غیر منظم شعبوں میں استحصال کا شکار ہوتی خواتین

0
0
بھاگیہ شری
مہاراشٹر
دیوالی کی اگلی صبح تھی۔ گھڑی میں نو بجے رہے تھے۔ ہلکی سردی تھی لیکن میرا کام میرے لیے اتنا دلچسپ تھاکہ میں نے کوئی گرم کپڑے نہیں پہنے۔ میں مختلف جگہوں کا دورہ کرنے کے لیے تیار تھی اسلئے اب سڑکوں پر چلنے کے لیے بیتاب تھی۔ اب میں دکان میں داخل ہونے کے لیے تیار تھی لیکن اس بار میرا کردار پہلے سے کچھ مختلف تھا کیونکہ اس بار میں پہلے کی طرح بطور سیلزپرسن نہیں آئی تھی بلکہ وہاں کام کرنے والے عملہ کا انٹرویو لیکرچمکتے شو رومز اور ان میں موجود بہترین کپڑوں کے پیچھے چھپی تلخ حقیقت کو دنیا کو دکھانے کے لیے آئی تھی۔کام کرنے کی جگہ ایک دوسرا گھرہوتا ہے۔یہاں ایک ملازم غیر شعوری طور پر زندگی کا نصف حصہ صرف کرتا ہے۔ بہر کیف،کام کے دوران انسانی حقوق کا تحفظ ضروری ہے کیونکہ اس کی خلاف ورزی کی صورت میں کام کرنے والوں کی زندگی کا ایک اہم حصہ متاثرہوتاہے۔ فیلڈ اسٹڈی کے دوران میں نے پایا کہ ناندیڑ میں بوٹیک شاپس اور جیولری کی چھوٹی دکانیں، تھوک اور ریٹیل کپڑوں کی دکانوں کے برعکس بنیادی ڈھانچے کی مناسب سہولیات سے یکسر محروم ہیں۔ دوران انٹرویو نابالغ لڑکیوں کی بڑی تعداد نے اپنے تجربات بتائے۔ چائلڈ لیبراس لئے بھی عام ہے کیونکہ یہ ایک سستی مزدوری ہے۔بچوں کو اس لیے کام پر رکھا جاتا ہے کیونکہ یہ کم از کم اجرت پر کام کر تے ہیں۔
بہر کیف، اگرلڑکیوں کی بات کی جائے تو جو لڑکیاں کپڑے کی دکانوں میں بطور مددگار کام کر تی ہیں انہیں بہت سے مسائل کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ دوران انٹرویو رنجنا نامی خاتون نے بتایا کہ ناندیڑ میں زیادہ تر دکانوں میں واش روم کی سہولت نہیں ہے۔ لڑکیوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ قریبی علاقوں میں موجود عوامی واش روم کا استعمال کریں۔ انہیں پہلے بیت الخلا ء جانے کی اجازت لینی پڑتی ہے، پھر پبلک ٹوائلٹ یا قریبی ہوٹلوں یا اسپتالوں میں جانا ہوتا ہے۔ بعض اوقات وہ واش روم کے علاقوں میں لوگوں کی نظربد کا بھی شکار ہوتی ہیں۔رنجناکے مطابق لڑکیاں قضائے حاجت کے لیے اجازت لینے میں شرم محسوس کرتی ہیں۔واش روم استعمال کرتے وقت جلد بازی سے اس لئے کام لینا پڑتا ہے کیوں کہ ہسپتالوں اور ہوٹلوں کے ملازمین کے تبصرے اور طعنے سننے پڑتے ہیں۔ کبھی کبھی سڑک کے دکاندار بھی نازیبا اشارے کرتے ہوئے سیٹی بجاتے ہیں۔ صفائی کی مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بیماریوں کا خطرہ جیسے اسہال، پیچش اور ٹائیفائیڈ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ ماہواری کے دوران انہیں جسم کے اندرونی حصوں کو صاف کرنے اور سینیٹری نیپکن کو تبدیل کرنے میں بھی متعدد قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رنجنا اپنا تجربہ مشترک کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ لڑکیوں کو لمبے وقت تک کام کرنا پڑتا ہے۔ وہ کہتی ہے، ”ہمارے لئے وقت کی کوئی قید نہیں ہے۔ہمیں وقت پر آنا پڑتا ہے لیکن ہم وقت پر گھر نہیں جا سکتے۔ اگرہم گاہک کو سنبھال رہے ہوتے ہیں، توہم کو اس وقت تک بنے رہنا پڑتاہے جب تک کہ گاہک کچھ نہ خرید لے۔“وہ مزید کہتی ہے کہ اگر کوئی گاہک رات کو آتا ہے تووقت پر گھر نہیں جا پاتی ہیں۔ اگر کوئی گاہک صبح یا دوپہر میں آتا ہے تو انہیں بہترین سروس دینے کے لئے کبھی اپنا لنچ توکبھی اپنا ناشتہ ترک کرناپڑتا ہے۔ اگرگاہک کچھ نہیں خریدتاہیں تو اس کا الزام بھی ان پر عائد کیا جاتا ہے اور دکانداران کی توہین کرتے ہیں۔ کام کاطویل وقت بھی ایک اہم مسئلہ ہے، جس کا سامنا تمام لڑکیوں کو کرنا پڑتا ہے۔ لمبے وقت تک کام کرنے کے بعد انہیں کھانا کھانے کے لیے مناسب لنچ بریک نہیں ملتاہے۔ دوپہر کے کھانے کا وقفہ صرف 30 منٹ کا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے انہیں اسٹاک روم میں یا کاؤنٹرپر ہی کھانا کھانا پڑتا ہے کیونکہ کھانا کھانے کے لیے وہاں کوئی مناسب کمرہ نہیں ہوتا ہے۔ رنجناجس دکان میں کام کر رہی ہے، وہ ایک چھوٹی دکان ہے۔ اس میں ایک چھوٹے اور ایک بڑے کاؤنٹر کے علاوہ تین سے چار ملازمین ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی جگہ نہیں ہے۔ بہر کیف، یہ صرف رنجنا کا اکیلے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ کپڑے کی ہر دوسری دکان کایہی حال ہے اور شاید ان دکانوں کی تمام لڑکیوں کے مسائل بھی ایک جیسے ہی ہیں۔
میں رنجنا کی دکان سے باہر نکلی اور ایک کثیر المنزلہ عمارت میں داخل ہوئی۔ پلاٹ کا رقبہ چھوٹا تھا۔ ظاہر ہے عمارت کی اونچائی دیکھ کر کوئی بھی بتا سکتا ہے کہ اس جگہ پر اتنی اونچی عمارت تعمیر کرنے کی اجازت نہیں مل سکتی ہے کیونکہ یہاں پر سڑک کی چوڑائی کافی تنگ ہے۔بہر کیف، دکان کے مالک کا تعلق سیاست سے ہے، اس لیے ظاہر ہے کہ انہیں کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ میں دکان میں داخل ہوئی، وہاں ایک سیلز گرلز مناسب ڈریس کوڈ میں موجود تھی۔ اس کارکن کی بہترین حالت دیکھ کر میرے اندر انتہائی خوشی پیداہوئی۔ اب میں اس سے بات کرنا چاہتی تھی۔ اس کا نام سیما تھا۔ سیما ایک پرجوش لڑکی تھی۔ وہ ہمیں سب کچھ بتانا چاہتی تھی۔ دوران گفتگو سیما نے کہا،”پہلے انہیں مہینے میں چار چھٹیاں ملتی تھیں لیکن مزدوروں کی مانگ میں اضافے کی وجہ سے انکے آجر انہیں مہینے میں صرف تین چھٹی کی اجازت دے رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کچھ دکانوں میں مزدوروں کو مہینے میں صرف دو چھٹیاں ہی ملتی ہیں۔“ واضح رہے کہ یہ وہ چھٹیاں ہیں جن کو ہم ہفتہ داری چھٹیاں یا انگریزی میں  ”ویک آف“ کہتے ہیں۔ اگر وہ اس سے زیادہ چھٹیاں لیں گی توان کی تنخواہ سے اس کے پیسے کاٹ لیے جائیں گے۔ میں نے ایک اور چیز کا مشاہدہ کیا کہ کام کرنے کی جگہوں پر بھی جنس اورذات کی بنیاد پر ملازمین کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ عام طور سے مرد وں کے بالمکابل عورتوں اور لڑکیوں کو کم تنخواہ دی جاتی ہے اور لڑکیوں کو عام طور سے بڑی ذمہ داریوں کے کام پر بھی نہیں رکھا جاتا ہے۔
اب میں ایک بڑی دکان میں داخل ہوئی۔ شاید یہ ناندیڑ کی سب سے بڑی دکان تھی۔ ناندیڑ میں ہی اس کی چار شاخیں ہیں۔یہاں سو سے زیادہ لوگ کام کرتے ہیں جن میں تقریبا نصف فیصد عملہ خواتین پر مشتمل ہے۔ اپنے ابتدائی دنوں میں یہاں پر میں بھی بطورمعاون کام کرچکی ہوں۔ دکان مالک کے اجازت نہ دینے کے باوجود بھی کسی طرح میں عملے کی انٹرویو لینے میں کامیاب ہوگئی۔ یہاں میری ملاقات کومل سے ہوئی۔ وہ بات کرنا چاہتی تھی لیکن اس کی شرط یہ تھی کہ کام کے دوران ہی اس کی انٹرویو لی جائے۔بہر کیف، دوران انٹرویو میں نے دیکھا کہ ایک آدمی سیڑھیوں سے کپڑوں کا ڈبہ لا رہا ہے۔ میں نے کومل سے پوچھا کہ وہ لفٹ استعمال کیوں نہیں کر رہا؟ کومل نے بتایا کہ دراصل، لفٹ دکان مالک کے علاوہ صرف سیلز والے اور گاہک ہی استعمال کر سکتے ہیں۔ باقی دیگر لوگوں کو لفٹ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ کومل نے مزید بتایا کہ انہیں ڈیوٹی کے دوران بیٹھنے کی اجازت بھی نہیں ہے چاہے، کام ہو یا نہ ہو۔ اس لیے انہیں کام کے بوجھ کے لحاظ سے کم از کم 8 گھنٹے اور زیادہ سے زیادہ 12گھنٹے کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ کومل کا شکریہ ادا کر کے جب میں وہاں سے باہر نکل رہی تھی تو مجھے کسی کے پکارنے کی آواز سنائی دی۔ مین نے مڑ کر دیکھا تو پکارنے والے مجھے ہی پکار رہے تھے۔ دراصل وہ بھی انٹر ویو دینا چاہتے تھے لیکن وہ چاہتے تھے کہ کام ختم ہونے کے بعد ان سے بات کی جائے۔ ان میں سے ایک نے مجھے اپنا فون نمبر دیا اور ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد فون کرنے کے لئے کہا۔ اس وقت  مجھے معلوم ہوا کہ کام کرتے ہوئے انہیں اپنے پاس فون رکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ میں نے پوجا نامی ایک خاتون سے اس کے بارے میں مزیدجانے کی کوشش کی، تو اس نے کہا،”تائی! یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اگر گھر میں کچھ ناگہانی ہو جائے تب بھی ہم کال نہیں کر سکتے۔“ اس پہلو سے دیکھا جائے توان کی حالت کان کنی میں کام کر نے والے مزدوری کی سی ہے۔ ڈیوٹی کے دوران وہ دنیا سے مکمل طور پر منقطع ہو جاتے ہیں۔ بحالت ایمرجنسی انہیں باہر جاکر کسی اور جگہ سے فون کرنا پڑتا ہے۔
اب میں ایک اور دکان میں چلی گی۔ یہ ایک چھوٹی سی دکان تھی۔اس میں دکان مالک کے علاوہ صرف تین ملازم تھے۔ وہاں میری ملاقات کوثرنامی ایک خاتون سے ہوئی۔ وہ ایک مسلمان لڑکی تھی۔حالانکہ وہ کوئی ہنر سیکھنا چاہتی تھی لیکن اپنے اہل خانہ کو مالی معاونت دینے کی غرض سے اس دکان میں کام کر رہی تھی۔اپنی جوانی میں اس کی والدہ بھی یہاں کام کرتی تھیں۔ کوثرکے مطابق اس کی ماں بھی اسے اس نوکری پر رکھنا چاہتی تھی کیونکہ وہ مالک کو جانتی تھی اوریہ ملازمت بھی اس کے لئے موزوں تھی۔ مذکورہ سبھی جگہوں پر جانے کے بعد وہ تمام کردار جو مجھ سے ملے میرے ذہن میں آج بھی گردش کرتے ہیں اور جب میں ان چمکدار شو رومز کے بارے میں سوچتی ہوں تواس کے سامنے مجھے دھوئیں کا ایک ٹکڑا بھی دیکھائی دیتا ہے۔جس کے پیچھے خواتین کی مجبوریاں اور کبھی نہ ختم ہونے والی ان کے مالی استحصال سہنے کی کہانی نظر آتی ہے۔مصنف ڈبلو این سی بی کی فیلو ہیں۔ (چر خہ فیچرس)
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا