مروجہ قرآن خوانی و ایصال ثواب کا شرعی طریقہ

0
0

۰۰۰
محمد ہاشم القاسمی
9933598528
۰۰۰
قرآن کریم کی تلاوت کرنا باعث اجر وثواب ہے، احادیث میں اس کی بہت فضیلت وارد ہوئی ہے، چنانچہ حضرت عبد ? بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا” جس نے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ایک حرف پڑھا، اس کے لئے اس کے بدلہ میں ایک نیکی ہے اور یہ ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔ (گویا صرف الم پڑھنے سے تیس نیکیاں مل جاتی ہیں) ”
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا” قرآن مجید پڑھا کرو، یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے شفاعت کرنے والا بن کر آئے گا۔(بخاری شریف) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” حسد (رشک) تو بس دو آدمیوں سے ہی کرنا جائز ہے، پہلا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن (پڑھنا و سمجھنا) سکھایا تو وہ رات اور دن کے اوقات میں اس کی تلاوت کرتا ہے، اس کا پڑوسی اسے قرآن پڑھتے ہوئے سنتا ہے، تو کہہ اٹھتا ہے کہ کاش ! مجھے بھی اس کی مثل قرآن عطا کیا جاتا تو میں بھی اسی طرح عمل کرتا جس طرح یہ کرتا ہے، اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال بخشا ہے اور وہ اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں صرف کرتا ہے۔ دوسرا شخص اسے دیکھ کر کہتا ہے کاش ! مجھے بھی اتنا مال ملتا جتنا اسے ملا ہے، تو میں بھی اسی طرح عمل کرتا جس طرح یہ کرتا ہے۔‘‘(متفق علیہ)
ہجرت سے پہلے مکی دور میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایک نہایت ہی بے مثال واقعہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نقل فرمایا ہے، جس میں تلاوت قرآن سے متعلق ان کے یہ الفاظ محو حیرت واستعجاب میں ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔ فرماتے ہیں‘‘ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے مکان کا ایک حصہ نماز کے لیے خاص کردیا تھا۔ جس میں نماز ادا کرتے اور قرآن کی تلاوت کرتے۔ تو مشرکین مکہ کی عورتیں اور بچے ان پر ٹوٹ پڑتے۔ ان کی رقت آمیز تلاوت سے محظوظ ہوتے اور اسے غایت درجہ پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے۔ بات دراصل یہ تھی کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نہایت ہی نرم دل انسان تھے۔ تلاوت قرآن کے وقت اپنی آنکھوں پر قابو نہیں رکھ پاتے اور وہ بے اختیار بہہ پڑتیں۔(صحیح بخاری) چنانچہ جس طرح قرآنی تعلیمات پر عمل کرنا لازم ہے ایسا ہی قرآن کریم کا ایک حق یہ بھی ہے کہ روزانہ پابندی سے اس کی تلاوت کی جائے، اور اپنی اولاد کو قرآن سھایا جائے، اور تلاوت قرآن پاک کی تلاوت کا عادی بنایا جائے. تاکہ ہماری اولاد اس پاکیزہ صفت لوگوں کی صف میں شامل رہیں جس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے” اولاد صالح” فرمایا ہے، جس کے ذریعے انسان مرنے کے بعد بھی نیکیاں حاصل کرتا رہتا ہے، انسان دنیوی زندگی میں اپنی موت سے پہلے پہلے جو بھی نیک کام کرتا ہے چاہے اپنی زبان سے ہو کہ ہاتھ سے یا اپنے مال کے ذریعہ اس کا ثواب ضرور پائے گا، لیکن مرنے کے بعد انسان کے عمل کا دفتر بند ہوجاتا ہے، اور ایک لمحہ کے لیے بھی کوئی عمل کرنے سے عاجز ہو جاتا ہے، اس لیے نیکیوں پر اجر و ثواب کا سلسلہ بھی ختم ہوجاتا ہے، البتہ چند اعمال واسباب ایسے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی اس کا اجر میت کو پہنچتا رہتا ہے، اور یہی حال اس کے برے عمل اور گناہ کا بھی ہے. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ”جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل بند ہوجاتا ہے، مگر تین چیزیں (۱) ایک صدقہ?جاریہ یعنی ایسا صدقہ جس سے زندہ لوگ نفع حاصل کرتے رہیں (۲) دوسری ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں (۳) تیسری ایسی نیک اولاد جو اپنے والدین کے لیے دعا کرتی رہے، ان تین قسم کے اعمال کا ثواب میت کو پہنچتا ہے، یعنی اس کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا رہے گا۔(مسلم شریف) جس طرح میت کو اپنے بعض اعمال کا اجر وثواب پہنچتے رہنا متعدد احادیث مبارکہ سے ثابت ہے، اور اہل ایمان کا ان احادیث پر عمل بھی پایا جاتا ہے، اسی طرح میت کو کسی نیک عمل کے ذریعہ نفع پہنچانا اور میت کا اس سے نفع اٹھانا احادیث اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ مثلاً حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ "میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ ! ہم اپنے مْردوں کے لیے دعا کرتے ہیں، ان کے لیے صدقہ کرتے ہیں اور ان کی طرف سے حج کرتے ہیں، کیا ان اعمال کا ثواب ان مْردوں تک پہنچتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” ان کو ثواب پہنچتا ہے، اور وہ اس سے خوش ہوتے ہیں، جیسے تم میں سے کوئی خوش ہوتا ہے، جب اسے کھجور کا طبق ہدیہ کیا جائے۔” ایک اور حدیث میں ہے، جس شخص نے اپنے والدین یا دونوں میں سے ایک کی قبر کی زیارت کی اور قبر کے پاس یٰسین شریف پڑھی تو اس کی مغفرت ہوجاتی ہے۔”(ترمذی شریف) حدیث و فقہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے، کہ ایصال ثواب کے لیے مالی عبادتوں کا طریقہ زیادہ نفع بخش ہے، کہ اس سے عام انسان کو بھی نفع ہوتا ہے، اور میت کو بھی اجر وثواب پہنچتا رہتا ہے، البتہ قرت قرآن (قرآن خوانی) کے ذریعہ ایصال ثواب کیا جائے، تو پھر فقہ وفتاویٰ کی روشنی میں چند امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی قرآن خوانی کئی پابندیوں اور لازم کیے ہوئے امور کے ساتھ ہوا کرتی ہے، جن کی شریعت میں کوئی اصل خیرالقرون میں نہیں ملتی، ایسی خلاف شرع پابندی اور التزام والی "قرآن خوانی” قابل ترک ہے، اس میں شرکت بھی ممنوع ہے ایصال ثواب کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ نوافل ،تلاوت قرآن اور نقد صدقات، خیرات کرکے مرحومین کے لئے ایصال ثواب اور بخشش کی دعاء کی جائے۔
مروّجہ قرآن خوانی کا حکم فتاویٰ کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں (۱) امام ربّانی فقیہ عصر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحم?اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں”ثواب میت کو پہنچانا بلا قید وتاریخ وغیرہ اگر ہو تو عین ثواب ہے، اور جب تخصیصات اور التزامات مروّجہ ہوں تو نادرست اور باعث مواخذہ ہوجاتا ہے” (فتاویٰ رشیدیہ)(۲) حضرت مفتی سید عبدالرحیم صاحب لاجپوری رحماللہ علیہ مفتی اعظم گجرات تحریر فرماتے ہیں” رسم و رواج کی پابندی اور برادری کی مروت اور دباؤ کے بغیر اور کوئی مخصوص تاریخ اور دن معین کیے بغیر اور دعوت کا اہتمام اور اجتماعی التزام کے بغیر میت کے متعلقین، خیرخواہ اور عزیز واقرباء ایصال ثواب کی غرض سے جمع ہو کر قرآن خوانی کریں تو یہ جائز ہے، ممنوع نہیں ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ۹۸۳/۱)(۳) حضرت مولانا سید زوّار حسین نقشبندی رحمۃاللہ علیہ اپنی کتاب ’’عمدۃ الفقہ‘‘ میں لکھتے ہیں: قر?ت قرآن کے لیے قبر کے پاس بیٹھنا نیز قرآن شریف پڑھنے کے لیے حافظوں اور قرآن خوانوں کو بٹھانا بھی بلا کراہت جائز ہے، جبکہ پڑھنے والے اجرت پر نہ پڑھتے ہوں اور پڑھوانے والے کو اجرت (دینے) کا خیال نہ ہو۔ (عمدۃ الفقہ،ص:۶۳۵/۲)
حضرت فقیہ الامت مفتی اعظم ہند مفتی محمودحسن گنگوہی رحمہاللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں، "الجواب حامدا ومصلیا، افضل تو یہی ہے کہ جب ایک جگہ مجمع قرآن شریف پڑھے تو سب آہستہ پڑھیں، لیکن زور سے پڑھیں تب بھی گنجائش ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ، ص:۵۲/۱) ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں، ایصال ثواب میں نہ تاریخ کی قید ہے کہ شب برت ۵۱/شعبان، ۰۱/محرم اور ۲۱/ربیع الاوّل ہو۔ نہ ہیئت کی قید ہے، کہ چنوں پر کلمہ طیبہ پڑھا جائے یا کھانا سامنے رکھ کر فاتحہ دی جائے۔ نہ سورتوں وآیتوں کی تخصیص ہے کہ قل اور پنج آیات ہوں اور نہ کسی اور قسم کی قید ہے، یہ سب قید ختم کردیا جائے کہ یہ شرعاً بے اصل ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بغیر ان قیدوں کے ثواب پہنچایا ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ، ص:۶۰۲/۱ قدیم)

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا