کیا اس دفعہ بی جے پی اپنے مقصد میں کامیاب ہوگی

0
98

۰۰۰
بینام گیلانی
۰۰۰
وقت دنیا کا سب سے بڑا ممتحن ہے اور وقت کا امتحان دنیا کا سب سے اہم امتحان ہوتا ہے۔لیکن افسوس دنیا کے بیشتر انسان اسے تسلیم کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔اس کا سبب شاید یہ ہے کہ ہر بشر آج خود ہی کو وقت کا خالق و مالک تصور کر بیٹھا ہے۔ہر انسان آج یہ سمجھتا ہے کہ وقت کا لگام تو انسانوں کے ہاتھوں میں ہی ہے۔انسان وقت کا رخ جس جانب چاہے موڑ سکتا ہے۔ لوگ اس امر کو تو تسلیم کرتے ہیں کہ وقت تغیر پسند ہے لیکن انہیں یہ علم قطعی نہیں کہ وقت انتقام بھی لیتا ہے اور انسانوں کو شکست فاش سے دوچار بھی کرتا ہے نیز خون کے آنسو رونے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔اس کی مثال تاریخ انسانی میں بہت قدیم بھی ہے اور وسیح بھی ہے۔لیکن معلوم نہیں کیوں اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے سے انسان قاصر نظر آتا ہے۔یہ مسلسل اپنی خدائی کے قیام کے لئے کوشاں نظر آتا ہے۔امروز یہ انسانوں کی عام سی صفت ہو کر رہ گئی ہے۔اس سے متاثر زندگی کے تمام شعبوں میں انسان نظر آتے ہیں۔لیکن یہ احساس خدائی اہل سیاست میں شدت سے نظر آتا ہے۔ آئے بھی کیوں نہیں۔اج سیاست ہی ایک ایسا شعبہئ￿ حیات ہے جو زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہی صفت ہے کہ اہل سیاست خود اپنی نگاہوں میں خدائی کے درجے تک پہنچے نظر آتے ہیں۔
بات جب اہل سیاست کی نکل ہی آئی ہے تو ہندوستان کی سیاست اور اہل سیاست کی باتیں خصوصی طور سے کیوں نہ کی جائیں۔ہندوستان ایک قدیم و وسیع جمہوری ملک ہے۔یہاں کئی سیاسی جماعتیں فعال و متحرک ہیں۔ان میں کئی سیاسی جماعتوں کی ایک وسیع ورکنگ کمیٹی ہے جو کئی افراد پر مشتمل ہے۔لیکن کئی سیاسی جماعتیں ایسی بھی ہیں جن میں کئی کئی افراد پر مشتمل ورکنگ کمیٹیاں تو ہیں لیکن حقیقتاً وہاں حتمی فیصلہ لینے کا اختیار صرف ایک دو انسانوں کو ہی ہوتا ہے۔بقیہ لوگ ان میں نام نہاد کو ہی ہوتے ہیں۔ایسی ہی کچھ سیاسی جماعتوں میں ایک جماعت بی جے پی بھی ہے۔جس کے کارکنان اور ارکان کی تعداد لاکھوں میں ہے لیکن حتمی فیصلہ لینے کا حق صرف اور صرف دو انسانوں کو ہی ہے۔ان دو میں پہلا نام شری دامودر داس نریندر مودی کا ہے اور دوسرا نام نامی شری امیت شاہ کا ہے۔اس وقت یہی دونوں بی جے پی کے روح رواں نظر آتے ہیں بقیہ لوگوں کا تو نام بھی گوش گزار نہیں ہوتا ہے جبکہ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس سیاسی جماعت سے آج بھی ایسے اسمائے گرامی منسلک ہیں جن کی کبھی اس جماعت میں طوطی بولا کرتی تھی۔اج وہ تمام بی جے پی کے دیرینہ اور بزرگ ساتھی خود بیبس و محکوم نظر آتے ہیں۔بی جے پی کے دو مہارتھیوں نریندر مودی اور امیت شاہ نے پوری بی جے پی کو یرغمال بنا کر رکھ دیا ہے۔ایسے میں اگر یہ دونوں کوئی غلط فیصلہ بھی لیتے ہیں تو ان دونوں کو روکنے کیا ٹوکنے کی جسارت بھی کوئی نہیں کر سکتا ہے۔ مذکورہ دونوں مہارتھیوں کے آگے تو سر سنگھ سنچالک موہن بھاگوت کے لب بھی نہیں کھلتے جبکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بی جے پی حکومت اسی آر ایس ایس کی مرہون منت ہے۔لیکن جب کوئی انسان اپنی قوت کے تکبر میں سرشار ہو جاتا ہے تو پھر اس کے لئے احسان و محسن جیسے الفاظ کی کوئی قدر و وقعت نہیں رہ جاتی ہے اور وہ خود کو خدائے وقت تسلیم کرتا ہی ہے۔علاوہ ازیں دوسروں کو بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔یہی عالم ان دونوں بی جے پی کے متذکرہ بالا دونوں ہی سرکردہ لیڈران کا ہے جو اپنے مقابلے کسی کو کچھ سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ آر ایس ایس کے سر سنگھ سنچالک شری موہن بھاگوت کو اور ان کی تنظیم آر ایس ایس کو بھی کوئی اہمیت دینے سے قاصر نظر آتے ہیں۔اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ متذکرہ بالا دونوں ہی لیڈران نے بیک وقت آر ایس ایس اور بی جے پی دونوں ہی کو بالکل مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔جب خود بی جے پی کے لیڈران اور پوری آر ایس ایس ہی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے تو پھر اس کی دیگر معاون سیاسی جماعتوں کے اراکین و سربراہان کی کیا حیثیت ہوگی۔یہی سبب ہے کہ وہ دونوں جو بھی کرتے رہے۔ساری معاون جماعتوں کے سربراہان و اراکین خاموشی کے ساتھ ان کی تائید کرتے رہے اور اقتدار کے مزے لیتے رہے۔ہاں ان پر ان دونوں خود ساختہ خدائوں نے اتنا کرم ضرور کیا کہ اس دوران یہ معاونین جماعتوں کے سربراہان و اراکین بڑی ہی فراخدلی سے اپنی جھولیاں بھرتے رہے اور پوری انتظامیہ کو اپنی انگلیوں پر نچاتے رہے۔کسی کو بھی نہ پولس کا خوف ،نہ سی بی آئی کا خوف نہ آی ڈی کا خوف اور نہ ہی عدلیہ کا خوف۔ گویا خوف نام کی شئے ان کی زندگی سے ناپید ہو گئی۔گو کہ بد عنوانیاں عمل پزیر ہوتی رہیں ،عصمت دری ہوتی رہی ،غنڈہ گردی ہوتی رہی۔اتنا کچھ ہونے کے باوجود وہ اطمینان سے اپنا کام کرتے رہے۔ ان کی بیخوفی کا عالم یہ ہے کہ ڈی ایس پی رینک کے افسر کو بھی سر عام زد و کوب کیا گیا۔لیکن ایسا کرنے والوں کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں آئی۔یہی سبب ہے کہ اقتدار سے منسلک افراد جنگلی بھیڑئے کی مانند قتل ہی نہیں بلکہ قتال کئے پھرتے رہے اور ان کا کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ پایا۔ اس امر کی زندہ و روشن مثال ماب لنچنگ میں شہید ہوئے کئی مسلم نوجوانان و ضعیف حضرات ہیں۔کبھی گو رکشا کے نام پر مسلمانوں کا قتل یا پھر کبھی جبریہ جئے شری رام کہلوانے کی کوشش میں قتل۔کبھی ریل پر سفر کرنے کے دوران صرف اس لئے قتل کہ سامنے داڈھی والا مسلم ہے۔یہ مذہبی منافرت اور حکومت کے اسلام مخالف ہونے کے وہ ثبوت ہیں جنہیں نہ کبھی مٹایا جا سکتا ہے اور نہ ہی بھلایا جا سکتا ہے۔جب بھی ہندوستان کی مذہبی منافرت کی تاریخ رقم کی جائے گی تو ان کا ذکر آنا ناگزیر ہوگا۔بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی ہے۔بلکہ ایسی ایسی کتنی ہی درد ناک داستانوں کے صفحات ارض ہند پر منتشر پڑے ہیں۔ان کی تعداد اس قدر کثیر ہے کہ ان کا شمار ممکن نہیں ہے۔یہ تو مذہبی منافرت کی بات ہوئی۔اب ان کی دورغ گوئی کا ذکر خیر بھی ہو جائے۔فی زمانہ جس کا بازار بہت گرم ہے۔بات دراصل یہ ہے کہ اپ دونوں ہی خود ساختہ خدا دیگر اہل حکومت جن کے اشارے پر دم ہلاتے نظر آتے ہیں۔انہوں نے وطن عزیز کے فروغ کے لئے کچھ بھی تو کیا نہیں ہے۔انہوں نے جو کیا ہے اس کی حقیقی تصویر عالمی ادارے پیش کرتے جا رہے ہیں۔یعنی 5ٹریلین کی معیشت کی پول کھولتے ہوئے عالمی ادارے نے ہندوستان میں ہنگر انڈیکس کو 111نمبر تک پہنچا دیا جبکہ اس سے قبل کی حکومت میں یہ 53 پر تھا۔ہندوستان کے روپئے کی قدر ڈالر کے مقابلے برق رفتاری سے گر رہی ہے۔جب سے جی ایس ٹی چلن میں آئی ہے تب سے کم و بیش 300000(تین لاکھ) کل کارخانوں کے دروں پہ تالے لٹک چکے ہیں۔یہاں بیروزگاری کا انڈیکس دن دگنی رات چوگنی کے حساب سے بڑھ رہا ہے۔بینک کھوکھلے ہو چکے ہیں۔سرکاری ملازمت پر پوری طرح پابندی لگی ہوئی ہے۔ٹیکس میں ریاستوں کا حق نہیں مل رہا ہے جہاں کچھ ملا بھی ہے تو دال میں نمک کے مصداق۔یعنی موجودہ دور حکومت میں ملک بڑے پیمانے پر پر زوال پزیر ہوا ہے۔اس پر مستزاد اقلیم ہند پر بیرونی قرض کم و بیش دو لاکھ کروڑ کا ہو چکا ہے جبکہ اس کے قبل والی حکومت کے عہد اقتدار میں یہ قرض پچپن لاکھ کروڑ کا تھا جو قریب 70 سالوں میں ہوا تھا لیکن موجودہ حکومت جس کی میعاد صرف دس سال کی ہے دو لاکھ کروڑ تک پہنچ گیا۔ یہ اس ملک کی کم نصیبی ہی ہے کہ اس تنزلی و زوال کو بھی حکومتی طبقہ حصولیابی و فروغ میں شمار کر رہا ہے۔ اس کے باہم ذرائع ابلاغ بھی گلا پھاڑ پھاڑ کر ملک کی ترقی کی دہائی دیتے نظر رہے ہیں۔یہاں بیشرمی و بیحیائی نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔کمال تو یہ ہے کہ اندھ بھکت عوام بھی وہی زبان بولتے جا رہے ہیں جو زر خرید ذرائع ابلاغ استعمال کر رہے ہیں۔یہ سب کچھ مذہبی منافرت کی بنیاد پر عمل پزیر ہو رہا ہے جس کا زہر آر ایس ایس والوں اور اس کے ذرائع ابلاغ نے ہندوستانی معاشرے کے رگ و پے میں گھول رکھا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وقت بہت بلوان ہوتا ہے۔یقینی طور پر اب وقت کروٹ لیتا نظر آرہا ہے۔اس 2024 کے عام انتخاب کے مناظر بھی بدلے بدلے نظر آرہے ہیں۔پہلے کے انتخاب میں حزب اختلاف کے افراد پریشان و حیران نظر آتے تھے۔لیکن اس دفعہ خود ارباب اقتدار کچھ پریشان و حیران نظر آرہے ہیں۔پہلے حزب اختلاف والے ذرائع ابلاغ کو کوستے نظر آتے تھے۔ اس دفعہ خود ارباب اقتدار ذرائع ابلاغ کو کوس رہے ہیں۔اب تو حالات یہ ہیں کہ جو ذرائع ابلاغ والے دن رات مودی مودی کا ورد کیا کرتے تھے اب ان میں سے کچھ مودی چالیسا پڑھنے سے احتراز برت رہے ہیں۔شاید انہیں احساس و عرفان ہو گیا ہے کہ اس دفعہ حالات بہت سنگین اور غیر یقینی ہیں۔اس انتخاب کا نتیجہ کیا آئے گا کہنا بڑا مشکل ہے۔ جو حالات مشاہدے میں آرہے ہیں وہ یہ ہیں کہ جو کل تک اندھ بھکت تھے ان میں کثیر ابادی بھی وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سے مسلسل سوالات پوچھ رہی ہے۔وہ یہ کہ رہی ہے کہ جس رام نے تمہیں بنایا تم اسی رام کے متعلق کہتے ہو کہ ہم رام کو لے کر آئے ہیں۔اس کا یہ معنی ہوا کہ رام مندر میں پران پرتشثھا سے قبل رام کا وجود تھا ہی نہیں۔وہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سے یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ محض مندر کی تعمیر سے کیا ہمارے تمام سئلے حل ہو جائیں گے۔ کیا مندر کی تعمیر سے شکم کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔کیا رام مندر کی تعمیر سے حصول تعلیم کی ضرورت ختم ہو جائے گی اور خود بخود ہمارے بچوں کو سارے گیان کی پراپتی ہو جائے گی اور بیٹھے بٹھائے ہمارے بچے ڈاکٹر انجینیر اور سائنسداں ہو جائیں گے۔ کیا مندر تعمیر ہو جانے سے اسکول ،کالج اور ہسپتال کی ضرورت باقی نہیں رہ جائے گی۔کیا محض رام کا نام لینے سے علاج کی ضرورت نہیں ہوگی، سارے امراض خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔کیا رام مندر کی تعمیر سے میرے بچوں کا مستقبل روشن ہو جائے گا۔کتنے لوگ تو یہ بھی سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ کتنے ہی مندروں کو خود بی جے پی حکومت نے ہی منہدم کروایا ہے۔کہاں کسی دیوی دیوتا نے خود اپنی حفاظت کی۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو دیوی دیوتا خود کی حفاظت نہیں کر پائے۔ وہ ہماری حفاظت کیا خاک کر سکیں گے۔لوگ تو موجودہ حکومت سے یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ فروغ کے نام پر خود ہندوتوا وادی ہونے کا دم بھرنے والی بی جے پی حکومت ہی سینکڑوں منادر کو منہدم کر چکی ہے۔تو پھر یہ کیسی ہندوتوا وادی حکومت ہے۔دوسری جانب یہ حکومت راشٹر واد کادم بھارتی ہے اور اسی پاکستان سے الیکٹورل بانڈ کے نام پر چندہ لیتی ہے جسے ہندوستان کا سب سے بڑا دشمن ہونے کی تشہیر کرتی ہے۔یہ کیسی راشٹر وادی حکومت ہے جس کے عہد حکومت میں لوگ قریب دو لاکھ روپیہ کروڑ روپئے بینکوں سے لے کر فرار ہو گئے اور یہ اہل اقتدار تماشائی کی مانند تماشا دیکھتے رہے۔کتنے مفرور لوگوں نے یہ واضح طور پر بیان دیا ہے کہ میں فرار خود نہیں ہوا ہوں بلکہ اہل حکومت نے ان رقوم میں سے اپنا حصہ لے کر مجھے فرار کیا ہے۔ارباب یہ سمجھتے رہے کہ ہمارے رازہائے سربستہ کبھی کھل ہی نہیں سکتے۔لیکن حقیقت آشکار ہو کر رہتی ہے۔وہ تمام رازہائے سربستہ خود بخود عیاں ہو گئے۔ لیکن یہاں بھی بے شرمی کی انتہا نظر ائی۔یہاں الٹے چور کوتوال کو ڈانٹے والا معاملہ صادر آتا نظر ایا۔اپنی تمام بدعنوانیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ارباب اقتدار نے حزب اختلاف کے پیچھے ایک ڈی اور سی بی آئی وغیرہ حکومتی ایجنسیوں کو لگا دیا۔ای ڈی نے بغیر کسی ثبوت کے حزب اختلاف کے کئی لیڈران کو گرفتار کر لیا لیکن ابھی تک عدالت میں چارج شیٹ داخل کرنے سے قاصر رہے۔جبکہ عدالت چارج شیٹ اور ان کے خلاف ثبوت طلب کر رہی ہے۔یہ کسی بھی قسم کا ثبوت پیش کرنے سے یہ کہ کر قاصر ہے کہ ہم ان پر بعد میں الزام عائد کریں گے۔تب ہی ثبوت بھی پیش کیا جائے گا۔یہ سب کچھ ایک ریاست کے وزیر اعلیٰ کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔اس سے بڑی زیادتی اور ہٹھ دھرمی کیا ہو سکتی ہے۔جب ایک وزیر اعلیٰ کے ساتھ ایسا کیا جا سکتا ہے تو عام عوام کے ساتھ کیا کیا نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اب جب اتنا کچھ عمل پزیر ہو چکا اور اس حکومت پر سے عوام کا یقین اٹھنے لگا تو فی زمانہ ان کے حالات بہت نازک چل رہے ہیں۔ان کی ساری سازشیں اور دروغ گوئی ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ تب یہ پھر مذہبی کارڈ کھیلتے نظر آنے لگے ہیں۔پہلے لو جہاد پھر کورونا جہاد کا جھوٹا الزام مسلمانوں پہ عائد کیا جاتا رہا۔اب ووٹ جہاد،زات کی بنیاد پر ریزرویشن ،وراثت ٹیکس،اور دخل انداز جیسے موضوعات ایجاد کئے کئے ہیں۔
لیکن رام مندر کے موضوع کی مانند درج بالا موضوعات بھی بیاثر اور ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔عوام ان سے بالکل ہی بد دل نظر آرہے ہیں۔پھر بھی ان کی زبان پر اب کی بار 400 پار کا نعرہ ہی ہے۔مگر افسوس سیاست میں صرف نعروں سے کچھ نہیں ہوتا ہے۔عوام کام کا حساب کتاب کرتے ہیں تب ہی کسی کے ہاتھوں عنان اقتدار سونپتے ہیں۔
عوام کا رخ دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اس دفعہ ان دروغ گویوں کی کشتی منجدھار میں پھنس چکی ہے جس کا پار ہونا ناممکن ہی نظر آتا ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا