’’اقتدار بدلتے ہیں، مگر افسوس چہرے وہی پرانے ہوتے ہیں‘‘

0
0

 

 

 

قیصر محمود عراقی

جونہی الیکشن قریب آتے ہیں ہمارے سیاسی رہنمائوں کو بھی عوام کی یاد ستانے لگتی ہے اور پھر جلسے ، جلوسوں کی صورت میں عوامی قوت کے مظاہرے شروع ہوجاتے ہیں۔ ان جلسوں میں ناجوان لڑکے اور لڑکیوں کو گائوں سے بسوں میں بھر کر بٹھادیا جاتا ہے، کسی صاحب نے ایک جلسہ میں موجود ایک شخص سے دریافت کیا کہ آپ کس کے جلسے میں آئے ہیں ؟ تو وہ بولا مجھے نہیں معلوم کس کا جلسہ ہے، ہمیں تو بس پکڑ کریہاں لایا گیا ہے۔ غریب لوگوں کو بھوک کی عفریت نے اس قدر الجھا دیا جاتا ہے کہ وہ اس کے آگے سوچتے ہی نہیں ، جلسہ گاہ میں بیٹھ کر سارا دن نعرے لگاتے ہیں ، جس کے عوج میں دو وقت کا کھانا اور کچھ رقم مل جاتی ہے اور اس طرح دونوں کا کام بن جاتا ہے ، ایک کی بھوک مٹ جاتی ہے اور دوسرے کی گنتی پوری ہوجاتی ہے، پھر یہی ان پڑھ لوگ ووٹ ڈالنے کیلئے قطار میں کھڑے کر دیئے جاتے ہیں اور مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندے اپنی مرضی سے ٹھپا لگواتے ہیں۔ یہ صرف ایک گائوں یا علاقے کی کہانی نہیں ہے بلکہ ان تمام پسماندہ علاقوں میں بسنے والوں لوگوں کی کہانی ہے جو علم کی روشنی سے محروم جہالت کے اندھیروں میں زندگی گذار رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ خود بھی اپنے حالات بدلنے کی خواہش نہیں رکھتے، وہ اسی طرح خوش ہیں، کیا بریانی کی ایک پلیٹ کے بدلے اپنا قیمتی ووٹ بیچنے والے انقلا ب لا پائینگے؟
اقتدار حاصل کرنا سیاسی جماعتوں کا اصل اور واحد مقصد ہوتا ہے، لہذا ان کے رہنما کسی بھی طرح اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیںاور ان کی اقتدار پانے کی یہ جدوجہد اپنی ذات ، اپنے خاندان یا زیادہ سے زیادہ اپنے ورکر کے مالی فائدے کیلئے ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کا نہ کوئی ماں ہوتی ہے اور نہ کوئی باپ ، یہ تو ایسے گرگٹ ہیں کہ جب بھی کسی حکومت کا سورج غروب ہونے لگتا ہے تو سب سے پہلے اسی حکومت کے متعدد مفاد پرست ارکان اسمبلی خواہ وہ صوبائی یا وفاقی اپنی سیاسی وفاداریاں فی الفار تبدیل کرکے نئی آنے والی حکومتی لیڈر کے تلوے چاٹ کر اس میں شامل ہوجاتے ہیں، جس کی جیتی جاگتی مثال بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار ہیںجو گرگٹ کے رنگ بدلنے سے بھی پہلے رنگ بدل لیتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جانے والی حکومتی لیڈر کو اونچی آواز میں شور مچا مچا کر چور کا نعرہ لگانے میں مصروف عمل ہوکر رہ جاتے ہیں۔ درحقیقت یہ وہ ارکان اسمبلی ہوتے ہیں جو اس لیڈر کے دورِ اقتدار میں اسے باانصاف حاکم ، جمہوریت کا محافظ ، ملک وعوام کا خادم ، اعلیٰ صداقت ، امانت اور شرافت کا پیکر کے علاوہ نہ جانے کون کون سے قصیدے پڑھتے رہتے ہیںاور وہ بھی صرف اور صرف اپنی ذاتی مفاد کے لئے ۔
قارئین محترم ! دنیا بھر کے جمہوری ملکوں کی روایت ہے کہ جس محکمے میں کوئی بڑا سانحہ یا پھر کوئی حادثہ ہوجاتا ہے تو اس کا وزیر فوری طور پر ازخود مستعفی ہوجاتا ہے ، جیسا کہ ریل کے حادثے میں ریلوے کا وزیر مستعفی ہوجاتا ہے، حالانکہ وہ نہ ریلوے ٹریک پر جھنڈی ہلارہا ہوتا ہے اور نہ ہی کانٹا بدلنا اس کی ذمہ داری ہوتی ہے اور نہ ہی وہ ٹرین ڈروائیور ہوتا ہے لیکن پھر بھی وہ اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے حادثہ کی ساری ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لیے مستعفی ہوکر احساس ذمہ داری کا سمبل بن جاتا ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس ہمارے ملک ہندوستان میں تو ایسے متعدد خوفناک حادثات رونما ہوئے ہیں لیکن آج تک کوئی وزیر احساس ذمہ داری کو قبول کرتے ہوئے از خود مستعفی نہیں ہوا ، ہاں البتہ متعدد ارکان اسمبلی اقتدار کے کھو جانے کے بعد ایک لمحہ ضائع کئے بغیر بڑی ڈھٹائی ، بے شرمی اور اخلاقی اقدار کا خیال کئے بغیر نئے آنے والے حکومتی لیڈر کو عوام کا محبوب ، آنکھوں کا تارا اور عوام کی امنگوں کا ترجمان کہتے ہوئے تھکتے نہیں۔ آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایسا رویہ صرف ہمارے یہاں ہوتا ہے۔ جہاں شرم وحیااور غیرت ناپید ہے اور عوام کی یاداشت کمزور ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جانے والا لیڈر اتنا ہی گنہگار ، چور یا پھر جمہوریت کا دشمن تھا یا پھر وہ عقل سے پیدل تھا اور اگر یہ تمام صفات اس میں بدرجہ اتم موجود تھیں تو کیا ارکان اسمبلی یا پھر کابینہ کے وزیروں میں غیرت نہ تھی کہ اس کے دورِ حکومت میں وہ اپنا استعفیٰ اس کے منھ پر دے مارتے یہ کہتے ہوئے کہ تم صادق اور امین نہیں ہو، تم ملک اور عوام کے ساتھ دشمنی کرکے غدار کے مرتکب ہوئے ہو اس لئے ہم تمہارے ساتھ ایک قدم بھی چلنا گناہ سمجھتے ہیں، لیکن افسوس کہ یہ مفاد پرست وزراء ایسا کرنے میں محض اس لئے قاصرہیں کہ وہ فٹ پاتھوںسے چل کر دس دس میلوں اور گاڑیوں اور باڑیوں کے مالک بن چکے ہیں۔ انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی انہیں ضمیر فروش کہے گا ۔یہ ضمیر کے سوداگر یا سیاسی بہروپیہ آج کرپشن کے بے تاج بادشاہ بنے بیٹھے ہیں اور اپنے کالے کرتوتوںکا الزام جانے والے لیڈر پر ڈال دیتے ہیں۔ در حقیقت تو یہ ہے کہ یہ از خود ڈریکولا کا روپ دھار کر ملک وعوام کا خون چوس رہے ہیں، جس کے نتیجہ میں ملک دن بدن مقروض ، جبکہ یہاں کی عوام لاتعداد پریشانیوں میں مبتلا ہوکر بے بسی اور لاچارگی کی تصویر بن کر رہ گئی ہے۔ اگر آپ حقیقت کے آئینے میں دیکھے تو یہ وہ ناسور ہیں جو لوٹ مار ، ظلم وستم اور ناانصافیوں کے تاریخ رقم کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔
قارئین حضرات ملک کا سیاسی ماحول بہت عجیب سا ہوتا جارہا ہے، عوام حیران ہے کہ وہ کس کی بات کو سچ مانیں اور کس کی بات کو مسترد کردیں، سیاسی جماعتیں ایسی ایسی قلا بازیاکھا رہی ہیں کہ عوام کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ، ہر سیاسی جماعت اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہے اور ستم یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اپنی غلطیاں اور کوتاہیاں تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے۔ اگر ہم ہر سیاسی جماعت کے طرز عمل پر نظر ڈالیں تو ہمیں ایک خوفناک تصویر ابھرتی نظر آئیگی۔ آپ دیکھینگے کہ ایک ہندوستانی سیاست داں دو یا دو سے زائد حلقوں سے بہ یک وقت الیکشن لڑ سکتا ہے مگر ایک ہندوستانی شہری دو حلقوں میں ووٹ نہیں ڈال سکتا ، ایک شخص جو جیل میں ہے وہ ووٹ نہیں دے سکتا ، مگر ایک ہندوستانی سیاست داں جیل میں ہونے کے باوجود بھی الیکشن لڑسکتا ہے، ایک شخص جو کبھی جیل گیا ہو سرکاری ملازمت نہیں حاصل کرسکتا مگر ایک ہندوستانی سیاستداں کتنی بار بھی جیل جا چکا ہو ملک کا صدر ، وزیرِ اعظم، ایم پی، ایم ایل اے یا کوئی بھی سیاسی عہدہ حاصل کرسکتا ہے، بینک میں ایک ملازمت کیلئے آپ کا گریجویٹ ہونا لازمی ہے، مگر ایک ہندوستانی سیاست داں فائنانس منیسٹر بن سکتا ہے ، چاہے وہ انگوٹھا چھاپ ہی کیوں نہ ہو؟ اگر کسی سیاست داں کے پورے خاندان میں کوئی بھی اسکول گیا ہی نہ ہو تب بھی ایسا کوئی قانون نہیں جو اسے وزیرِتعلیم بننے سے روک سکے اور ایک ہندوستانی سیاست داں پراگرچہ ہزاروں مقدمات عدالتوں میں اس کے خلاف زیرِ التوا ہوں وہ تمام قانون نافذکرنے والے اداروں کا وزیرِ داخلہ بن کر سربراہ بن سکتا ہے، اسی طرح فوج میں ایک عام سپاہی کی بھرتی کیلئے ہائی اسکول کا سر ٹیفکیٹ کے علاوہ دس کیلو میٹر کی دوڑ لگانے کے ساتھ ساتھ جسمانی اور دماغی طور پر چست اور درست ہونا بھی ضروری ہے البتہ ایک ہندوستانی سیاستداں اگرچہ ان پڑھ ، عقل سے پیدل ، لاپرواہ ، پاگل ، لنگڑا یا لولا ہی کیوں نہ ہو وہ وزیرِ اعظم یا وزیرِ دفاع بن کر آرمی ، نیوی ، ایئر فورس کے سربراہان کا باس بن سکتا ہے۔
آج ہندوستان پوری دنیا میں جس طرح رسوا ہورہا ہے اس کے ذمہ دار جہاں بدعنوان حکمران قصوروار ہیں وہاں پوری ہندوستانی عوام بھی قصوروار ہیں کیونکہ کسی بھی ملک کے تعمیر وترقی ہو یا بربادی اس میں عوام کا ہاتھ زیادہ ہوتا ہے۔ آج ہم اپنے ملک ہندوستان میں بہت بڑے حالات میں دیکھ رہے ہیں، اسے اس حال میں کس نے پہنچایا ، اس طرف کبھی ہماری توجہ رہی ہی نہیں بلکہ اگر کوئی خرابی کی طرف توجہ دلا تا بھی ہے تو لوگ اس کے پیچھے پڑجاتے ہیںلیکن اپنی خرابی دور کرنے کی کوشش نہیں کرتے ، خوشامدیوں کے جھرمٹ سے باہر نہیں نکل پاتے، سیاسی لوگوں کی وفاداریاں بدلتے ہیں، اقتدار ایک پارٹی سے دوسری پارٹی کو منتقل ہوتا ہے، مگر افسوس چہرے وہی پرانے ہوتے ہیں۔ کھربوں اربوں کی جائیداد بنانے والے ،کروڑوںکے تحائف وصول کرنے والے، درجنوں گاڑیوں کے جھرمٹ میں سفر کرنے والے، سینکڑوں سپاہیوں کے حصار میں زندگی گذارنے والے، ملک کو ظلم وستم کے عتاب سے کیسے نجات دلا سکتے ہیں؟ وہ نمائندہ خاک خوشحالی لیکر آئیگا جس کے پاس نہ ویژن نہ مشن ۔ وہ کیسے ایوان میں غریبوں کے حقوق کا تحفظ کریگا ۔ لہذا اب عوام کو چاہئے کہ عوام اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور بتا دی ان سیاسی لٹیروں کو کہ اب اور تم عوام کو الونہیں بناسکتے۔
ریگ اسٹریٹ،کمرہٹی،کولکاتا۔۵۸
موبائل:6291697668

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا