مسلمانوں کے زوال کے چند اسباب!

0
106

۰۰۰
ریاض فردوسی۔
9968012976
۰۰۰
سب سے پہلی وجہ مسلمانوں کی تعلیم سے بے رخی اور دوری ہے۔تعلیم سے مراد علم دین اور علم دنیا دونوںہی ہیں، ایک انسان دنیاوی تعلیم حاصل کرکے اچھی نوکری تو پا سکتا ہے، بینک بیلنس جمع کر سکتا ہے، اچھا مکان بنا سکتا ہے، عیش و آرام کے سامان مھیا کر سکتا ہے، جسے دیکھ کر کوئی شخص بھی بول سکتا ہے کہ اس نے کافی ترقی کی ہے،یہ شخص کامیاب و کامران ہے، لیکن اس کی کامیابی صرف مادی ہے۔ علم دین کے بغیر وہ اخلاقی تعلیم اور تربیت سے محروم ہے۔ جس کی وجہ سے زندگی کے تنازعات اور اہم فیصلوں میں اسے رہنمائی حاصل نہیں ہوتی۔ جتنے بھی جرائم آج ہو رہے ہیں ،زیادہ تراس میں غیر دینی تدریسی اداروں کے لوگ ہی ملوث پائے جاتے ہیں،کیونکہ اسکولوں اور کالجوں میں اخلاقی تعلیم فراہم ہی نہیں کی جاتی ہے، اس لئے مسلمانوں کو چاہئیے کہ وہ علم دین و دنیا دونوں ہی حاصل کریں۔
مسلمانوں کی حکومت ایشیا ،افریقہ اور یورپ براعظم کے بعض علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی تو یورپ کے لوگ علم کے تحصیل کے لئے مصر، بغداد اور اسپین کے Universities میں پڑھنے کے لئے آتے تھے ۔وہ لوگ عربی زبان میں لکھی ہوئی سائنس ،علمِ فلکیات، طب، فلسفہ ،ریاضیات اور دیگر کتابوں کا غیر عربی زبانوں میں ترجمہ کرکے استفادہ حاصل کرتے تھے۔ دورِ حاضر میں وہی لوگ ہم سے آگے نکل گئے اور ہم تعلیم کے میدان میں ان سے پیچھے رہ گئے۔
دوسرا سبب علمی تعصب ہے، بعض لوگ دنیاوی تعلیم سے biased اور prejudiced ہوتے ہیں وہ دنیاوی تعلیم کو اصل تعلیم ہی نہیں سمجھتے اسے حقیر جانتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اصل علم تو دین کاہی علم ہے ،کبھی تو یہ بھی سننے کو ملتا ھے کہ دنیا بنانا ہے تو science پڑھو اورآخرت بنانا ھے تو دین پڑھو۔ ایک صاحب تو اسکول اور کالج کے سرٹیفکیٹ کو کاغذ کی رسید کہتے ہیں ۔بعض لوگ لڑکیوں کے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خلاف ہیں، دنیاوی تعلیم کے متعلق لوگوں کا یہ رویہ ٹھیک نہیں ھے ۔علم توعلم ھے۔ ہر علم کی اپنی الگ الگ نوعیت ھے ۔ہمیں ہر نفع بخش علم کو حاصل کرنا چاہئے۔قرآن مجیدکے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ علم کے بارے میں اس طرح کا کوئی فرق نہیں ھے۔ ایک طرف اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کے نام سکھائیں،تو دوسری طرف علم ِہدایت بھی بتائیں، ذوالقرنین ؑکا واقعہ پڑھنے سے معلوم ہوتا ھے کہ بادشاہ کو اس زمانے میں آج کی اصطلاح میں انجینئرنگ کا علم بھی حاصل تھا ۔ جس کی بدولت اس بادشاہ نے قوم کو یاجوج ماجوج کے ظلم و ستم سے بچانے کے لئے ایک دیوار بنائی تھی(مزید مطالعہ سورہ کہف آیت۔83تا98)
تیسرا سبب ہماری قوم کے بچوں اوربچیوں کا science سے بے رغبتی اور دوری ہے۔ آج بھی دسویں جماعت کاامتحان پاس کرنے کے بعد بہت کم لڑکے اور لڑکیاں science لے کر پڑھتے ہیں۔
بہت سے ہائر سیکنڈری اسکولوں میں سائنس کا شعبہ ہی نہیں ہے ۔واضح ہو کہscientific حقائق کا جتنا قران پاک میں بیان ہواہے، اتنا تو آج کے تحریف شدہ الحامی کتابیں توریت ،زبور اورانجیل میں بھی ذکر نہیں ہوا ۔ سورہ آلِ عمران آیت نمبر ۔191 میں اللہ تعالیٰ لوگوں کو زمین اور اسمانوں کی تخلیق پر تفکر کرنے کی دعوت دے رہا ہے، کائنات کی ترتیب وار تخلیق، سورج اور چاند کی گردشیں، ہواوں، پہاڑوں، بادلوں، بجلی کا ذکر، ماں کے پیٹ میں بچے کی stagewise پیدائش کاذکر قران پاک میں ہی ملتا ہے۔ کیا یہ تمام باتیں مسلمانوں کو science پڑھنے کی ترغیب نہیں دے رہی ہیں؟
آج دنیا میں وہی ممالک اورا قوام آگے ہیں،جہاں کے لوگ science پڑھنے میں آگے ہیں۔ پچھلے کئی صدیوں سے جو بھی چیزیں ایجاد ہوئی ہیں، ان سب کا سہرا غیرمسلموں کو رہا ہے۔ مسلمانوں کا خاص کر اس برصغیر کے مسلمانوں کاکوئی کردار نہیں ہے، صبح اٹھنے سے لے کر رات کو سونے تک Tongue cleaner اور مچھر بھگانے کے لئے Goodnight تک جتنے بھی سامان ہم اپنی زندگی میں استعمال کرتے ہیں ،سب کا سب یہودی ،نصرانی اورغیرمسلموں کا ایجاد کیاہواہے(الاماشاء اللہ)
چوتھا سبب قوم مسلم کی فرسودہ سوچ اور منفی mindset ہے (الاماشا ء اللہ)یہ قوم اپنے پچھرے پن اور مغلوبیت کی وجہ سے اپنے اندرکی کمزوریوں کو ڈھونڈنے کے بجائے ،دوسروں کو قصوروار ٹھرانے میں لگی ہوئی ہے ۔
جب دیکھے تو اسرائیل ،امریکہ اور دیگر یوروپین ملکوں کو ہی زمہ دار ٹھراتی ہے، ہمارے ملک بھارت میں بھاجپا اور آر ایس ایس کارونا روتی ہے۔اسے اپنی خامیاں،کوتاہیاں،خرابیاں نظر نہیں آتی۔
قوم مسلم ہر وقت یہ سوچتی ہے کہ امریکہ اور یہودی،بھارت میں بھاجپا،سنگھ اور دیگر اسلام دشمن عناصر اس کے خلاف سازش کررہے ہیں،یہودی اورنصرانی مسلمانوں کے مستقل دشمن ہیں،لیکن ہم مسلمان اس غفلت میں ہیں کہ ہم بہترین امت ہیں،ہم سے کچھ مواخذاہ ہی نہیں کیا جائے گا؟
یہودی بھی اسی طرح سوچتے تھے کہ ہم لوگ تو اللہ کے بیٹے اور چہیتے ہیں،ان کی اسی ناسمجھی پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو بتائو!اللہ تمہیں عذاب کیوں دیتا ہے؟ ہم بھی یہی سوچتے ہیں کہ ہم تو خیر امت ہیں بھلے ہی ہم معروف کام کریں یا نہیں اور نہ ہی منکر سے خود کواور دوسروں کو روکیں ،جس طرح اللہ تعالی نے یہودیوں کو ان کے غیر اخلاقی اعمال کے وجہ سے Nebuchadnezzar کو ان پر مسلط کر دیا جس نے Solomon Temple کو برباد کر دیا اور بعد میں Roman Titus نے 70AD میں دوسری بار ہیکل سلیمانی کو توڑ پھوڑ دیا، ٹھیک اسی طرح اللہ تعالی نے مسلمانوں کے بداعمالیوں کے وجہ سے قدیم دور خلافت عباسیہ میں مسلمانوں پر ہلاکوخان اور جدید دور میں America کو ہم پر مسلط کر دیا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے تنزلی کے صحیح اسباب کا پتہ لگائیں اور اسے دور کرنے کی کوشش کریں ۔
اس چکر سے نکلے کی فلاں ہمارے خلاف سازش کر رہا ہے اور اگر وہ کربھی رہا ہے تو ہم کیوں نہیں ان کے خلاف سازش کر پاتے ہیں آخر Americans اور دیگر لوگوں کی طرح ہم بھی ایک سر اور دو ٹانگوں والے انسان ہیں؟
پانچواںسبب اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر غیروں کا قبضہ ہے۔سورہ بقرہ آیت نمبر۔ 29 میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین میں جو کچھ ہے سب پیدا کیا۔ اس سے مراد مطعومات، مشروبات اور ملبوسات تو ہے ہی اس میں ان چیزوں کو بھی شامل کر لیجئے، جو زمین کے اندر مدفون ہیں، اس کے علاوہ wind اور water بھی ہیں جس سے wind energy hydroelectricity پیدا ہوتی ہے۔ایک لفظ میں کہے تو اللہ کی نعمتیں ،قدرتی ذرائع اور وسائل پر مسلمانوں کا نہیں ،بلکہ غیر مسلموں کا قبضہ اور کنٹرول ہے، خلیج ممالک میں تیل کے کنویں تو ہیں، لیکن تیل نکالنے کا مشین سب گوروں نے ایجاد کیا ہے۔ یہودی اور نصرانی ہر وقت اللہ کی نعمتوں کا دریافت کرنے میں لگے ہوے ہیں، ابھی امریکہ اپنے ہی ملک میں پیٹرول اور ڈیزل کا متبادل shell gas دریافت کر چکا ہے، Geographical exploration کے سبب جب امریکہ اور افریکہ (Dark continent) کا دریافت ہوا اور وہاں ان کو قدرتی خزانوں کا پتہ چلا تو Dutch Portugeee French اورBritish وہاں پہونچ گئے اور وہاں اپنی colony قائم کی اور ان قدرتی خزانوں کے مالک بن بیٹھے اور خوب فائدہ حاصل کیا ،غفلت کے سبب مسلمان ان تمام چیزوں سے محروم رہ گئے۔

مسلمانوں کا مسلمان ہونے پرشرم!
ایکٹر نصیرالدین شاہ نے اسلام سے متعلق جو بیان دیا ہے وہ بے حدشرمناک اور قابل مذمت ہے، جرائم کے لئے اللہ تعالیٰ نے جن سزاؤں کا حکم دیا ہے اس کی تنقید کرنے سے وہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے(اس کا فیصلہ امارت شرعیہ یا ہمارے قابل قدر مفتیان اکرام و فقہا عظام کریں گے)
نصیرالدین شاہ کو چور کے ہاتھ کاٹنے اور بدکار ی کرنے والوں کو سنگسار کرنے کی سزاؤں پر تنقید نہیں کرنی چاہئے تھی۔ انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ مومن کی شادی صرف مومن سے ہی ہو سکتی ہے۔
اسی طرح سلمان خان اور اسکا پورا خاندان ،گنیش کی عبادت کرتا ہے۔ یہ تو مبین شرک اور کفر ہے، ممبئی کے ایک علماء کے وفد کو ان لوگوں سے مل کر ان کے عقائد کی خرابیوں کو بتانا چاہئے تاکہ وہ توبہ کر سکے اور اسلام پر مکمل قائم رہ سکے۔اللہ تعالیٰ نے جس طرح سے ہم پر احسان کیا ہے کہ ہم اسلام کی صحیح تعلیمات سے واقف ہیں، ہمیں بھی چاہئے کہ دوسرے لوگوں کو جو دین کی تعلیمات سے ٹھیک ٹھیک واقف نہیں ہیں،
انہیںدین کی دعوت دیں تاکہ وہ گمراہ کن باتوں سے اجتناب کریں۔مسلمانوں میں ایک خطرناک بیماری پیدا ہو چکی ہے کہ ہماری اکثریت مذہب کو انفرادی واجتماعی اصلاح کے بجائے مالی وذاتی فائدہ کے لیے استعمال کر رہی ہے اور ان لوگوں کو اس کا احساس تک نہیں ہے۔ اسلام کا اولین مقصد ہر ایک کی اصلاح ہے، لیکن اسلام کے اس اصول پر شائد ہی کوئی قائم نظر آتاہے۔وعدہ خلافی ہمارے معاشرے میں اس قدر عام ہے کہ شائد ہی کوئی شخص اسے خراب سمجھتا ہو۔ جھوٹ کی کثرت سے گھر، بازار،دفاتر،مساجد اور مدارس اٹے پڑے ہیں۔ حیرت کی انتہا اس بات کی ہے کہ مسلمان تاجر اپنی چیزوں کو فروخت کرنے کے لیے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا استعمال کرتااور سہارا لیتاہے۔ شہد،کھجور،کلونجی اور دیگر اشیاء بیچتے وقت اسے مذہبی شعار بتایا جاتا ہے۔اسکولوں،کالجوں،دکانوں،ہسپتالوں کے نام مکہ،مدینہ، اسلامی واقعات اوراسلامی شخصیات کے نام پر رکھے جاتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے جذبات کا فائدہ اٹھایا جاسکے۔
اہم نصیحت!
اسلام اورمسلمانوں کے تعلق سے غلط فہمیوں کودورکرنے کے لئے انفرادی واجتماعی روابط ضروری ہے، وفود کے ذریعے ملاقاتیں،بلاتکلف گفتگوئیں، سمپوزیم، سمینار، تقاریر و خطابات، کارنر میٹنگیں وغیرہ کا اہتمام کرنا ہوگا۔ Inter Faith Dialouge یعنی مختلف مذہبی لیڈروں اورقائدین کے درمیان مذاکرات بھی اس سلسلے میں مفید اورمؤثرثابت ہوسکتے ہیں۔ مستشرقین اورآریہ سماجیوں نے ماضی میں اسلام اورپیغمبر اسلامﷺ پر کئی حملے کئے توہمارے علماء کرام نے عیسائی پادریوں اور ہندو رہنمائوں سے مناظرے کیے اورشکست دی،لیکن اس قسم کے مناظروں سے اسلام کی عظمت ورفعت اورمسلمانوںمیں اعتماد اورحوصلہ توپیداہوتاہے لیکن فریق ثانی کو اسلام کا قائل نہیں کرایا جاسکتا، کیوں کہ مناظرے میں ایک فریق ہارتااوردوسراجیتتاہے جب کہ دعوت کا کام دلوں اور دماغوں کومتاثرکرنا اورمدعوکے دل میں داعی سے انس پیداکرنا اوراس کے دل و دماغ میں سوالات پیداکرکے اسے سوچنے اورغوروفکرکرنے کا موقع دینا ہے۔اس لیے آج کے دور میں مناظرہ Debate کے بجائے مکالمہDialogueکی ضرورت ہے۔ مکالمے ومذاکرے میں فریق کے دلائل کوسننا،اس کے اچھے نکات کی تعریف کرنااوربعض اختلافی باتوںپر دلائل کے ساتھ گفتگوکرنا ضروری ہے۔مکالمے میں اپنی بات کوپوری سوجھ بوجھ کے ساتھ پیش کرنا ایک فن ہے اوراپنی بات کی مؤثراندازمیں ترسیل کرنا Effective Communication دور جدید کا ایک آرٹ ہے۔ ہماری دعوتی منصوبہ بندی میں اس قسم کے ماہرین کو تیارکرنا بھی ضروری ہے۔بیعت عقبہ ثانی کے بعد رسولﷺ نے مدینہ کے سرداروں کی فرمائش پر کہ ان کے پاس ایسا معلم بھیجیں جوانھیں اسلام کی تعلیم دے سکے،توآپﷺ نے سیدنا مصعب بن عمیرؓ کوبھیجاجوبہت ہی مخلص اور ماہر نفسیات صحابی تھے،لوگوں کواسلام پرآمادہ کرنے کی غیرمعمولی صلاحیتیں ان میں موجودتھیں۔سیرت رسولﷺ میں ’’حلف الفضول‘‘کا ذکرآتاہے جوجاہلیت کے دورمیں طاقت ور ظالموں سے انصاف کے حصول کے لئے قابل ذکر مشترکہ ادارہ تھا اورخود نبی اکرمﷺ نے خواہش ظاہر فرمائی تھی کہ اگراس قسم کی تنظیم پھربنے تواس میں شامل ہونا آپﷺ پسند فرمائیں گے۔
آخر میں!
آسٹریلیائی کرکٹ بورڈ کا یہ شرط رکھنا کہ اسٹریلیا کی مردوں کی کرکٹ ٹیم افغان مرد کرکٹ ٹیم کے ساتھ کرکٹ اس شرط پر کھیلے گی ہے، جب افغانستان کی نئی حکومت وہاں کی خواتین کرکٹ ٹیم کو کھیلنے کی اجازت دیں، اس طرح کا شرط ایک ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کے برابر ہے، جو قابل مذمت ہے۔ اگر پاکستانی کرکٹ ٹیم نے یہ شرط رکھی ہوتی کہ T 20 کرکٹ میں چوکے اور چھکے پر ناچنے والی لڑکیاں نقاب میں ہوگی تو آج عالمی پیمانے پر بڑاہنگامہ کھڑا ہوجاتا،تمام پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیامسلمانوں کے پیچھے پڑ جاتاکہ اسلام ایک دکیانوسی مذہب ہے اور مسلمان ایک جاہل قوم۔اس لئے کوئی ہنگامہ نہیں ہے کہ اسٹریلیا مسلمانوں کاملک نہیں ہے۔دور حاضر میں ترقی یافتہ ملکوں کے لوگ اور ان کے حکمرانوں کے نزدیک اسلام اور مسلمانوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے،وہ ہمیں صرف استعمال کی چیز سمجھتے ہیں۔
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا