنظیم کی طرح القاعدہ بھی اپنا مضبوط وجود رکھتی ہے اور مسلسل ملکی تنصیبات
پر حملہ آور ہوکر ہلاکت کا باعث بنتی ہیں۔ جس کا فائدہ عالمی استعماری قوتیں اٹھاتی ہیں۔1917 کے کمیونسٹ انقلاب کے بعد وسط ایشیا کی تمام مسلمان ممالک روسی جارحیت کا شکار ہوئیں اور لاکھوں کی تعداد میںمسلمان تہہ تیغ کئے گئے اور ان کی شناخت تک چھین لی گئ۔ مسجدوں پر تالے ڈال دیئے گئے۔ مدارس ڈانس کلبوں اور تھیٹر میںتبدیل کر دیئے گئے قرآن پڑھنا بھی قابلِ سزا جرم ٹھہرا۔ شکور شکوروف اور غفور غفوروف ہو گیا۔ صحاح ستہ کی سر زمین اورمسلمانوں کے علمی دنیا اجڑ گئی۔ روس کے بکھرنے کے بعد یہ ممالک جغرافیائی آزادی حاصل تو کیئے کچھ دینی آزادی ملی مگرآج بھی ان ممالک میں کمیونسٹوں کی ہی حکومت ہے۔ لہذا تازکستان اور دیگر ملکوں میں اسلامی شدت پسندی مسلح جد وجہد کر
رہی ہیں۔ یہ تمام ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں اور بہتر تعلیمی اور قابلِ قبول عوامی سہولیات بھی میسر ہیں۔
مشرقی بعید میں انڈونیشیا ابادی اور جزائر کی وسعت کے اعتبار سے مسلم دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ کمیونسٹوں کی بیخ کنی
کے بعد سہارتو سے لے کر اب تک یہ ملک مختلف ادوار میں مسلسل ترقی کرتا رہا مگر عالمی سیاست میں یہ کوئی خاص کردار ادا
کرنے سے قاصر ہے۔ جمہوری ملک ہونے کے باوجود اب تک عوام کی خواہش کے برعکس اسلامی سمت میں آگے نہیں بڑھ سکا
اس وجہ سے یہاں اکثر عوامی بے چینی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہاں بدھ مت اور ہندو تہذیب کے گہرے اثرات ہیں مگر یہاں کے مسلمان دینی رجحان میں پختہ یقین رکھتے ہیں اور حج و عمرہ کرنا تو ہر نوجوان کی خواہش ہوتی ہے۔ 18000 ہزار جزائر پر مشتمل یہ
ملک بحری تجارت کا بھی مرکز ہے۔ یہاں پرتگال اور دیگر مغربی اقوام کی ریشہ دوانیاں جاری رہتی ہیں۔ ملائشیا مشرقی بعید کا اک خوش حال اور ترقی یافتہ ملک ہے یہاں امن و امان اور سیاسی استحکام بھی ہے۔ یہ مختلف بادشاہوں کا کنفیڈریشن ہے۔ یہ ملک اسلامی اقدار کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے نیز اسلامی تحریکیں اور پارٹیاں انتخابات میں قابل قدر کامیابیاں حاصل کرتی ہیں۔
عالم اسلام کا دھڑکتا ہوا دل ترکی اور پاکستان جس پر آج بھی عام مسلمانوں کو مستقبل میں امیدیں وابستہ ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد چھ صدیوں پر محیط تین بر اعظم پر پھیلی ہوئی ترک خلافت کا خاتمہ اک دردناک سانحہ تھا۔ اس کے کیا عوامل
تھے یہ اک خونچکا داستان ہے جب کوئی بھی شخص جو امت کا درد رکھتا ہے خون کا آنسو روتا ہے۔ خلافت کے خاتمے کا درد تو
بر صغیر کے مسلمانوں نے شدت سے محسوس کیا اور برطانیہ کی غلامی میں رہنے کے باوجود ہندوستان میں مولانا شوکت علی
اور مولانا محمد علی جوہر کی سربراہی میں بحالء خلافتِ عثمانیہ کی تحریک چلی اور ہزاروں مسلمان ہجرت کرکے افغانستان چلے
گئے۔ اس حقیقت کے برعکس کہ مصطفٰی کمال پاشا نے ترک فوج کی سالاری کرکے ترکی کی حفاظت کی مگر اس نے اک مسلمانملک کو نہ صرف کہ سیکولر بنایا بلکہ اسلام کی بیخ کنی کی اور ہزاروں علماء کو تختہ دار پر لٹکایا۔ اک مادر پدر آزاد ملک بنا کر عربی زبان میں آزان دینے پر پابندی عائد کی پردہ کرنے پر پابندی لگا دی۔ جو موجودہ اردگان کی حکومت آنے تک برقرار رہی ہے اب جا کر اک یہ پابندی ختم ہوئی ہے۔اسلامی تہذیب و ثقافت پر عمل پیرا رہنے والی ترک قوم کو یورپ کی مادر پدر آزاد معاشرے میں تبدیل کردیا۔ آج بھی ترکی کا آئین سیکولر ہی ہے۔ ترکی میں فوج کی بالا دستی قائم رہی ہے جو گزشتہ سالوں میں فوجی بغاوت کے بعد عوام کی مزاحمت سے نہ کہ صرف ختم ہوا بلکہ مستقبل میں اس کا خطرہ باقی نہیں رہا۔ آج وہاں جمہوریت ہے اور ترکی
تیزی سے اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کرنے کی سمت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ سو سالہ ذلت آمیز معاہدہ لوازن جو 2023 میں ختم اب ترکی مکمل طور پر آزاد ہو چکا ہے اور اب نہ صرف بحری گزر گاہ سے گذرنے والے جہازوں سے ٹیکس لے گا بلکہ اپنے
سمندری حدود میں تیل گیس کے ذخائر جو موجود ہیں اس کو استعمال بھی کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہو چکا ہے۔ طیب اردوگان ملت اسلامیہ کا وہ بطل جلیل ہے جس سے بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں۔ ترکی جو اب ترکیہ ہو چکا ہے عسکری اعتبار سے بھی عالم کفر کو چیلینج کرنے کی پوزیشن میں آ چکا ہے۔ ترکیہ ڈرون طیاروں کی ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی کر رہا ہے اور
امریکہ اسرائیل ششدر ہیں۔
برصغیر ہی نہیں عالم اسلام کی امیدوں کا محور پاکستان جو اک طویل اور جان غسل جد وجہد اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے
بعد معجزاتی طور پر کلمے کی بنیاد پر 14اگست 1947کووجود میں آیا جس کے دو بازو مشرق اور مغرب میں تھے جو اول دن سے
انگریزوں کے پروردہ کالے انگریزوں کے تسلط میں چلا گیا اور اک استحصالی اور حقوق سلبی کی بنیاد پر اپنے اور غیروں کی
سازش کی وجہ سے 16 دسمبر 1971کو پاکستان سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ پاکستان اور بھارت اب تک تین جنگیں لڑ چکے ہیں جس میں عوام کو آج تک نقصان ,غربت اور پریشانی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ملا۔ ان دونوں ممالک کی ازلی دشمنی نے دونوںملکوں کو اسلحہ کی دوڑ میں لگا رکھا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی حالت سدروں سے بدتر ہے یہ جسٹس سچر کمیشن کی رپورٹ میں شائع ہو چکا ہے۔ اب مودی سرکار میں ہندتوا کے ایجنڈے کی تکمیل میں مسلمانان ہند اول حدف ہیں۔ ان کے مساجد مزارات اور شناخت کو پے درپے ریاستی جبر کے ساتھ ختم کیا جا رہا ہے۔
پاکستان شروع دن سے جرنیلوں کی طالع آزمائی اور کرپٹ حکمرانوں کی وجہ سے معاشی بحران کا شکار ہو کر I.M.F کے چنگل میں جکڑا ہوا ہے۔ عوام آئے دن سیاسی عدم استحکام اور غیر شفاف انتخابات کی وجہ سے نالاں ہے۔ حالیہ 8 فروری کے انتخابات نے پچھلے دنوں کی تمام دھاندلیوں کا ریکارڈ توڑ دیا ہے جس کی وجہ سے ملک میں شدید بے چینی اور غیر یقینی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔
بنگلہ دیش میں بھی جنوری میں انتخابات ہونے اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ پچھلے دو انتخابات کی طرح یہ انتخاب بھی تمام اپوزیشن جماعتوں کے بائکاٹ کی وجہ سے عوامی لیگ کو واک آؤٹ وکٹری مل گئی ہے۔ ہزاروں اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوںکو پابند سلاسل کر دیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش کی معیشت زوال کا شکار ہے۔ بے چینی موجود ہے مگر ہندستان اور چین کی علاقائمفادات کے درمیان بنگلہ دیش سینڈوچ بنا ہوا ہے۔ حسینہ واجد کی ملک کے اندر جابرانہ پالیسی کی وجہ سے کسی وقت بھی سابقہادوار کی طرح نا خوش گوار حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہ اک جائزہے کا اختصار یہ ہے لیکن اس سب کی وجہ مسلم دنیا کے حکمرانوں کے ذاتی اغراض اور اپنی ملک کی عوام کی خواہشات کے برعکس مغربی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ اکثر حکمرانوں کی حرام کی دولت امریکہ ، یورپاور سویٹزرلینڈ کے بینکوں کے خفیہ اکاونٹ میں جمع ہے یا آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری ہے۔ لہذا مسلمان ممالک میں تہذبی،ثقافتی اور سماجی و علمی زوال کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے
٭٭٭

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا