محمد شبیر کھٹانہ
ﷲ تبارک کی تقسیم بہت ہی شاندار اور حکمت پر مبنی ھے کس کے مقدر میں کیا لکھا ھے یہ ﷲ تبارک تعالی کی ذات اقدس کے سوا کسی کو بھی معلوم نہیں ہوتا اور پھر کس شخص کے لئے کیا بہتر ھے یا پھر کون کس چیز کے قابل ھے یا کون کس چیز کو سنبھال سکے گا ﷲ کی ذات اقدس ہر شخص کو اپنی شان کریمی سے اسی عہدے رتبے یا مقام سے نوازتا ھے جس کے وہ شخص قابل ہوتا ھے یا ﷲ تبارک ہر شخص کو اس عہدے اور رتبے سے نواتا ھے جو اس کے لئے ہر لحاظ سے بہتر ہوتا ھے
یہ بھی ایک سچ ھے کہ اگر ﷲ تبارک تعالی کسی شخص کو ایک عہدے ایک رتبے یا ایک مقام سے نوازتا ھے تو اس کامقصد یہ ھے کہ اس عہدے رتبے یا مقام کا جائز اور درست استعمال کر کے اس شخص کا یہ فرض بنتا کہ وہ ﷲ کی مخلوق کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرے اگر اس نے اپنی صلاحیت کے مطابق خدمت کی تو اس نے اپنا فرض ادا کر دیا یہاں صلاحیت کا مطلب یہ ھے کہ اس کے ہم پیشہ اور برابر کے عہدہ رکھنے والا شخص اگر اس سے زیادہ صلاحیت رکھتا ھے تو اس کا بھی یہ فرض بنتا کہ وہ بھی اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر کے پوری محنت لگن اور ایمانداری سے عوام کی خدمت کرے اس مقصد کے لئے اس کو جدید قسم کی ٹیکنالوجی سے آشنا ہونا بھی ضروری ھے جدید قسم کے کام کاج کرنے کے طریقے اس کو آنا ضروری ہیں تا کہ اس کے علم اور جانکاری میں لگاتار اضافہ ہوتا ہو اور وہ پوری محنت لگن اور ایمانداری سے سماج کی خدمت کرتا رہے
ایک بات نہایت ہی غور طلب ھے کہ اگر ﷲ تبارک تعالی نے کسی شخص کو ایک شاندار عہدہ عنایت کیا جہاں اس کے پاس بہت بڑی طاقت تھی مگر اس نے طاقت عوام کو فائدہ دینے کے لئے نہیں بلکہ نقصان پہچانے کے لئے استعمال کی تو ایسا شخص ﷲ کا مجرم بن گیا اس نے ﷲ تبارک تعالی کی عنایت کی ہوئی طاقت کو اس مقصد کے برعکس یا الٹ استعمال کیا جس مقصد کے لئے ﷲ سبحان تعالی نے اس شخص کو یہ طاقت عنایت کی تھی تو اس شخص کی آنے والی نسلیں اس کی غلط استعمال کی گئی طاقت کا خمیازہ بھگتیں گی ہونا تو یہ چائیے تھا کہ ﷲ تبارک تعالی کی عنایت کردہ طاقت کو جائز اور درست طریقے سے استعمال کرتا تو اس کو خود بھی اور ساتھ ہی اس کی آنے والی نسلوں کو اس کا فائدہ ہوتا
کوئی بھی مذہب کسی بھی فرد کے ساتھ اچھائی کرنے کی اجازت دیتا ھے لیکن اس کے ساتھ ﷲ تبارک تعالی کا فرمان ربی یہ ھے کہ اے انسان اگر آپ دوسروں کے ساتھ اچھا نہیں کر سکتے تو کوئی بھی ایسا کام مت کرو جس سے دوسرے کو کسی بھی قسم کا ایک ذرہ کے برابر بھی نقصان ہو اب کیا ہوتا ھے اگر کسی فرد کے ساتھ کسی قسم کی ذاتی شرارت پیدا ہو جائے تو کچھ افراد ﷲ تبارک تعالی کے عنایت کردہ عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئے ایسے فرد کو نقصان پہچانے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں ایسے افراد دوسروں کو نقصان تو نہیں پہنچا سکتے بلکہ اپنا ہی لامحدود نقصان کرتے ہیں کیونکہ ایسے افراد کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ ﷲ تبارک تعالی اپنے شان کریمی سےخفی طور پر ہر ایک کی مدد کرتا ھے ﷲ تبارک تعالی دوسروں کی اتنی زیادہ مدد کرتا ھے جتنا رب زلجلال دوسروں پر مہر بان اور کرم نواز ہوتا ھے اب نقصان پہچانے والے افراد کو یہ معلوم ہی نہی ہوتا کہ ﷲ تبارک تعالی اس شخص پر کتنا کرم نواز اور مہر بان ھے جس کو وہ نقصان پہچانے کی ناکام کوشش کرتا ھے اور پھر نقصان پہنچا تو نہیں سکتا بلکہ خود اپنا نقصان کرتا ھے ثابت ہوتا ھے ہر فرد کو اپنے مذہب کی پوری جانکاری ہونا لازمی جس کو بھی ﷲ تبارک تعالی نے کسی بھی عہدے سے نوازا ہوا ہو جب اسے مذہب کی جانکاری ہو گی تو وہ اپنا فرض تو خوش اصلوبی سے نبھائے گا اور کسی بھی فرد کو نقصان پہچانے کی کوشش کبھی نہیں کرے گا
سماج کے اس نطام کو اچھی طرح چلانے کے لئے ہر فرد کو اپنی قابلیت کے برابر ہی عہدہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے یا پھر اسی عہدے پر اتفاق کرنا چائیے جو قدرت کاملہ اس کو عنایت کر دیتی ھے مراد قدرت کی تقسیم و حکمت کے مطابق جو اس کے مقدر میں ہو وقت سے پہلے اور مقدر سے بڑھ کر انسان کو کچھ نہیں ملتا اور پھر ملتا بھی وہی ھے جو قدرت کاملہ نے کسی بھی فرد کے لئے قدرتی تقسیم کے مطابق مقرر کیا ہو اب کیا ہوتا کہ ایک شخص کے لئے قدرتی تقسیم کے مطابق کچھ رکھا ہوتا ھے تو ایسا عہدہ کبھی بھی حاصل ہی نہیں کر سکتا جو اس کے مقدر میں قدرتی تقسیم کے مطابق نہیں ہوتا اور اگر وہ کوشش کر کے حاصل کر بھی لیتا ھے تو پھر ایسے عہدے کے ساتھ وہ کبھی بھی انصاف ہی نہیں کر سکتا
یہ قدرت کی تقسیم بڑی ہی شاندار اور حکمت پربنی ھے اور اس کی قدر کرنا ہر ایک پر فرض ھے جن کو جو ملا اس کے ساتھ انصاف کرنا قدر ھے اپنی قابلیت میں اضافہ کر کے ایک شاندار پلان بنا کر پوری محنت لگن اور ایمانداری سے عوام کی خدمت کرنا ہی بہترین قدر ہو گی اب اگر کوئی ایسا فرد ھے جو کوئی بڑا عہدہ یا رتبہ چاہتا تھا مگر قدرتی تقسیم کے مطابق یہ عہدہ اس کے مقدر میں نہیں ھے وہ اس کو حاصل کرنے کی کوشش کر کے صرف اپنا قیمتی وقت برباد کرتا ھے اور یہ بھی اس اعظیم عہدے کی بے قدری ھے اس کے بجائے اس کو وہی عہدہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس کے وہ اہل ہو یا پھر ﷲ تبارک تعالی نے جو عہدہ حاصل کرنے کی قابلیت اور صلاحیت اس شخص کو عنایت کی ہو تا کہ اس کا قیمتی وقت برباد نہ ہو
ایک اور بات سماج کے ہر فرد کے لئے سمجھنا ضروری ھے کہ ہر فرد ﷲ تبارک تعالی کے لامحدود خزانے میں سے حاصل کر سکتا ھے مگر ﷲ تبارک تعالی کے خزانے میں سے ملتا اسی کو ھے جس کی کوئی نہ کوئی خوبی ﷲ تبارک تعالی کو پسند آ جائے اب کس کی کون سی خوبی ﷲ کو پسند آئے اور ﷲ اس کو نواز دے یہ بھی کسی کو معلوم نہیں مفسرین لکھتے ہیں ایک شخص میں ایک خوبی ہو جس کی بدولت ﷲ اس کو نواز دے تو یہ ضروری نہیں کے دوسرے شخص میں وہی خوبی ہو اور دوسرے شخص کی وہ خوبی ﷲ کو پسند آجائے اس بات سے ثابت ہوتا ھے ﷲ کے لامحدود خزانے میں سے حاصل کرنے کے لئے ایک شخص کو بے شمار خوبیاں اپنے اندر پیدا کرنی ہیں جن کی تفصیل کچھ اسطرح ھے جو شخص سماج کے اندر ایک پر امن زندگی بسر کرتا ھے اپنی برادری اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتا ہو برادری اور رشتہ داروں میں کسی کو بھی کسی قسم کا نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرتا یہ سب تب ممکن ھے جب اس میں صبر برداشت حلیمی عاجزی انکساری دیانتداری راست بازی دوسروں کے بارے میں اچھا سوچنے جیسی خوبیوں سے ﷲ نے اس کو نوازا ہوا ھے وہی ایک اچھا انسان ھے اور پھر ﷲ تبارک ایسے ہی شخص کو نوازتا بھی ھے دوسروں کو درست راستہ بتانا دوسروں کی بھلائی چاہنا دو فریقین کے درمیان صلاح مشورہ کروانا دوسروں کے غلط راستے پر چلنے سے روکنا بھی اچھائیوں میں شمار ھے
چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آنا وہ افراد جو اس کی برابر عمر کے ہوں ان سبھی کے ساتھ ہمدردی کرنا یا ہمدردی سے پیش آنا اور اپنے آپ سے ہر بڑے شخص کی عزت کرنا چائیے وہ جس بھی مذہب ذات پات فرقے یا قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں یہ تمام صفات بھی خوبیوں میں شمار کی جاتی ہیں
ہر ایک انسان کا دل صاف ہونا ضروری ھے دل بری سوچ برے خیالات دوسروں کے لئے بغض حسد اور کینہ ان سب سے پاک اور صاف ہونا ضروری ھے ایسا کرنے سے انسان صرف اپنا جسم ناپاک کرتا ھے حسد بغض اور کینہ جس دل میں ہو وہی دل گندہ ہوتا ھے اور پھر کسی قسم کی عبادت اس دل کی کبھی قبول نہیں ہوتی کیونکہ عبادت کی قبولیت کے لئے دل صاف ہونا لازمی ھے
ایک حقیقت پر مبنی بات یہ ھے ہم حسد ان لوگوں سے کرتے ہیں جن کے پاس دولت اور علم ہم سے زیادہ ھے جن کی قابلیت ہم سے زیادہ ھے یا جن کی سماج میں عزت ہم سے زیادہ ھے یہ سب ہر ایک کو ﷲ ہی عنایت کرتا ھے پھر حسد اور بغض کیوں؟ ہر ایک ﷲ تبارک تعالی سے مانگ کر حاصل کر سکتا ھے ہر ایک محنت کر کے قابل اور لائق بن سکتا ھے اب ایک بات اور جس بھی شخص کو ﷲ تبارک تعالی نے کسی بھی اچھی چیز سے نواز دیا وہ ﷲ تبارک تعالی کو ہماری نسبت زیادہ پسند ھے یا وہ ہم سے ﷲ کے زیادہ قریب ھے یا اس میں اچھائیاں اور خوبیاں ہم سے زیادہ ہیں تو یہاں ہمارے لئے لازمی بنتا ھے کہ ایسے افراد سے حسد کرنے کے بجائے ان کے قریب جا کر ہم ان سے اپنے لئے دعا کروائیں تا کہ ہمیں ﷲ تبارک تعالی ان کی طرح نواز دے
ﷲ تبارک تعالی کا بڑا ہی متوازن اور خوبصورت نظام کائنات ھے اب اچھی طرز کی زندگی گزارنے کے لئے اس خوبصورت نظام کو ہر فرد کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ھے پھر اس نظام کو چلانے کے لئے ﷲ سبحان تعالی نے کچھ قانون بنائے ہیں ان تمام قوانین کے مطابق ہر فرد کے لئے یہ لازمی ھے کہ وہ دوسروں کے ساتھ انصاف کرے انصاف کی مثال بھی بڑی ہی خوبصورت ھے ہر فرد کو دوسروں کے ساتھ اس طرح انصاف کرنا ھے جس طرح سورج ہر ایک امیر غریب کالے گورے ادنہ اعلی عربی عجمی بغیر زات پات رنگ نسل سب کو برابر روشنی اور گرمی فراہم کرتا ھے یا پھر پھولوں کی طرح انصاف کرنا ھے جو ہر ایک فرد کے لئے برابر ایک جیسی خوشبوں بکھیرتے ہیں جس بھی شخص کو ﷲ تبارک تعالی نے کوئی عہدہ دیا ھے اور اس عہدے کا استعمال کر کے وہ سب کے ساتھ سورج کی طرح انصاف کرتا ھے تو وہ اپنی زندگی کا مقصد حاصل کر لیتا ھے اور پھر اس کی انے والی نسلیں بھی ﷲ کے کرم سے پوری طرح فیضیاب ہو گی
کوئی بھی فرد اپنی مرضی سے کچھ حاصل نہیں کر سکتا جو بھی کسی کو ملتا ھے وہ ﷲ کے ہی کرم۔ سے ملتا ھے اس آرٹیکل کا لکھنے کا مقصد یہ ھے کہ اس کو پڑھنے کے بعد ہر تعلیم یافتہ شخص اپنے اندر اچھائیاں اور خوبیاں پیدا کرنے کی کوشش کرے اور پھر ﷲ تبارک کے لا محدود خزانے سے کچھ بھی حاصل کرنے کی کوشش کرے تا کہ سب سے پہلے ہر ایک اچھا فرد بن جائے اور پھر سب میں اتفاق محبت اور بھائی چارہ ہو اور سب ﷲ تبارک کی اس خوبصورت دھرتی پر پرامن زندگی بسر کریں اور اس طرح ہمارا پیارا بھارت ترقی بھی کرے گا: