تلنگانہ میں کانگریس کی جیت بی جے پی کے لئے خوشخبری

0
0

 

 

 

ابراہیم آتش کرناٹک

تلنگانہ میں کانگریس کی جیت سے بی جے پی کے لئے آئندہ کی راہ بہت آسان ہوگی یقیننا اس بات کا بی جے پی کو احساس ہے اس لئے تو نریندر مودی نے تلنگانہ کے ووٹروں کا شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی اگلی بار اور قوت سے لڑیں گے اور کامیابی حاصل کریں گے میں اس لئے کہہ رہا ہوں بی جے پی کے لئے کانگریس کو ہرانا زیادہ مشکل نہیں ہوگا جتنا کہ بی آر یس کو ہرانا مشکل تھا آج جس تلنگانہ کو دنیا دیکھ رہی ہے وہ کے چندر شیکھر رائو کی بدولت دیکھ رہی ہے کے چندر شیکھر را ئو کی بدولت تلنگاہ کا وجود عمل میں آیا تلنگانہ ریاست کے لئے کے چندرشیکھر کی جدوجہد اور کوششوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا وہ زمینی سطح سے جڑے لیڈر ہیں کے چندر شیکھر رائو تلنگانہ کے مقبول عام لیڈر مانے جاتے ہیں یہی وجہہ ہے کہ بی جے پی وہاں اپنا کمل کھلانے میں اب تک نا کام رہی مگر ملک میں بڑھتی فرقہ پرستی رفتہ رفتہ پورے ملک کو لپیٹے میں لے رہی ہے تلنگانہ ریاست بھی کب تک بچ پائے گی کے چندرشیکھر رائو کو اپنے پیر پھیلانے کی ضرورت نہیں تھی ٹی آ ریس کو بی آر یس بنا کے انھوں نے حماقت کی جو علاقائی سیاسی پارٹیاں ہیں وہ علاقہ کے حد تک کام کریں تو بہتر ہوتا ہے اکثر علاقائی پارٹیاںقومی سطح پر اپنی پارٹی کو ابھارنا چاہتے ہیںاور اس میں ان کی پارٹی علاقہ سے اکھڑ جاتی ہے ایسا ماضی میں ہوا ین ٹی راما رائو نے تلگودیشم کو بھارت دیشم بنا دیا بعد میں اس کا نام و نشان غائب ہو گیا بی آر یس نے ریاست میںمسلمانوں کی کھل حمایت کی اور انھوں نے مسلمانوں کے لئے بہت اسکیمات اور فندس الاٹ کئے اور اس کے ساتھ انھوں نے کسانوں کے لئے جس طرح کی اسکیم لائی اس کی مثال ہندوستان کے کسی ریاست میں نظر نہیں آتی تلنگانہ ملک کے ایک ایسی ریاست ہے جہاں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے بے شمار اسکیمات نافذ کی گئیں اور عوام کو اس کا فائدہ ہوا اس کے باوجود اگر بی آر یس کو تلنگانہ کی عوام نے ووٹ نہیں دیا تو یہ تلنگانہ عوام کا فیصلہ ہے وہاں کی عوام کو اب پانچ سال تجربہ ہوگاان کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط تھا بی آر یس کو اسمبلی انتخابات سے پہلے اپنی سیاسی حکمت عملی بدلنے کی ضرورت تھی اور اپنے آپ کو سیکولر پارٹی کی شناخت قائم رکھنے کی ضرورت تھی ممکن ہے اس سے جو ہندو ووٹ بی جے پی اور کانگریس کی طرف شفٹ ہوا وہ نہ ہوتا قارئین کو یہ بات یاد ہوگی 2020 کے حیدرآباد کے بلدیاتی چنائو پر میں نے ایک مضمون لکھا تھا جو دسمبر کی ۷ اور ۸ تاریخ کو ملک کے بہت سے اخباروں میں شائع ہوا جس کا عنوان تھا ,, بی جے پی کی حیدر آباد میں کامیابی دراصل تلنگانہ میں پیش قدمی ہے ,, حیدر آباد کے بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی کی کا میابی بی آر یس کے لئے بہت بڑا جھٹکہ تھا اور آنے والے اسمبلی انتخابات میںجو 2023 میں ہونے والے ہیںاس میں بی آر یس کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے یہ بات میں اس وقت کہی تھی 2020 میں حیدر آباد کے بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی کے کار پوریٹر 4 سے 48 پر پہنچ جانا کوئی معمولی بات نہیں تھی میں نے اس وقت کہا تھا اس کو بی آر یس سنجیدگی سے لینا ہوگا تلنگانہ میں جہاں بی جے پی کا صرف ایک ایم یل اے تھا 2023 میں ان کی تعداد8 تک پہنچ گئی2017 میں بی جے پی کا ووٹ فیصد سات تھا 2023 میں وہ ووٹ فیصد بڑھ کر پندرہ پر پہنچ گیا ہے اگر بی جے پی کا گراف دیکھا جائے تو وہ اونچائی کی طرف جا رہا ہے بی جے پی اب تلنگانہ میں طاقتور ہو رہی ہے اس سے اس بات کے اشارے ملتے ہیں 2028 میں بی جے پی اور طاقتور ہو سکتی ہے کیا بی آر یس کا ووٹ پورے کا پورا بی جے پی کو شفٹ ہو سکتا ہے اس طرح ہم دوسری ریاستوں میں دیکھ رہے ہیںتلنگانہ میں بھی اس طرح ہو سکتا ہے جہاں ایک ایم یل اے تھا آج ریاست کی تیسری سیاسی بڑی سیاسی پارٹی بن کر ابھری ہے ایم آئی ایم سے بھی آگے نکل چکی ہے ایم آئی ایم حیدرآباد کے بلدیاتی انتخابات ہوں یا اسمبلی انتخابات اس کے ہندسے بڑھنے والے نہیں ہیںاگر مسلمانوں کا ذہن بدلا تو یہ تعداد اور کم ہو سکتی ہے مگر بی جے پی کا معاملہ ایسا نہیں ہے بی جے پی ہندوئوں کے ووٹ اپنے جانب راغب کرنے میں ماہر ہے جب ایم آئی ایم جیسی مسلم سیاسی پارٹی میدان میں ہو تو بی جے پی کے لئے اور بھی آسان ہو جاتا ہے تمل ناڈو اور آندھرا پردیش میں کانگریس کی انٹری نہیں ہوئی اس لئے بی جے پی ان ریاستوں میں اپنے قدم جمانے میں اب تک نا کام رہی ہے جس دن کانگریس آ جائے گی وہاں بھی بی جے پی اقتدار حاصل کرے گی آج کل جو انتخابات ہو رہے ہیں وہ مکمل طور پر پولارائز ہو چکے ہیںصرف دو پارٹیاں ہی میدان میں رہتی ہیں ایک ہندئوں کی حمایت کرنے والی سیاسی پارٹی اوردوسری مسلمانوں کی حمایت کرنے والی سیاسی پارٹی تیسری پارٹی کو کوئی ووٹ دینے والا نہیں اور اس کا کوئی مستقبل بھی نہیں ہے بی آر یس کا مسلم ووٹ کانگریس کی جانب شفٹ ہو گیا اور کچھ ہندوئوں کا ووٹ بی جے پی اور کانگریس کی جانب شفٹ ہو گیا جس کی وجہہ سے بی آر یس کو بہت بڑا نقصان ہوا ایم آئی ایم کو حیدر آباد میں کوئی زیادہ نقصان ہونے والا نہیں ہے کیونکہ ہم پچاس سال سے دیکھ رہے ہیں نہ ترقی ہے نہ زوال ہے وہ اپنے متلقہ حلقوں میں کامیاب ہو جاتی ہے ایم آئی ایم کی قیادت پر اب سوال اٹھ رہے ہیںکیا ایم آئی ایم اسمبلی میں مسلمانوں کے نمائندگی کے متعلق سنجیدہ ہے جو اپنے آپ مسلمانوں کی پارٹی کہتی رہی ہے اور اس طرح کے سوال اٹھنے ضروری بھی ہیں ایم آئی ایم اپنے علاوہ اسمبلی میں کوئی اور مسلم چہرہ برداشت نہیں کرتی تلنگانہ اسمبلی کے نتائج کے بعد یہ واضح ہو چکا ہے اسمبلی میں بی آر یس اور کانگریس سے ایک بھی مسلم ایم یل اے منتخب نہیں ہو سکا جس کے لئے مجلس قیادت مکمل طور پر ذ مہ دار ہے یوں تو کانگریس اور بی آر یس نے کئی امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا لیکن چار امیدوار ایسے تھے جن کی کامیابی کے امکانات روشن تھے بی آر یس کے امیدوار عامر شکیل بودھن اسمبلی حلقہ سے میدان میں تھے جبکہ کانگریس کے ٹکٹ پر محمد علی شبیر نظام آباد سے اور محمد اظہرالدین جوبلی ہلز اور فیروز خان نامپلی سے مقابلہ کر رہے تھے بودھن میں عامر شکیل کے مقابلے میں وہاں کے لوگوں نے کانگریس کے امید وار سدرشن کے لئے مہم چلائی مسلمانوں کے ووٹ بی آر یس کے بجائے کانگریس کی طرف منتقل ہوئے ریاست بھر میں جماعت نے بی آر یس کی تائید کی تھی لیکن بودھن میں عامر شکیل کی مخالفت کی گئی نظام آباد سے محمد علی شبیر کو شکست دینے کے لئے مقامی کارپوریٹر س نے پوری کوشش کی کسی طرح سے کانگریس کا ایم یل اے جیت نہ سکے جبکہ یہاں سے مجلس کا کوئی امیدوار نہیں تھا مسلمانوں کے ووٹوں کو بی آر یس اور کانگریس میں تقسیم کر کے بی جے پی کا فائدہ کرایا گیا جوبلی ہلز سے محمد اظہرالدین کو شکست دینے کے لئے مجلس نے کارپوریٹر فراز کو میدان میں اتارا مجلس کے امیدوار کے نتیجہ میں مسلم ووٹ تقسیم ہوئے عام مسلمانوں کا احساس ہے کہ مقامی قیادت کو اسمبلی میں مسلم نمائندگی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کانگریس کو ہرانا بی جے پی کے لئے زیادہ مشکل نہیں ہوگاکیونکہ ملک کی بیشتر ریاستوں میں کانگریس کو ہرا چکی ہے بی آر یس کو ہرانا مشکل تھا اور وہ کام کانگریس نے بی جے پی کے لئے کر دکھایا ہمارے ملک کے ووٹرس کا مزاج بلکل مختلف ہے جو حکومتیں عوام کے لئے زیادہ سہولتیں فراہم کرتی ہے انھیں گھر کا راستہ دکھا دیتے ہیںتلنگانہ اور راجستھان اور چھتیس گڑھ میں ایسے ہی ہوا حکومتوں کی کارکردگی عمدہ تھی انتخابات سے پہلے تمام سروے بھی کہہ رہے تھے
راجستھان مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں کانگریس حکومت بنا سکتی ہے عین الیکشن سے پہلے حالات بدلتے گئے مدھیہ پردیش میں خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس کا فائدہ بی جے پی کو ہوا تلنگانہ میں کانگریس کی جیت کی سب سے بڑی وجہہ کرناٹک میں گزشتہ الیکشن میں جو فری گیارنٹی اسکیم نافذ کی گئی اس کااثر تلنگانہ کی عوام پر پڑا اور ان گیارنٹی اسکیم سے جس طرح کرناٹک کی عوام فائدہ اٹھا رہی ہے تلنگانہ کی عوام بھی اس طرح کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے
یقیننا کانگریس ان اسکیمات کو جلد نافد کرے گی اور پانچ سال اس کا فائدہ بھی اٹھائیں گے اس بات کی کوئی گیارنٹی نہیں کہ آئندہ الیکشن میں پھر بی جے پی کی جانب رخ نہ کریں تلنگانہ اسمبلی میں بی آر یس اب اپوزیشن میں رہے گی ساتھ میں بی جے پی اور ایم آئی ایم بھی ہوں گے اب دیکھنا یہ ہے بی آ یس کا رشتہ ایم آئی ایم کے ساتھ وہی رہتا ہے یا بی جے پی سے قریب ہو جاتا ہے کیونکہ ایسا ہم نے دیکھا ہے جب مسلمانوں نے کرناٹک میں جنتا دل کو ووٹ نہیں دیا تو جنتا دل نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کر لیا اقتدار کے لئے سیاسی پارٹیاں کبھی کسی کے ساتھ ہمیشہ کے لئے دوستی اور وفاداری کا لحاظ نہیں رکھتے اگر بی آر یس بی جے پی کے قریب آتی ہے تو ایم آئی ایم کا مستقبل کیا ہوگا یہ بہت اہم سوال ہے

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا