سورہ المائدہ آیت۔3 کی اہم باتیں!

0
0

۰۰۰
ریاض فردوسی
9968012976
۰۰۰
تم پر حرام کر دیا گیا مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جس پر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا نام پکارا جاتا ہے اور گلا گھٹنے سے مرنے والا ( جانور ) اور چوٹ لگنے سے مرنے والا ( جانور ) اور بلندی سے گر کر مرنے والا اور سینگ لگنے سے مرنے والا اور جسے درندے نے کھایا ہو مگر جسے تم نے ذبح کیا ہو اور جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ بھی (حرام ہے) کہ تم تیروں کے ساتھ قسمت کا حال معلوم کرو،یہ نافرمانی ہے۔آج تمہارے دین سے وہ لوگ مایوس ہو گئے جنہوں نے کفر کیا چنانچہ تم اْن سے نہ ڈرو اور تم مجھ سے ڈرو ، آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا ہے ، چنانچہ جو شخص بھوک میں مجبور کیا جائے کہ گناہ کے لیے مائل ہونے والا نہ ہو تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ بے حد بخشنے والا ، نہایت رحم والا ہے(سورہ المائدہ۔آیت۔3۔پارہ۔6)
صحیح احادیث سے واضح ہے کہ یہ آیت حج الوداع کے موقع پر نازل ہوئی ہے۔
امام حمیدی، امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی، امام نسائی، امام ابن جریر طبری، امام ابن منذر، امام ابن حبان، امام بیہقی نے اپنی تصانیف یعنی سنن میں حضرت طارق بن شہاب سے روایت نقل کی ہے کہ یہودیوں نے حضرت عمر بن خطاب سے عرض کی: آپ اپنی کتاب میں ایک آیت پڑھتے ہیں، اگر وہ آیت ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اْس دن کو عید بنا لیتے۔ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا: وہ کونسی آیت ہے؟ تو انھوں نے یہ آیت تلاوت کی۔ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں اْس دن کو خوب جانتا ہوں جس میں یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی، جس گھڑی میں وہ نازل ہوئی، اْسے بھی جانتا ہوں۔ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جمعہ کے دن یوم عرفہ کو نازل ہوئی۔
مستدرک حاکم میں ہے جبیر بن نفیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں، میں حج کے لئے گیا وہاں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھ سے فرمایا تم سورہ مائدہ پڑھا کرتے ہو؟ میں نے کہا ہاں، فرمایا سنو سب سے آخری یہی سورت نازل ہوئی ہے اس میں جس چیز کو حلال پاؤ، حلال ہی سمجھو اور اس میں جس چیز کو حرام پاؤ حرام ہی جانو۔(بخاری، کتاب الایمان، باب زیاد? الایمان ونقصانہ،28/1، الحدیث۔45، مسلم، کتاب التفسیر، ص۔1609، الحدیث: 5۔3017۔
نسائی فی الکبری:11138،قال الشخ اللبان:صحیح)
جو جانور ہم پر حرام ہیں ان کی تعداد کے علاوہ
اس آیت میں جس چیز کو حرام کیا گیا ہے،اس کی تین بڑی قسمیں دنیا میں پائی جاتی ہیں اور آیت کا حکم ان تینوں پر حاوی ہے۔
(1) مشرکانہ فال گیری،جس میں کسی دیوی یا دیوتا سے قسمت کا فیصلہ پوچھا جاتا ہے، یا غیب کی خبر دریافت کی جاتی ہے،یا باہمی نزاعات کا تصفیہ کرایا جاتا ہے۔ مشرکین مکہ نے اس غرض کے لیے کعبہ کے اندر ہبل دیوتا کے بت کو مخصوص کر رکھا تھا۔ اس کے استھان میں سات تیر رکھے ہوئے تھے جن پر مختلف الفاظ اور فقرے کندہ تھے۔ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا سوال ہو ، یا کھوئی ہوئی چیز کا پتہ پوچھنا ہو ، یا خون کے مقدمہ کا فیصلہ مطلوب ہو ، غرض کوئی کام بھی ہو ، اس کے لیے ہبل کے پانسہ دار ( صاحب القداح ) کے پاس پہنچ جاتے ، اس کا نذرانہ پیش کرتے اور ہبل سے دعا مانگتے کہ ہمارے اس معاملے کا فیصلہ کر دے۔ پھر پانسہ دار ان تیروں کے ذریعہ سے فال نکالتا ، اور جو تیر بھی فال میں نکل آتا ، اس پر لکھے ہوئے لفظ کو ہبل کا فیصلہ سمجھا جاتا تھا۔ ( 2 ) توہم پرستانہ فال گیری ، جس میں زندگی کے معاملات کا فیصلہ عقل و فکر سے کرنے کے بجائے کسی وہمی و خیالی چیز یا کسی اتفاقی شے کے ذریعہ سے کیا جاتا ہے۔ یا قسمت کا حال ایسے ذرائع سے معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جن کا وسیلہ علم غیب ہونا کسی علمی طریق سے ثابت نہیں ہے۔رمل،نجوم، جفر،مختلف قسم کے شگون اور نچھتر اور فال گیری کے بے شمار طریقے اس صنف میں داخل ہیں۔ ( 3 ) جوئے کی قسم کے وہ سارے کھیل اور کام جن میں اشیائ کی تقسیم کا مدار حقوق اور خدمات اور عقلی فیصلوں پر رکھنے کے بجائے محض کسی اتفاقی امر پر رکھ دیا جائے۔ مثلاً یہ کہ لاٹری میں اتفاقاً فلاں شخص کا نام نکل آیا ہے ، لہذا ہزار ہا آدمیوں کی جیب سے نکلا ہوا روپیہ اس ایک شخص کی جیب میں چلا جائے۔ یا یہ کہ علمی حیثیت سے تو ایک معمہ کے بہت سے حل صحیح ہیں ، مگر انعام وہ شخص پائے گا جس کا حل کسی معقول کوشش کی بنا پر نہیں بلکہ محض اتفاق سے اس حل کے مطابق نکل آیا ہو جو صاحب معمہ کے صندوق میں بند ہے۔ ان تین اقسام کو حرام کر دینے کے بعد قرعہ اندازی کی صرف وہ سادہ صورت اسلام میں جائز رکھی گئی ہے جس میں دو برابر کے جائز کاموں یا دو برابر کے حقوق کے درمیان فیصلہ کرنا ہو۔ مثلاً ایک چیز پر دو آدمیوں کا حق ہر حیثیت سے بالکل برابر ہے ، اور فیصلہ کرنے والے کے لیے ان میں سے کسی کو ترجیح دینے کی کوئی معقول وجہ موجود نہیں ہے ، اور خود ان دونوں میں سے بھی کوئی اپنا حق خود چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس صورت میں ان کی رضا مندی سے قرعہ اندازی پر فیصلہ کا مدار رکھا جا سکتا ہے۔ یا مثلاً دو کام یکساں درست ہیں اور عقلی حیثیت سے آدمی ان دونوں کے درمیان مذبذب ہو گیا ہے کہ ان میں سے کس کو اختیار کرے۔ اس صورت میں ضرورت ہو تو قرعہ اندازی کی جا سکتی ہے۔ نبی بالعموم ایسے مواقع پر یہ طریقہ اختیار فرماتے تھے جبکہ دو برابر کے حق داروں کے درمیان ایک کو ترجیح دینے کی ضرورت پیش آ جاتی تھی اور آپ کو اندیشہ ہوتا تھا کہ اگر آپ خود ایک کو ترجیح دیں گے تو دوسرے کو ملال ہو گا۔
سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم قربانی کے جانوروں کی آنکھیں اور کان دیکھ بھال کر خریدیں۔‘(سنن ابوداود:2804،قال الشخ اللبان:صحیح)
وہ جانور مذکورہ بالا حوادث میں سے کسی حادثے کا شکار ہو جانے کے باوجود مرا نہ ہو بلکہ کچھ آثار زندگی اس میں پائے جاتے ہوں،وہ جانور جو طبعی موت مر گیا ہو،اس کو اگر ذبح کر لیا جائے تو اسے کھایا جا سکتا ہے۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حلال جانور کا گوشت صرف ذبح کرنے سے حلال ہوتا ہے۔کوئی دوسرا طریقہ اس کو ہلاک کرنے کا صحیح نہیں ہے۔ یہ ’’ ذبح ‘‘ اور ’’ ذکا? ‘‘ اسلام کے اصطلاحی لفظ ہیں۔حلال کرنے کے وقت جانور کے حلق کا اتنا حصہ کاٹ دینا ہے جس سے جسم کا خون اچھی طرح خارج ہو جائے۔جھٹکا کرنے یا گلا گھونٹنے یا کسی اور تدبیر سے جانور کو ہلاک کرنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ خون کا بیشتر حصہ جسم کے اندر ہی رک کر رہ جاتا ہے اور وہ جگہ جگہ جم کر گوشت کے ساتھ چمٹ جاتا ہے۔ برعکس اس کے ذبح کرنے کی صورت میں دماغ کے ساتھ جسم کا تعلق دیر تک باقی رہتا ہے ، جس کی وجہ سے رگ رگ کا خون کھنچ کر باہر آ جاتا ہے اور اس طرح پورے جسم کا گوشت خون سے صاف ہو جاتا ہے۔ خون کے متعلق ابھی اوپر ہی یہ بات گزر چکی ہے کہ وہ حرام ہے ، لہذا گوشت کے پاک اور حلال ہونے کے لیے ضروری ہے کہ خون اس سے جدا ہو جائے۔
وہ جانور جس کو ذبح کرتے وقت اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو،یا جس کو ذبح کرنے سے پہلے یہ نیت کی گئی ہو کہ یہ فلاں بزرگ یا فلاں دیوی یا دیوتا کی نذر ہے۔
اصل میں لفظ ’’نصب” استعمال ہوا ہے۔
اس سے مراد وہ سب مقامات ہیں جن کو غیراللہ کی نذر و نیاز چڑھانے کے لیے لوگوں نے مخصوص کر رکھا ہو،خواہ وہاں کوئی پتھر یا لکڑی کی مورت ہو یا نہ ہو۔
ہماری زبان میں اس کا ہم معنی لفظ آستانہ یا استھان ہے جو کسی بزرگ یا دیوتا سے، یا کسی خاص مشرکانہ اعتقاد سے وابستہ ہو۔
اس جگہ پر یہ بات خوب سمجھ لینی چاہیے کہ کھانے پینے کی چیزوں میں حرام و حلال کی جو قیود شریعت کی طرف سے عائد کی جاتی ہیں،ان کی اصل بنیاد ان اشیاء کے طبی فوائد یا نقصانات نہیں ہوتے،بلکہ ان کے اخلاقی فوائد و نقصانات ہوتے ہیں۔جہاں تک طبیعی امور کا تعلق ہے،اللہ تعالیٰ نے ان کو انسان کی اپنی سعی و جستجو اور کاوش و تحقیق پر چھوڑ دیا ہے۔یہ دریافت کرنا انسان کا اپنا کام ہے کہ مادی اشیاء میں سے کیا چیزیں اس کے جسم کو غذائے صالح بہم پہنچانے والی ہیں اور کیا چیزیں تغذیہ کے لیے غیر مفید یا نقصان دہ ہیں۔ شریعت ان امور میں اس کی رہنمائی کی ذمہ داری اپنے سر نہیں لیتی۔اگر یہ کام اس نے اپنے ذمہ لیا ہوتا تو سب سے پہلے سنکھیا کو حرام کیا ہوتا۔
لیکن آپ دیکھتے ہی ہیں کہ قرآن و حدیث میں اس کا ، یا ان دوسرے مفردات و مرکبات کا ، جو انسان کے لیے سخت مہلک ہیں، سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ شریعت غذا کے معاملہ میں جس چیز پر روشنی ڈالتی ہے ، وہ دراصل اس کا یہ پہلو ہے کہ کس غذا کا انسان کے اخلاق پر کیا اثر ہوتا ہے ، اور کونسی غذائیں طہارت نفس کے لحاظ سے کیسی ہیں ، اور غذا حاصل کرنے کے طریقوں میں سے کون سے طریقے اعتقادی و نظری حیثیت سے صحیح یا غلط ہیں۔ چونکہ اس کی تحقیق کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے ، اور اسے دریافت کرنے کے ذرائع انسان کو میسر ہی نہیں ہیں ، اور اسی بنا پر انسان نے اکثر ان امور میں غلطیاں کی ہیں ، اس لیے شریعت صرف انہی امور میں اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ جن چیزوں کو اس نے حرام کیا ہے انہیں اس وجہ سے حرام کیا ہے کہ یا تو اخلاق پر ان کا برا اثر پڑتا ہے ، یا وہ طہارت کے خلاف ہیں ، یا ان کا تعلق کسی فاسد عقیدہ سے ہے۔ برعکس اس کے جن چیزوں کو اس نے حلال کیا ہے ، ان کی حلت کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان برائیوں میں سے کوئی برائی اپنے اندر نہیں رکھتیں۔ سوال کیا جا سکتا ہے کہ خدا نے ہم کو ان اشیاء کی حرمت کے وجوہ کیوں نہ سمجھائے ، تاکہ ہمیں بصیرت حاصل ہوتی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے وجوہ کو سمجھنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ مثلاً یہ بات کہ خون ، یا سور کے گوشت ، یا مردار کے کھانے سے ہماری اخلاقی صفات میں کیا خرابیاں رونما ہوتی ہیں ، کس قدر اور کس طرح ہوتی ہیں ، اس کی تحقیق ہم کسی طرح نہیں کر سکتے ، کیونکہ اخلاق کو ناپنے اور تولنے کے ذرائع ہمیں حاصل نہیں ہیں۔ اگر بالفرض ان کے برے اثرات کو بیان کر بھی دیا جاتا تو شبہ کرنے ولا تقریباً اسی مقام پر ہوتا جس مقام پر وہ اب ہے ، کیونکہ وہ اس بیان کی صحت و عدم صحت کو آخر کس چیز سے جانچتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے حرام و حلال کے حدود کی پابندی کا انحصار ایمان پر رکھ دیا ہے۔ جو شخص اس بات پر مطمئن ہو جائے کہ کتاب ، اللہ کی کتاب ہے اور رسول ، اللہ کا رسول ہے ، اور اللہ علیم و حکیم ہے ، وہ اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کی پابندی کرے گا ، خواہ ان کی مصلحت اس کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ اور جو شخص اس بنیادی عقیدے پر ہی مطمئن نہ ہو ، اس کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ جن چیزوں کی خرابیاں انسانی علم کے احاطہ میں آ گئی ہیں ، صرف انہی سے پرہیز کرے ، اور جن کی خرابیوں کا علمی احاطہ نہیں ہو سکا ہے ، ان کے نقصانات کا تختہ مشق بنتا رہے۔
جاہلیت کے زمانے میں ایک طریقہ یہ تھا کہ ایک مشترک اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت قرعہ اندازی کے ذریعے تقسیم کرتے تھے اور قرعہ اندازی کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ مختلف تیروں پر حصوں کے نام لکھ کر ایک تھیلے میں ڈال دیتے تھے، پھر جس شخص کے نام جو حصہ نکل آیا، اسے گوشت میں سے اتنا حصہ دے دیا جاتا تھا، اور کسی کے نام پر کوئی ایسا تیر نکل آیا جس پر کوئی حصہ مقرر نہیں ہے تو اس کو کچھ بھی نہیں ملتا تھا۔ اسی طرح ایک اور طریقہ یہ تھا کہ جب کسی اہم معاملے کا فیصلہ کرنا ہوتا تو تیروں کے ذریعے فال نکالتے تھے۔ اور اس فال میں جو بات نکل آئے اس کی پیروی لازم سمجھتے تھے۔ ان تمام طریقوں کو آیت کریمہ نے ناجائز قرار دیا ہے، کیونکہ پہلی صورت میں یہ جوا ہے، اور دوسری صورت میں یا علم غیب کا دعویٰ ہے، یا کسی معقول وجہ کے بغیر کسی بات کو لازم سمجھنے کی خرابی ہے۔ بعض حضرات نے آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ : اور یہ بات بھی (تمہارے لیے حرام ہے) کہ تم تیروں سے قسمت کا حال معلوم کرو۔ یہ دوسرے طریقے کی طرف اشارہ ہے اور آیت کے الفاظ میں اس ترجمے کی بھی گنجائش ہے۔
"الیوم”سے مراد کوئی خاص دن اور تاریخ نہیں ہے۔ بلکہ وہ دور یا زمانہ مراد ہے جس میں یہ آیات نازل ہوئی تھیں۔ہماری زبان میں بھی آج کا لفظ زمانہ حال کے لیے عام طور پر بولا جاتا ہے۔
’’کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے مایوسی ہو چکی ہے‘‘یعنی اب تمہارا دین ایک مستقل نظام بن چکا ہے اور خود اپنی حاکمانہ طاقت کے ساتھ نافذ و قائم ہے۔کفار جو اب تک اس کے قیام میں مانع و مزاحم رہے ہیں،اب اس طرف سے مایوس ہو چکے ہیں کہ وہ اسے مٹا سکیں گے اور تمہیں پھر پچھلی جاہلیت کی طرف واپس لے جا سکیں گے۔
’’لہذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔یعنی اس دین کے احکام اور اس کی ہدایات پر عمل کرنے میں اب کسی کافر طاقت کے غلبہ و قہر اور در اندازی و مزاحمت کا خطرہ تمہارے لیے باقی نہیں رہا ہے۔ انسانوں کے خوف کی اب کوئی وجہ نہیں رہی۔اب تمہیں خدا سے ڈرنا چاہیے کہ اس کے احکام کی تعمیل میں اگر کوئی کوتاہی تم نے کی تو تمہارے پاس کوئی ایسا عذر نہ ہو گا جس کی بنا پر تمہارے ساتھ کچھ بھی نرمی کی جائے۔اب شریعت الہٰی کی خلاف ورزی کے معنی یہ نہیں ہوں گے کہ تم دوسرں کے اثر سے مجبور ہو،بلکہ اس کے صاف معنی یہ ہوں گے کہ تم خدا کی اطاعت کرنا نہیں چاہتے۔
دین کو مکمل کر دینے سے مراد اس کو ایک مستقل نظام فکر و عمل اور ایک ایسا مکمل نظام تہذیب و تمدن بنا دینا ہے جس میں زندگی کے جملہ مسائل کا جواب اصولاً یا تفصیلاً موجود ہو اور ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔نعمت تمام کرنے سے مراد نعمت ہدایت کی تکمیل کر دینا ہے،اور اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کر لینے کا مطلب یہ ہے کہ تم نے میری اطاعت و بندگی اختیار کرنے کا جو اقرار کیا تھا،اس کو چونکہ تم اپنی سعی و عمل سے سچا اور مخلصانہ اقرار ثابت کر چکے ہو،اس لیے میں نے اسے درجہء قبولیت عطا فرمایا ہے اور تمہیں عملاً اس حالت کو پہنچا دیا ہے کہ اب فی الواقع میرے سوا کسی کی اطاعت و بندگی کا جوا تمہاری گردنوں پر باقی نہیں رہا۔
اب جس طرح اعتقاد میں تم میرے مسلم ہو،اسی طرح عملی زندگی میں بھی میرے سوا کسی اور کے مسلم بن کر رہنے کے لیے کوئی مجبوری تمہیں لاحق نہیں رہی ہے۔ان احسانات کا ذکر فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ سکوت اختیار فرماتا ہے،مگر انداز کلام سے خود بخود یہ بات نکل آتی ہے کہ جب یہ احسانات میں نے تم پر کیے ہیں تو ان کا تقاضا یہ ہے کہ اب میرے قانون کی حدود پر قائم رہنے میں تمہاری طرف سے بھی کوئی کوتاہی نہ ہو۔مستند روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت حج الوداع کے موقعہ پر سن 10 ہجری میں نازل ہوئی تھی،لیکن جس سلسلہء کلام میں یہ واقع ہوئی ہے،وہ صلح حدیبیہ سے متصل زمانہ (سن۔6 ہجری) کا ہے،اور سیاق عبارت میں دونوں فقرے کچھ ایسے پیوستہ نظر آتے ہیں کہ یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ ابتدائمیں یہ سلسلہ کلام ان فقروں کے بغیر نازل ہوا تھا اور بعد میں جب یہ نازل ہوئے تو انہیں یہاں لا کر نصب کر دیا گیا۔ میرا قیاس یہ ہے ، وَ العِلمْ عِندَ اللہ، کہ ابتداء یہ آیت اسی سیاق کلام میں نازل ہوئی تھی اس لیے اس کی حقیقی اہمیت لوگ نہ سمجھ سکے۔ بعد میں جب تمام عرب مسخر ہو گیا اور اسلام کی طاقت اپنے شباب پر پہنچ گئی ، تو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ یہ فقرے اپنے نبی پر نازل فرمائے اور ان کے اعلان کا حکم دیا۔
بعض مفسرین کا قول ہے کہ دین کامل کرنے کے معنی اسلام کو غالب کرنا ہے جس کا یہ اثر ہے کہ حج الوداع میں جب یہ آیت نازل ہوئی تو کوئی مشرک مسلمانوں کے ساتھ حج میں شریک نہ ہوسکا۔ایک قول یہ ہے کہ ا?یت کا معنیٰ یہ ہے کہ میں نے تمہیں دشمن سے امن دی، ایک قول یہ ہے کہ دین کا اِکمال یعنی مکمل کرنایہ ہے کہ وہ پچھلی شریعتوں کی طرح منسوخ نہ ہوگا اور قیامت تک باقی رہے گا۔(خازن، المائد?، تحت الای?:3، 1/ 464)
آخر میں!
احناف کے نزدیک دریائی جانوروں میں صرف مچھلی حلال ہے، باقی کوئی جانور حلال نہیں، اور مچھلیوں میں بھی جو مچھلی طبعی موت مرکر پانی میں الٹی تیرنے لگے وہ بھی جائز نہیں، اور خشکی کے جانوروں میں جو جانور یا پرندے دانت یا بنجوں سے شکار کرتے ہیں جیسے: شیر، چیتا، بھیڑای، لومڑی، ریچھ، گیدڑ، بجّو، بندر، ہاتھی، بلی شکرہ، باز ارو گدھ وغیرہ یا ان کی غذا صرف گندگی اور مردار وغیرہ ہو جیسے سور اور کتا وغیرہ یا ان میں خون بالکل نہیں ہوتا جیسے: بھڑ، مکھی، مکڑی اور بچھو وغیرہ یا ان میں بہنے والا خون نہیں ہوتا جیسے: سانپ، چھپکلی، گرگٹ، نیولا، تمام زمین کے اندر رہنے والے جانور اور کیڑے مکوڑے، حرام ہیں، ا لبتہ ٹڈی میں خون نہیں ہوتا، پھر بھی وہ حلال ہے، باقی دیگر سب جانور حلال ہیں، جیسے: اونٹ، بھینس، گائے، بکرا، بکری، بھیڑ، دنبہ، ہرن، نیل گائے، بطخ، مرغابی، کبوتر، طوطا، مینا، فاختہ اور بٹیر وغیرہ
(بدائع الصنائع۔4: 144-153، مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند، فتاوی عالمگیری 5: 289 مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند، رد المحتار 9: 441- 445مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند اور بہشتی زیور مدلل 9: 60، مطبوعہ کتب خانہ اختری متصل مظاہر علوم سہارن پور)

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا