بدیع الزماں ندوی قاسمی
اس میں شک نہیں کہ قربانی اسلامی تعلیمات کا ایک اہم حصہ ، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ اورمالی عبادت ہے۔ اوراس میں بھی شک نہیں کہ قربانی کے جانوروں کی خریداری پر چھوٹے بڑے جانوروں کے حساب سے ایک خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ کچھ لوگ اپنے علاوہ اپنے والدین ، بچوں ، مرحومین ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر لوگوں کی طرف سے بھی قربانی دیتے ہیں۔اس مقصد کے لیے بسااوقات وہ بہت سے چھوٹے جانور یا ایک بڑا جانور خرید لیتے ہیں ، جن کی خریداری پر اچھی خاصی رقم خرچ ہو تی ہے۔ بعض ظاہربین لوگ قربانی پراعتراض کرتے ہیں اوریہ سمجھتے ہیں کہ قربانی پر اتنی زیادہ رقم خرچ کرنے کی بجائے اسی رقم سے اگر کسی غریب کی مدد کردی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ ان کے نزدیک یہ قربانی نہیں کہ آپ کے اردگرد ، محلے اورقرب و جوار میں کوئی غریب آدمی ہو اور آپ اس کی مدد کرنے کی بجائے بھار ی رقم سے قربانی کا جانور خرید لیں۔
قربانی جیسی مقدس عبادت پر اس بے جا اعتراض کے متعلق عرض یہ ہے کہ جس رب نے امتِ مسلمہ کے لیے قربانی کو لازم قرار دیا ہے اسی رب نے صاحبِ نصاب آدمی پر زکو? بھی فرض کی ہے اور اس کے علاوہ دیگر صدقات کی بھی ترغیب دلائی ہے۔ ظاہرہے جو آدمی بھاری رقم خرچ کر کے ایک قیمتی جانور خرید تا ہے وہ صاحبِ نصا ب اورصاحبِ حیثیت آدمی ہے اور ایسے آدمی پر زکوٰ? یقیناً فرض ہے۔ اسلام نے اس پر قربانی کے ساتھ ساتھ زکو? بھی فرض کی ہے۔ اس لیے زکوٰۃ اوردیگر صدقات کی مد سے غریبوں کی مدد کی جاسکتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں شادی بیاہ ، تفریحِ طبع اور دیگر دعوتوں پر بے تحاشا رقوم خرچ کی جاتی ہیں۔ محض نمودو نمائش کے لیے قیمتی لباس زیبِ تن کیاجاتا ہے۔ روزانہ بہت سارا کھانا ضائع ہو جاتا ہے۔ ان تمام فضول کاموں پر خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے اور ایسا ہم روزانہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ ان تمام فضول رسم و رواج اور تفریحات پر جب بھاری رقوم خرچ کی جاتی ہیں بلکہ ضائع کی جاتی ہے تب ان لوگوں کو نہ تو غریب کی بیٹی نظر آتی ہے اور نہ ہی کوئی ضرورتمند دکھائی دیتا ہے۔ ان تمام فضولیات پراعتراض کرنے کی بجائے محض قربانی کو ہدفِ تنقید بنانا دین سے دور ی اور اسلامی تعلیمات سے بیزاری کا نتیجہ ہے۔
اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ قربانی دینے میں بھی غریبوں کا فائد ہ ہے۔ ہمارے ہاں بے شمار غریب لوگ ایسے ہیں جنہیں سال بھر گوشت کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ قربانی کے اس عمل سے سال میں ایک بار انہیں بھی یہ نعمت میسر ہوتی ہے۔ بہت سے غریب لوگ سال بھر جانوراسی ارادے سے پالتے ہیں کہ عید پر انہیں بھی کچھ رقم حاصل ہوجائے گی۔ قربانی کی وجہ سے جانوروں کی افزائشِ نسل کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ ان کے چارے اوردیگر ضروریات کو پورا کرنے سے بھی بہت سے لوگوں کا روزگاروابستہ ہے۔ قربانی کے جانوروں کی کھالوں کے بہت سے مصارف ہیں۔ اس وجہ سے چمڑے کے کاروبار کو خوب ترقی ملتی ہے۔ قربانی کی کھالیں فلاحی اداروں، مدارس اوردیگر نیک مقاصد کے لیے دی جاتی ہیں جن سے حاصل ہونے والی رقوم بھی غریبوں کے کا م آتی ہیں۔ اورسب سے بڑھ کریہ کہ دسویں ذی الحجہ کو اللہ رب العالمین کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل جانوروں کا خون بہانا یعنی قربانی ہے۔ ایک سچے مسلمان کے پیش ِنظر فقط رضائے الہی کا حصو ل ہوتا ہے اور وہ مالک کے حکم کے سامنے سرجھکادیتا ہے۔ جب اللہ تعالی جو سارے جہانوں کا خالق بھی ہے اورمالک بھی اورجس نے پوری مخلوق کو رزق دینے کا ذمہ لے رکھا ہے ، اس کی رضا جانوروں کی قربانی میں ہے تو ایک مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ حکمِ خداوندی کے سامنے اپنی تاویلات اورتوجیہات پیش کرکے غریبوں کا ہمدرد، معاون اورغمگسار بنتا پھرے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو قربانی کی اصل روح سمجھتے ہوئے جانور کو اللہ کی راہ میں ذبح کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور
قربانی کے بارے میں غلط تاویلات اورتوجیہات سے ہرمسلمان کی حفاظت فرمائے۔