عارف شجر
عین لوک سبھا انتخابات کے بیچ مسلم او بی سی پر کلکتہ ہائی کورٹ کا فیصلہ آنا اور 77 زمروں میں مسلمانوں کو دیے گئے ریزرویشن منسوخ کر دینا یقیناً بی جے پی اور زعفرانی تنظیموں کے لئے خوشی کا باعث ہے۔بی جے پی تو یہی چاہتی ہے کہ مسلمانوں کو دوئم درجہ کا شہری بنا دیا جائے اور انکی تمنا خواہش ارادے جو برسوں سے مسلمانوں کے خلاف دلوں میں پل رہے تھے نفرت پروان چڑھ رہی تھی اسے کلکتہ ہائی کورٹ نے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا یقیناً کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے نے جہاں ایک جانب مسلمانوں کے اندر بے چینی پیدا کر دی ہے تو وہیں آر ایس ایس اور بی جے پی کے قائدین کی ہمت بڑھانے کا کام ضرور کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس معاملے میں سیاست زور پکڑنے لگی ہے کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد بی جے پی اور آر ایس ایس پوری طرح کھل کر میدان میں اتر گئے ہیں اور جہاں جہاں پسماندہ مسلمانوں کو ریزرویشن کا فائدہ مل رہا ہے اسے منسوخ کرنے کی بات کر رہے ہیں ۔ ویسے بھی مغربی بنگال کی بے باک اور ملک کی واحد لیڈی سی ایم ممتا بنرجی سے بی جے پی کا چھتیس کا آنکڑا چل رہا ہے بی جے پی ممتا بنرجی کی سب کا ساتھ سب کا وکاس پالیسی سے گھبرائی ہوئی ہے کیوں کہ انکا سب کا ساتھ سب کا وکاس ملک میں صرف جملہ بن کر رہ گیا ہے لیکن ممتا بنرجی اپنی ریاست میں ہر مکتبہ فکر اور ذات برادری کو بلا تفریق ساتھ لے کر چلنے کا کام کیا ہے اور کر رہی ہیں اس سے بی جے پی خصوصی طور سے پی ایم مودی پوری طرح گھبرائے ہوئے ہیں۔
اس بات سے انکار نہیںکیا جاسکتا کہ ممتا بنرجی نے اپنی ریاست میں جو بھی پسماندہ ذات کے لوگ ہیں انہیں ریزویشن دے کر انکی اقتصادی معاشی تعلیمی اور سیاسی حالات کو مضبوط کرنے میں پوری طرح مدد کر رہی ہیں اور ممتا بنرجی کی اس پالیسی سے ریاست کے لوگوں میں ایک طرح کی دلی خوشی پائی جاتی ہے اور یہی خوشی بی جے پی اور آر ایس ایس کو بالکل نہیں راس آ رہی ہے۔ بی جے پی پسماندہ مسلمانوں کے ریزویشن کے خلاف میدان میں اتر آئی ہے اور اس نے مغربی بنگال میں ہی نہیں بلکہ کرناٹک حکومت میں مسلمانوں کو ریرویشن دینے کے معاملے میں پانی پی پی کر اور گلا پھاڑ پھاڑ کر ملک کے عوام کو یہ کہہ کر بھڑکانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ایس سی ایس ٹی کا ریزویشن کاٹ کر مسلمانوں کو دیا جا رہا ہے اور جب انڈیا اتحاد مرکز کے مسند اقتدار میں بیٹھے گاتو ایس سی اور ایس ٹی کا ریزورویشن کاٹ کر مسلمانوں کو دے دیا جائے گا۔ اس طرح کی زعفرانی ہوا چلا کر ملک کے لوگوں کو بھڑکانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اسکا ساتھ گودی میڈیا پوری طرح دے رہا ہے گودی میڈیا میں تمام بنیادی مسئلوں کو چھوڑ کر مغربی بنگال حکومت کے کام کاج کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ممتا بنرجی کو مسلمانوں کا خیر خواہ بتانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے۔ اس کے لئے خصوصی ڈبیٹ کا بھی ہر روز اہتمام کیا جا رہا ہے اور ایسے لوگوں کو چن چن کر پینل میں رکھا جا رہا ہے جو مسلمانوں اور سی ایم ممتا بنرجی کے خلاف زہر اگل سکے۔
در اصل لوک سبھا انتخابات کے درمیان مغربی بنگال میں کلکتہ ہائی کورٹ نے 2010 کے بعد ممتا حکومت کی طرف سے جاری کردہ تمام او بی سی سرٹیفکیٹس کو منسوخ کر دیا ہے۔ فیصلے میں ہائی کورٹ نے اپریل 2010 سے ستمبر 2010 تک او بی سی کے تحت 77 زمروں میں مسلمانوں کو دیے گئے ریزرویشن اور 2012 کے قانون کے تحت ان کے لیے بنائے گئے 37 زمروں کو منسوخ کردیا ہے کلکتہ ہائی کورٹ نے واضح کیا کہ اس فیصلے کے دن سے منسوخ شدہ سرٹیفکیٹس کو ملازمت کے کسی عمل میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی وجہ سے تقریباً پانچ
لاکھ او بی سی سرٹیفکیٹ غلط ہو جائیں گے۔ تاہم جسٹس تپونت چکرورتی اور جسٹس راج شیکھر منتھا کی بنچ نے یہ بھی کہا کہ جن امیدواروں کو ان سرٹیفکیٹس کے ذریعے پہلے ہی موقع مل چکا ہے وہ اس فیصلے سے متاثر نہیں ہوں گے۔بنچ نے فیصلے میں ترنمول حکومت کا ذکر نہیں کیا ہے لیکن اتفاق سے ریاست میں ترنمول 2011 سے اقتدار میں ہے۔ لہٰذا عدالت کا حکم صرف ترنمول حکومت کی طرف سے جاری کردہ او بی سی سرٹیفکیٹس پر ہی موثر ہوگا۔ ہائی کورٹ کا حکم 2012 کے کیس میں آیا تھا۔ بنچ نے کہا کہ 2010 کے بعد بنائے گئے تمام او بی سی سرٹیفکیٹ قانون کے مطابق نہیں ہیں۔ اسمبلی کو فیصلہ کرنا ہے کہ دیگر پسماندہ طبقات میں کون ہوگا۔ میوزیکل اسکیل کا پانچواں نوٹ۔ بنگال پسماندہ طبقات بہبود کمیشن او بی سی کی فہرست کا تعین کرے گا۔ فہرست مقننہ کو بھیجی جائے۔ جن کے ناموں کو اسمبلی سے منظوری ملے گی انہیں مستقبل میں او بی سی سمجھا جائے گا۔ہائی کورٹ نے کہا کہ اصل میں مذہب ہی ان ذاتوں کو او بی سی قرار دینے کا واحد معیار معلوم ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے 77 زمروں کو پسماندہ کے طور پر منتخب کرنا پوری مسلم کمیونٹی کی توہین ہے۔ عدالت کا ذہن اس شبہ سے خالی نہیں کہ اس کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے ایک شے سمجھا جاتا رہا ہے۔ او بی سی میں 77 زمروں کو شامل کرنے اور ان کی شمولیت کا سلسلہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ اسے ووٹ بینک کے طور پر دیکھا گیا ہے۔دراصل ریاست کے ریزرویشن ایکٹ 2012 کی دفعات کو عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا۔ ہائی کورٹ نے گزشتہ روز ان درخواستوں پر حکم جاری کیا۔ عرضی گزاروں کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ 2010 کے بعد مغربی بنگال میں او بی سی کے تحت درج افراد کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہونے کا اندازہ ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا-مارکسسٹ (سی پی آئی-ایم) کی قیادت میں بائیں محاذ مغربی بنگال میں مئی 2011 تک اقتدار میں تھا اور اس کے بعد ترنمول کانگریس کی حکومت آئی۔اب عدالت نے متعلقہ فہرست سے 37 کلاسوں کو ہٹا دیا ہے جنہیں مغربی بنگال پسماندہ طبقات (درجہ فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے علاوہ) (سروسز اور پوسٹوں میں آسامیوں کے ریزرویشن) ایکٹ، 2012 کے تحت او بی سی کے طور پر ریزرویشن کا فائدہ حاصل تھا۔ عدالت نے اس طرح کی درجہ بندی کی سفارش کرنے والی رپورٹ کے غیر قانونی ہونے کی وجہ سے او بی سی کی فہرست سے 77 کلاسوں کو ہٹا دیا مغربی بنگال پسماندہ طبقات کمیشن سے مشورہ نہ کرنے پر مزید 37 کلاسوں کو ہٹا دیا گیا۔ بنچ نے 11 مئی 2012 کے ایک ایگزیکٹو آرڈر کو بھی منسوخ کر دیا جس میں کئی ذیلی دفعہ بنائے گئے تھے۔جسٹس تپبرتا چکرورتی اور جسٹس راج شیکھر منتھا کی ایک ڈویڑن بنچ نے اپنے 211 صفحات کے حکم میں واضح کیا کہ 2010 سے پہلے او بی سی کی 66 زمروں کی درجہ بندی کرنے والے ریاستی حکومت کے ایگزیکٹو آرڈرز میں مداخلت نہیں کی گئی تھی کیونکہ ان درخواستوں میں چیلنج نہیں کیا گیا تھا۔ عدالت نے ستمبر 2010 کے ایک ایگزیکٹو آرڈر کو بھی منسوخ کر دیا، جس نے او بی سی ریزرویشن کو سات فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کر دیا، اس بنیاد پر کہ کمیشن سے مشاورت نہیں کی گئی۔ اے کیٹیگری کے لیے دس فیصد اور بی کیٹیگری کے لیے سات فیصد ریزرویشن کا انتظام تھا۔ بنچ نے کہا کہ ریزرویشن کے فیصد میں 10 فیصد اضافہ سال 2010 کے بعد زمروں کو شامل کرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ انتخابی فوائد کے لیے مسلم کمیونٹی کے طبقات کو او بی سی کے طور پر تسلیم کرنا انہیں متعلقہ سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گا اور انہیں دیگر حقوق سے محروم کر سکتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ اس لیے اس طرح کا ریزرویشن جمہوریت اور پورے ہندوستان کے آئین کی توہین ہے۔
بہر حال ! کلکتہ ہائی کورٹ نے جس طرح کے حکم صاد ر کئے اس سے مغربی بنگال کی سی ایم ممتا بنرجی سخت ناراض چل رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو میں نہیں مانتی اور نہ قبول کرتی ہوںبلکہ اب ہائی کورٹ کے خلاف وہ سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گی۔ ممتا بنرجی کا ماننا ہے کہ قانون کے تحت اوبی سی مسلمانوں کو ریزویشن ملا ہے اس میں حکومت کے ذریعہ کوئی بھی منھ بھرائی نہیں ہے۔ ممتا بنرجی نے اعلان کیا ہے کہ او بی سی مسلم طبقات کو انکا حق ملتا رہے گا ان سے انکا حق کوئی نہیں چھین سکتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب تک مغربی بنگال میں ٹی ایم سی کی حکومت ہے حکومت ٹی ایم سی ہی چلائے گی نہ کہ عدالت۔ ایک بات تو اب صاف ہو گئی ہے کہ او بی سی مسلمانوں کو ریزویشن زمرے سے ہٹانے کا سلسلہ چل پڑا ہے اب اسی کو بنیاد بنا کر تلنگانہ کرناٹک بہار جھارکھنڈ اور دیگر ریاستوں کے اوبی سی مسلمانوں کے خلاف کبھی بھی کوئی ناخوشگوار خبریں آ سکتی ہیں۔ اور اسکے لئے بی جے پی نے بڑی شدت کے ساتھ مہم چھیڑ دی ہے۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ کلکتہ ہائی کورٹ نے جس طرح کا رخ اپنایا ہے وہ بڑی حد تک وہی رخ بی جے پی کا بھی ہے یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے پہلی فرست میں مسلم اوبی سی کے خلاف تلخ بیان بازی شروع کر دی ہے تاکہ وہ لوک سبھا2024 انتخابات کے آخری مرحلے میں کچھ ووٹوں کو پولورائزیشن کر سکیں کیوں کہ بی جے پی کے حق میں اس لوک سبھا انتخابات میں صحت مند خبریں موصول نہیں ہو رہی ہیں۔ پہلے ہی مرحلے سے ہی بی جے پی کی ووٹ کھسنے کی خبریں مل رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ پی ایم مودی دوسرے مرحلہ شروع ہوتے ہی مسلمانوں کے خلاف اپنے پرانے تیور میں آ گئے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ پی ایم مودی نے مسلمانوں کے خلاف کس طرح کا زہر اگلا۔
اب جبکہ آخری مرحلے میں او بی سی مسلم ریزویشن کا معاملہ سامنے آ گیا ہے تو انہیں لگ رہا ہے کہ آ خری آخری تک کس طرح سے ووٹ پولورائزیشن کرکے ووٹ اپنے حق میں کر لیا جائے اب اس میں بی جے پی کتنا کامیاب ہوگی یہ تو 4 جون کے رزلٹ سے ہی معلوم ہو جائے گا۔
8790193834