*
مصداق اعظمی کی مٹھی بھر غزلی
*
(01)
میں اپنا عشق زباں سے بیاں کروں بھی نہیں
نظر سے آپ کی لیکن چھپا سکوں بھی نہیں
ترے غلط کو غلط تک نہ کہہ سکوں ناصح
قسم خدا کی میں اتنا شریف ہوں بھی نہیں
جو تیری یاد کو رو رو کے نذر کر دیتے
ہماری آنکھ میں افسوس اتنا خوں بھی نہیں
یہ کیسے موڑ پر لے آٸ زندگی مجھ کو
کہ جی سکوں بھی نہیں اور مر سکوں بھی نہیں
ترے قریب ہی وحشت زدہ سا رہتا ہوں
ترے بغیر مری جاں مجھے سکوں بھی نہیں
تمھارے بعد تمھاری قسم تمھارے لۓ
کسی کو چاہتے رہنے کا اب جنوں بھی نہیں
اگر ہے عشق پہ تہمت فقط نماٸش کی
تو چشمِ ناز میں پہلے سا وہ فسوں بھی نہیں
کبھی کبھی ہی سہی شاعری کے پردے میں
میں اپنے غم کو زمانے سے کیا کہوں بھی نہیں
(02)
شور شرابے سے ہٹ کر سناٹے تک پہنچا ہوں
دنیا داری چھوڑ کے صاحب اِس گھاٹے تک پہنچا ہوں
ایک ضرورت سو سو غزلوں نے بھی جب پوری نہ کی
مصرعے وصرعےچھوڑ کے میں بھی دال آٹے تک پہنچا ہوں
کھیت کی مٹی سے بھی واقف اک مدت کے بعد ہوا
میں گاٶں میں رہتے رہتے ہل پاٹے تک پہنچا ہوں
بوجھل پلکیں بھیگی زلفیں اترے چہرے والوں میں
نیندوں کی سوغات لۓ میں خراٹے تک پہنچا ہوں
یہ کس کس کو سمجھاٶں میں تیرے ایک بھروسے پر
رفتہ رفتہ دل کو لے کر کس گھاٹے تک پہنچا ہوں
لوگ مجھے بھی حیرت سے اب تکنے پر آمادہ ہیں
چلتے چلتے جب تیزی سے فراٹے تک پہنچا ہوں
اپنی بات میں گہراٸ پیدا کرنے کی کوشش میں
کیا مصداق سمندر والے سناٹے تک پہنچا ہوں
(03)
زندگی اپنی جگہ ہے بندگی اپنی جگہ
میکدے سے اس کی گھر والی گلی اپنی جگہ
چھپ کے گہرے وار کا موقع گنوانا سیکھیۓ
دوستو اعلیٰ نسب سے دشمنی اپنی جگہ
اس نے دل توڑا ہے لیکن دوستی توڑی نہیں
یہ ستم مشروط ہے تو دوستی اپنی جگہ
اس کے اک اک ظلم کو محسوس تو کرتے ہی ہیں
ہم زباں والوں کی صاحب خامشی اپنی جگہ
آندھیاں غم کی مسلسل چل رہیں ہیں تو چلیں
اک نٸ امید کی ہے روشنی اپنی جگہ
گر نہیں بجھتے ہمارے علم کے روشن چراغ
چھوڑ ہی دیتی دلوں سے تیرگی اپنی جگہ
قاعدے مصداق سب رکھتے ہوۓ بالاۓ طاق
جانور کو دے رہا ہے آدمی اپنی جگہ
(04)
میر سا درد ملے دل میں تو ہلچل ہو جاٶں
غم کے ماروں کی نگاہوں میں بھی افضل ہو جاٶں
آگ والے تو یہی سوچ رہے ہیں کب سے
چند لمحوں کے لۓ میں کوٸ جنگل ہو جاٶں
تری یادوں کے مرے دل میں یہ ساون بھادوں
اتنے برسے ہیں کہ سوچوں تو میں جل تھل ہو جاٶں
سوچتا ہوں کبھی نفرت کے سیہ ناگوں کو
اپنی خوشبو سے مسخر کروں صندل ہو جاٶں
وہ کہانی ہو کہ کردار میں چپکے چپکے
تو کھلے بن کے کنول اور میں دلدل ہو جاٶں
ٹاٹ باہر سے نظر آٶں تو آٶں لیکن
میری اندر کی تمنا ہے کہ مخمل ہو جاٶں
رات کٹتی ہے تو دل میں بھی یہ دل کرتا
اب کسی اور بہانے سے ہی بے کل ہو جاٶں
ہو مرے بس میں اگر پیاس بجھانا تیری
تیرے صحرا سے گزرتے ہوۓ بادل ہو جاٶں
شاعری شوق نہیں ہے مری مجبوری ہے
نہ کہوں شعر تو مصداق میں پاگل ہو جاٶں
(05)
آہٹیں سن کر ہی مر جاتی ہے صحراٶں کی خاک
اب ترے وحشی سے ڈر جاتی ہےصحراٶں کی خاک
اس جنونِ عشق کی ٹھوکر میں آ جانے کے بعد
آسمانوں تک بکھر جاتی ہے صحراٶں کی خاک
سوچنا چاہوں ذرا سا میں بھی گر فصلِ بہار
میرے اندر بھی ٹھہر جاتی ہے صحراٶں کی خاک
جب بھی آتے ہیں نظر ہم بھی چمکتی ریت سے
آٸینہ کر کے سنور جاتی ہے صحراٶں کی خاک
کون خیمہ زن کہاں ہے ڈھونڈھ لے ورنہ یہاں
پل میں سب کچھ خاک کر جاتی ہے صحراٶں کی خاک
انگلیاں تیری پکڑ کر سن لے اے بادِ صبا
اب تو گلشن سے گزر جاتی ہےصحراٶں کی خاک
خوشنما منظر بھی سب دھندھلے نظر آتے ہیں یار
جب دلوں میں بھی اتر جاتی ہے صحراٶں کی خاک
جب جنوں صحرانوردی کو بڑھاتا ہے قدم
کوبکو مصداق بھر جاتی ہے صحراٶں کی خاک
(06)
جو قرینے کا شوق رکھتے تھے
مے بھی پینے کا شوق رکھتے تھے
جس میں پینا حلال تھا ہم لوگ
اس مہینے کا شوق رکھتے تھے
وہ بھی کیا دن تھے ان کی آنکھیں تھیں
ہم بھی پینے کا شوق رکھتے تھے
دل فگاروں کے تھے جو چارہ گر
زخم سینے کا شوق رکھتے تھے
راس آتی تھی زندگی پہلے
لوگ جینے کا شوق رکھتے تھے
موج در موج کھیل کر لوٹے
جب سفینے کا شوق رکھتے تھے
ہم سے جامِ سفال والے بھی
آبگینے کا شوق رکھتے تھے
ان کو محنت کا تھا نشہ مصداق
جو پسینے کا شوق رکھتے تھے
(07)
تعلق کی کڑی ٹوٹی نہیں ہے
امیدِ زندگی ٹوٹی نہیں ہے
فقط ملنا ملانا کم ہوا ہے
ہماری دوستی ٹوٹی نہیں ہے
پرانے بانس کے پل کی ہمارے
کوٸ رسی ابھی ٹوٹی نہیں ہے
کمندیں پھینکیۓ عقل و خرد کی
فصیلِ آگہی ٹوٹی نہیں ہے
بہت آندھی چلی ہے اس چمن میں
مگر کوٸ کلی ٹوٹی نہیں ہے
سخن کے نام پر بھی نیند اس کی
جنابِ میر ”سی“ ٹوٹی نہیں ہے
اندھیروں کا جگر چیروں گا جب تک
منارِ روشنی ٹوٹی نہیں ہے
فرشتے کیوں نہ سجدہ ریز ہوں گر
حدودِ آدمی ٹوٹی نہیں ہے
***(©)***
پتہ:-
مصداق اعظمی
موضع۔ جوماں
پوسٹ۔ مجواں،پھولپور
ضلع۔ اعظمگڑھ، یوپی 276304
9451431700