فکر آخرت ہر حال میں ضروری

0
0

۰۰۰
محمد تحسین رضا نوری
۰۰۰
دنیاوی زندگی ایک سفر کی طرح ہے، اور ہر انسان دن بدن عالم فنا سے عالم بقا کی جانب رواں دواں ہے، اور یقیناً آخرت ہی ہمیشہ رہنے والا گھر ہے، خوش نصیب ہے وہ انسان جو اس فانی دنیا میں رہ کے ہمیشہ رہنے والی زندگی کی تیاریوں میں مصروف ہے، جن کے متعلق قرآن کریم میں ربِّ کائنات نے ارشاد فرمایا: جس نے تزکیہ کیا (یعنی عبادت و ریاضت، توبہ و استغفار، اور خوف خدا کے ذریعہ اپنے نفس کو پاک کیا) وہ کامیاب ہو گیا،
خرابی ہے اس شخص کے لیے جس نے دنیاوی محبت میں گرفتار ہو کر اپنی آخرت کو تباہ و برباد کر لیا، یاد رکھیں! موت برحق ہے، آخرت یقینی ہے اور قبر ہماری منتظر ہے، لیکن افسوس ہم پر اس دنیاوی زندگی کی فکر طاری ہے جہاں ہمیں چند دن رہنا ہے، اس سے کہیں زیادہ بہتر یہ ہے کہ ہم اپنی آخرت کے لیے اچّھے اعمال جمع کرنے کی فکر کریں، جہاں ہمیں ہمیشہ رہنا ہے۔ یہ گھربار، مال و دولت، اونچی اونچی بلڈنگیں، لمبی لمبی گاڑیاں، لاکھوں کروڑوں کا بینک بیلنس سب یہیں رہ جانا ہے، لیکن پھر بھی ہم ان بے فائدہ چیزوں کو جمع کرنے میں اس طرح لگے ہوئے ہیں کہ ہم اپنے رب کو ہی بھول گئے، ہمیں اپنی زندگی کا اصل مقصد ہی یاد نہیں۔ ایسے دنیا داروں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ: وہ جانتے ہیں آنکھوں کے سامنے کی دنیاوی زندگی، اور وہ آخرت سے پورے بے خبر ہیں۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالٰی نے ان دنیا داروں کا ذکر فرمایا جو دنیاوی زندگی کا صرف ایک پہلو جانتے ہیں اور اس کی حقیقت نہیں جانتے، اور آخرت سے پوری طرح غافل ہیں، آج ہم ذرا اپنا محاسبہ کریں کہ ہم کس مقام پر کھڑے ہیں، ہم نے اپنی زندگی کا اصل مقصد ہی بھلا دیا، ہم بھول گئے کہ ہمیں اللہ پاک نے کیوں پیدا کیا، ہم سمجھتے ہیں کہ کھانا کمانا اور سو جانا یہی زندگی ہے، یاد رکھیں! ہم اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی موت ہماری مرضی سے آئے گی پھر بھلا ہم پیدائش اور موت کے بیچ کا عرصہ اپنی مرضی سے کیوں گزارنا چاہتے ہیں ؟ دنیا نصیب سے ملتی ہے اور کامیاب آخرت محنت سے حاصل ہوتی ہے، تعجب کی بات ہے کہ لوگ محنت دنیا کے لیے کرتے ہیں اور آخرت کو نصیب پر چھوڑ دیتے ہیں، افسوس ہے ان لوگوں پر جو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ مرنے کے بعد جو ہوگا دیکھا جائے گا، خدارا اس زندگی کو غنیمت جانیں، اور آخرت کی تیاری کریں، قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے ہماری پیدائش کا مقصد بیان فرمایا اور ارشاد فرمایا:
ترجمہ: ’’تو کیا تم سوچ رہے تھے کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تمہیں ہماری طرف پھرنا نہیں‘‘ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر یہ ظاہر فرما دیا کہ حضرت انسان کو اللہ تعالیٰ نے بیکار پیدا نہیں فرمایا کہ یوں ہی اپنی زندگی غفلت میں گزار دے، یقیناً تمہاری اس زندگی کا ایک مقصد ہے کہ تم ہماری طرف لوٹ کے آؤ اور ہم تمہیں تمہارے گناہوں کی سزا یا تمہاری نیکیوں کی جزا دیں۔
مزید اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ: کیا آدمی اس گھمنڈ میں ہے کہ اسے (آخرت میں) آزاد چھوڑ دیا جائے گا۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ: اور میں نے جنوں اور انسانوں کو عبادت کے لیے ہی پیدا فرمایا۔
جب ہماری زندگی کا اصل مقصد اللہ پاک کی عبادت ہے اور ہم شریعت کے احکام سے آزاد بھی نہیں ہیں اور ہمیں قیامت کے دن اپنے ہر عمل کا حساب ہر صورت دینا ہی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل ہو کر دنیا کے کام دھندوں میں مصروف رہنا کہاں کی عقلمندی ہے ؟ عقلمند اس بیکار دنیا کے لیے اپنی آخرت ہرگز برباد نہیں کرتا۔
دنیا کی حقیقت:
اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم میں اس فانی دنیا کے متعلق فرماتا ہے: فَمَا مَتَاعْ الحَیٰوۃِ الدّْنیَا فِی الاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِیل? (التوب?، 38) ترجمہ: دنیا کا ساز و سامان آخرت کے سامنے بہت تھوڑا ہے۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے: اور دنیا کی زندگی تو یہی دھوکے کا مال ہے۔
محترم قارئین! دیکھا آپنے اس ناپائیدار دنیا کو اللہ پاک نے صاف صاف لفظ ’’دھوکہ‘‘ سے تعبیر فرمایا، ہاں یہ دنیا اْن لوگوں کے لیے بہتر ہے جو یہاں رہ کے اپنی آخرت کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں، جیسا کہ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’دنیا اپنے طلبگار کے لیے دھوکے کا سامان ہے لیکن آخرت کے طلبگار کے لیے نفع دینے والا سرمایہ ہے کیوں کہ اس کے ذریعہ ہمیشہ باقی رہنے والی نعمتیں حاصل کی جاتی ہیں۔ پتہ چلا کی دنیا انہیں لوگوں کے لیے فائدے مند ہے جو یہاں رہ کے ہمیشہ رہنے والی زندگی کے لیے فکر مند ہیں۔
اب ذرا اپنے اعمال پر غور کریں کہ کیا ہم نے اپنی آخرت کے لیے کچھ کیا ؟ کیا ہم بروز محشر خدائے وحدہ لاشریک کو منھ دکھانے کے لائق ہیں بھی یا نہیں ؟ یقین مانیں کہ جیسی آوارگی کی زندگی ہم جی رہے ہیں فرائض و واجبات، سنن و نوافل کو پس پشت ڈال کر صرف دنیاوی آسائش و آرام، محض کھانے پینے، سونے جاگنے، حصول معاش اور خواہشات نفس کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں، تو بھلا ہم اشرف المخلوقات کے اعلیٰ منصب پر کیسے فائز ہو سکتے ہیں، ایسی زندگی تو جانور بھی جی رہے ہیں، وہ بھی صبح سو کر اٹھنے کے بعد کھانے پینے کی اشیاء تلاشنے کی غرض سے نکل پڑتے ہیں، اور پورا دن گھوم پھر کے کھا پی کے پھر سو جاتے ہیں، یاد رکھیں! اشرف المخلوقات میں صرف اْن لوگوں کا شمار ہوتا ہے جو اپنی خواہشات اور اپنے اعمال اللہ پاک کے احکامات اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق کر لیتے ہیں، اور اس بے فائدہ دنیا کے مقابلے میں ہمیشہ رہنے والی زندگی کو فوقیت دیتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ہمیں ہمیشہ نہیں رہنا، دنیا امتحان گاہ ہے اور موت انتظار میں ہے، نا جانے کب موت کا فرشتہ خدا کا حکم لے کے حاضر ہو جائے اور ایک لمحے میں ساری زندگی کا خاتمہ ہو جائے۔
موت کا کوئی بھروسہ نہیں:
ہر شخص بخوبی جانتا اور مانتا ہے کہ موت سے کوئی نہیں بچ سکتا، ہر شخص کو موت آنی ہے، ربِّ کائنات ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ: ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ: ’’تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں پا لیگی اگر چہ تم مضبوط قلعوں میں ہو۔
پتہ چلا کہ موت سے کوئی چھٹکارا نہیں، ہر شخص چاہیں وہ چھوٹا ہو یا بڑا، جوان ہو یا بوڑھا، مرد ہو یا عورت، غرض کہ ہر شخص کو ایک دن کسی کفن کا نصیب ضرور بننا ہے، اپنے اہل و عیال، دوست و احباب، بھائی برادران سب کو چھوڑ کر قبر کی تنہائی میں پہنچنا ہے، وہاں ہمارے اعمال کے علاوہ کوئی کام نہیں آئے گا، خدارا دنیا کی جھنجھٹوں سے نکل کر آخرت کی تیاری کریں، اگر ہمارے دلوں میں دنیا کی محبت بیٹھ گئی تو اس کو ختم کرنے کے بہت سے طریقے احادیث میں موجود ہیں، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لذتوں کو توڑ دینے والی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو‘‘۔ (نسائی شریف)
حضرت عمر سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں بیٹھا ہوا تھا، ایک انصاری شخص آیا اور آپ کو سلام کرنے کے بعد آپسے پوچھنے لگا کہ سب سے افضل مومن کون ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو۔ پھر اس نے سوال کیا کہ سب سے عقلمند مومن کون ہے ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: جو موت کو سب سے زیادہ یاد رکھے، اور موت کے بعد کے لیے سب سے اچھی تیاری کرے۔ (ابن ماجہ)
اس کے علاوہ کثرت سے حدیثیں موجود ہیں، جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کو یاد کرنے کا حکم دیا، اور مزید ہمارے اسلاف کا یہ طریقہ بھی رہا ہے کہ موت کو یاد کر کے بہت روتے تھے جیسا کہ روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز علمائ کرام کو جمع فرماتے تھے، وہ موت قیامت اور آخرت کا تذکرہ کرتے تو سب لوگ ایسے روتے جیسے سامنے کوئی میت پڑی ہو۔ ابو نعیم کا بیان ہے: کہ حضرت سفیان ثوری جب موت کا ذکر کرتے تو کئی دن تک بے ہوش رہتے اور جب اْن سے کوئی سوال پوچھا جاتا تو کہتے کہ میں نہیں جانتا، میں نہیں جانتا۔
لہٰذا جہاں تک ہو سکے موت کو کثرت سے یاد کریں، آخر اس تھوڑی سی زندگی میں رکھا ہی کیا ہے، اصل زندگی تو وہ ہے جو ہمیں مرنے کے بعد ملنے والی ہے، ذرا غور کریں کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جاتی ہے، لیکن اس کے بعد نماز نہیں ہوتی لیکن جب کسی کا انتقال ہوتا ہے تو صرف نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے اس وقت اذان و اقامت نہیں ہوتی، علماء کرام فرماتے ہیں: کہ انسان کی زندگی کی حقیقت اتنی ہی ہے جتنی اقامت اور جماعت کے درمیان کا وقفہ ہوتا ہے، اب انسان کے اختیار میں ہے کہ اس مختصر سے وقفے کا صحیح استعمال کر کے اپنی آخرت درست کر لے، یا کھیل کود میں گزار کے اپنی آخرت برباد کر لے۔
دنیاوی زندگی کی حقیقت:
حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’جلدی کرو جلدی کرو، تمہاری زندگی کیا ہے یہی سانس تو ہے، اگر رک جائے تو تمہارے اعمال کا سلسلہ رک جائے، جس سے تم اللّٰہ پاک کا قرب حاصل کرتے ہو، اللہ پاک اس پر رحم فرمائے جس نے اپنا جائزہ لیا اور اپنے گناہوں پر آنسو بہائے۔
اور حضرت سیدنا امام شافعی رحم اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’میں نے صوفیائ کرام سے دو باتوں کا علم سیکھا، ایک یہ کہ وقت تلوار ہے اگر تم نے اسے کاٹ لیا تو کاٹ لیا ورنہ وہ تمہیں کاٹ دیگا، دوسری بات یہ کہ زندگی برف کی طرح ہے۔ (مدارج السالکین)
یعنی وقت ایک تلوار کی طرح ہے، اگر تم نے اس کا صحیح استعمال نہیں کیا تو وہ تمہیں باطل کاموں میں مصروف کر دیگا، اسی طرح زندگی برف کی طرح ہے، جس طرح سے زندگی دھیرے دھیرے پگھلتی رہتی ہے، اگر برف بیچنے والا برف پگھلنے سے پہلے رقم کما لے تو کامیاب ہے ورنہ وہ پگھل ہی جائے گی،اسی طرح سے اگر زندگی کے لمحات کا صحیح استعمال نہیں کیا تو وہ ہمارا انتظار نہیں کریگی، وہ تو گزر ہی جائے گی، اور وقت گزر جانے کے بعد کبھی واپس نہیں آتا، پھر سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا، اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں زندگی کی ایک ایک سانس کا حساب و کتاب دینا ہے، اور ہمارے اعمال کے حساب سے تو ہمارا ٹھکانہ جہنم ہی ہے، افسوس ہم لفظ جہنم کو ہلکے میں لے لیتے ہیں، یہ لفظ جتنا چھوٹا ہے حقیقت میں اتنا ہی زیادہ خطرناک ہے، ہمارے نازک جسم اس کو جھیلنے کی طاقت نہیں رکھتے، دنیا کی آگ ہم برداشت نہیں کر پاتے تو بھلا جہنم کی آگ کی تو کوئی مثال ہی نہیں،
حدیث شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ جبریل علیہ السلام سے دریافت فرمایا: ’’ اے جبریل! کیا بات ہے میں نے میکائیل کو کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا ؟ تو جبریل علیہ السلام نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: جب سے جہنم کو پیدا کیا گیا ہے میکائیل کبھی نہیں ہنسے، اور جب سے جہنم پیدا ہوا ہے، تب سے میری آنکھ اس کے خوف سے کبھی خشک نہیں ہوئی، مجھے ڈر ہے کہ کہیں مجھ سے کوئی نافرمانی نہ ہو جائے اور اللہ تعالیٰ ہمیں جہنم میں ڈال دے۔ (مسند احمد)
روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے کسی کو روتے ہوئے دیکھا اور رونے کا سبب پوچھا، تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جہنم کی خبر دی گئی ہے، لیکن یہ خبر نہیں دی گئی کہ ہم اس سے نجات پا سکیں گے یا نہیں۔
محترم قارئین! اب ذرا غور کریں کہ معصوم فرشتے، انبیاء کرام علیہم السلام جن سے گناہ ہو ہی نہیں سکتا، اور صحابہ کرام اور اولیاء کاملین جن کا لمحہ لمحہ اللہ پاک کے احکامات کے مطابق گزرتا ہے وہ اس قدر جہنم اور آخرت کے خوف سے آنسو بہا رہے ہیں، اور ایک ہم ہیں کہ ہمارے جسم کا ایک ایک بال خدا کی نافرمانی اور گناہوں میں ڈوبا ہوا ہے پھر بھی ہمیں کوئی ہوش نہیں، کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ ابھی بہت وقت پڑا ہے، کر لیں گے توبہ، پڑھ لیں گے نماز، رکھ لیں گے داڑھی، ابھی تو جوانی ہے، جوانی میں جوانی کے مزے نہ لیے تو اس زندگی کا فائدہ فائدہ کیا، یاد رکھیں! دنیا میں آنے کی تو ایک ترتیب ہے کہ پہلے باپ آتا ہے پھر بیٹا، لیکن جانے کی کوئی ترتیب نہیں ہے، بسا اوقات باپ زندہ رہتا ہے بیٹا چلا جاتا ہے، ہم سب ایک لائن میں کھڑے ہیں کس وقت کس کا نمبر آ جائے کوئی پتہ نہیں، خدارا ہوش میں آئیں، قبر کی دہشت بہت خطرناک ہے، جہنم بھڑک رہی ہے، خدا کے فرشتے رب کے حکم کے منتظر ہیں کہ کب اللہ تعالیٰ حکم دے، اور وہ ہماری روح قبض کریں، رات کو سونے کے بعد صبح نصیب ہوئی یا نہیں، نہ جانے کتنے نوجوانوں کی میتیں ہم دیکھ چکے ہیں لیکن پھر بھی نصیحت حاصل نہیں کرتے، یقین مانیں اللہ پاک کو جوانوں کی عبادت بہت پسند ہے، جب کوئی جوان توبہ کرتا ہے تو رب کی رحمت دیکھ کے مسکراتی ہے، خدارا آئیں نہ سب مل کے توبہ کرتے ہیں، چہروں پر داڑھی رکھ کر سروں پر عمامہ شریف سجا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو زندہ کریں، ایسے بن کے دکھائیں کہ ہماری موت بھی ہم پر ناز کرے، دنیا سے اس شان سے جائیں کہ زمانہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ آج ایک نبی کا دیوانہ ہمارے بیچ سے چلا گیا۔
اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ربِّ کریم ہم سب کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے، گناہوں سے محفوظ رکھے، نمازوں کی پابندی کرنے، چہرے پر داڑھی شریف سجانے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو زندہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یارب العالمین بجاہ النبی الامین

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا