0
97
راشن مشین سہولت یا مصیبت


خواجہ یوسف جمیل
پونچھ

مرکزی حکومت کی جانب سے نیشنل فوڈ سکیورٹی ایکٹ کے تحت پسماندہ طبقاجات کو گزشتہ کئی سالوں سے سستے داموں پر راشن فراہم کیا جاتا ہے۔ جس کی مدد سے پسماندہ طبقاجات کے لوگ اپنا گزر بسر آسانی سے کرسکتے ہیں۔ ملک کی تمام ریاستوں میں اس اسکیم سے مستفید ہونے والے لوگوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جو لوگ غریبی کی سطح سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں انہیں (پی ایچ ایچ)یعنی پرایرٹی ہاؤس ہولڈ کے زمرے میں رکھا گیا ہے جبکہ جو درمیانی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں انہیں (این پی ایچ ایچ) نان پرایرٹی ہاؤس ہولڈ کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ملک میں پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے یہ اسکیم انتہائی مفید ہے۔ کیونکہ ملک کے مختلف حصوں میں ایسے لوگ رہتے ہیں جن کا دارومدار صرف اسی راشن پر ہے۔ اور وہ اپنے پریوار کا پیٹ اسی راشن لسے پالتے ہیں۔سال  2018  میں مرکزی حکومت کی جانب سے ون نیشن ون راشن کا نعرہ لگایا جس کے بعد تمام راشن کارڈ آدھار کارڈ کے ساتھ جوڑ دئے گئے۔ ایک سروے کے مطابق سال 2018 تا2021 تک1.29 کروڑ غیر قانونی راشن کارڈ آدھار کارڈ کے ساتھ لنک کرنے کے بعد بند کئے گئے۔

اس میں دورائے نہیں ہے کہ اس قدم نے ملک میں راشن کے تئیں ہونے والی دھاندلی کا کافی حد تک خاتمہ کیا ہے۔ لیکن دوسری طرف آدھار کار کے ساتھ راشن کارڈ کے لنک کرنے کے بعد کئی گھر اس سہولت سے محروم ہوچکے ہیں۔ اگرچہ جموں کشمیر کے ضلع پونچھ کی بات کی جائے تو اس ضلع کے کئی خاندان ایسے ہیں جو غربت کی وجہ سے بیرون ریاست مزدوری کی خاطر جاتے ہیں اور ان گھروں میں بزرگ لوگ بچ جاتے ہیں اور راشن لیتے وقت ان لوگوں کے انگوٹھے نہیں لگتے ہیں۔جس کی وجہ سے انہیں راشن نہیں ملتا ہے۔ایسی صورت میں ان خاندانوں کو شدید مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔اس تعق سے ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے دور دراز علاقہ چھکڑی بن کے عندالرحمان کا کہنا ہے کہ میرے گھر میں میرا ایک بیٹا ہے جو موسم سرما میں مزدوری کی خاطر بیرون ریاست جاتا ہے اور اس کے بغیر گھر کے کسی فرد کا انگوٹھا نہیں لگتا۔ جس کی وجہ سے ہمیں راشن لینے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اسی گاؤں کے ایک اور نوجوان مظفر احمد کہتے ہیں ہم راشن لاتے ہیں لیکن میں گھر سے باہر تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے رہتا ہوں اور گھر کے کسی بھی فرد کا انگوٹھا نہیں لگتا جس کی وجہ سے مجھے ہر مہینے پونچھ سے اپنے گھر کا سفر اس غرض سے کرنا پڑتا ہے۔ راشن کو آدھار کے ساتھ جوڑنے کے بعد ہزاروں لوگوں کا راشن اس وجہ سے بند ہوا۔ حکومت کی جانب سے فراہم کی جانے والی اسکیم سے لوگ محروم ہوگئے  ہیں۔ پونچھ کے ایک بزرگ محمد شفیع عمر 45 کا کہنا ہے کہ جب سے ہمارا راشن آدھار کے ساتھ جوڑا ہوا ہے۔ ہمیں شدید مشکلات کا سامنہ کرنا پڑتا ہے۔ گھر میں ایک بیٹا ہے۔ جس کے بغیر گھر کے کسی فرد کا انگوٹھا نہیں لگتا ہے۔ میں ضعیف العمر ہوں اور چلنے پھرنے کے قابل نہ ہوں۔ ہم غربت کے مارے ہیں ہمیں اس راشن والی اسکیم کا سہارہ تھا وہ بھی ہم سے چھین گئی۔ وہ مزید کہتے  ہیں کہ ہماری عورتوں کو پہلے ہی گھریلو کاموں سے فرصت نہیں ملتی تھی۔ اب انہیں راشن لانے اور انگوٹھے لگانے کے لئے جانا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان کا پورا دن ضائع ہوجاتا ہے۔

ان تمام احوال کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہر مصیبت اور پریشانی کی دلدل میں سب سے پہلے غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ پھنستے ہیں۔اور انہیں اس پریشانی سے نکالنے کا کوئی بھی مسیحا نہیں ہوتا۔محکمہ کی جانب سے ایسی کوئی بھی سہولت نہیں ہے کہ جس کی بدولت پریشان کن لوگوں کو انکی پریشانی سے نکالا جاسکے۔۔ایک اور مقامی شخص محمد لطیف کا کہنا ہے کہ میرا انگوٹھا نہیں لگتا اور میں نے اس معاملے کے حل کے لئے تمام دفاتر کا رخ کیا لیکن میرا نگوٹھا نہیں لگا۔ اب مجھے اپنے اسکول جانے والے بچے کو راشن لانے کی غرض سے بھیجنا  پڑتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ جن بچوں کی تعلیم حاصل کرنے کی عمر تھی انہیں مجبوراََ راشن لانا پڑرہا ہے۔

اس تعلق سے جب اے ڈی پونچھ رنجیت سنگھ سے ٹیلیفون پر بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ”ہمارا راشن اب آن لائن ہوگیا ہے اور جب لوگوں نے اپنا راشن کارڈ کے ساتھ لنک ہوا ہے انہی لوگوں کے فہرست ہمارے پاس موجود رہتی ہے۔انہون نے کہا کہ ہمارے پاس دو آن لائن پورٹل ہیں اور ہم ’اے ای پی ڈی ایس‘ پورٹل کے تحت لوگوں کو راشن فراہم کرتے ہیں۔جن لوگوں کا نام ہماری مشین میں آئے گا ہم  انہیں لوگوں کو راشن فراہم کرسکتے ہیں۔وہیں انہوں نے بتایا کہ ’جن لوگوں کا انگوٹھا نہیں لگتا وہ اپنا آدھار اپڈیٹ کروائیں۔وہیں انہوں نے بتایا کہ اگر کسی کنبہ کے دو افراد ہیں اور وہ دونوں معزور ہیں یا انکا انگوٹھا نہیں لگتا وہ کسی دوسرے کنبہ کے فرد کو اپنا ’نومنی‘ بنا سکتے ہیں۔یہ اسکیم انہیں لوگوں کے لئے ہے جن کے کنبہ کے افراد کی تعداد دو ہو۔“

اگر مجموعی طور پر اس معاملے کو زمینی سطح پر پرکھا جائے تو معلوم ہوتا ہیکہ اک ثر لوگ ایسے ہیں جو مزدور طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور مزدوری کرنے کی وجہ سے انکی انگلیوں کے نشان مٹ چکے ہیں اور ابھی تک حکومت کی جانب سے اسکا کوئی متبادل ابھی تک تلاش نہیں کیا گیا جس سے یہاں کی عوام کو اس پریشانی سے راحت مل سکتی۔ ضلع پونچھ کی عوام نے مجموعی طور پر مرکزی حکومت سے اپیل کی ہیکہ ان افراد کے لئے کوئی متبادل راستہ نکالا جائے جن کا انگوٹھا راشن مشین پر نہیں لگتا۔ تاکہ وہ بھی راشن کی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں۔اور جو لوگ بزرگی کی عمر کو پہنچ چکے ہیں ان کے لئے بھی متبادل راستہ تلاش کیا جائے تاکہ عوام اس دلدل سے باہر نکل سکے۔(چرخہ فیچرس

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا