غزہ مخاطب ہے، ’’ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے‘‘

0
88

محمد اعظم شاہد
غزہ میں بسے فلسطینیوں کے عزائم اور ان کے جذبہ حریت کو کچلنے اسرائیل نے پچھلے سات مہینوں سے مسلسل اپنی سفاکانہ بربریت، دہشت گردی اورتباہی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ غزہ کے فلسطینی باشندوں کو اپنی نفرت اور عتاب کا شکار بنانے والے انسانیت مخالف اسرائیل آج بھی بے خوف اوربے لگام اپنے تکبر میں اِتراتا نظر آرہا ہے۔ جنگ بندی کے لیے ہونے والی کوششیں بے کار ہوکر رہ گئی ہیں۔ فلسطین پر اپنا ظالمانہ اور ناجائزقبضہ کو اپنا حق ماننے اورجتانے والا ملعون اسرائیل کے ظلم وستم کو روکنے والے عالمی سطح پر ہوچکی اور ہورہی کاوشیں بے اثر ہوکر رہ گئی ہیں۔ سات ماہ سے جاری اسرائیلی جنگی حملوں میں 35 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوگئے ہیں۔ 70 ہزار سے زائد غزہ کے باشندے زخمی ہیں اور لاکھوں بے گھر ہوکر بے یاس ومددگار ہر لمحہ سسکتی زندگی سے دوچار ہیں۔ اس جنگ کے دوران UNO اقوام متحدہ، بین الاقوامی عدالت برائے انصاف ICJ اوردیگر امن پسند ثالثی ممالک کی جنگ بندی کی کوششیں اوران کی آوازیں اَن سنی رہ گئی ہیں۔امریکہ اور دیگر اپنے ہم نوا ممالک کی سرپرستی اورحمایت سے اسرائیل اس جنگ کو اپنے تحفظ اور وقار کا مسئلہ بتاتا آرہا ہے۔ غزہ کے فلسطینی باشندے مسلم ممالک کی بے حسی مصلحت پسندی، پراسرار خاموشی پر سخت نالاں ہیں۔ 57 مسلم ممالک محض تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ نہ ان (مسلم ممالک) میں جذبہ ایمانی اور نہ ہی احساس ہمدردی کے آثار نظر آتے ہیں۔ لبنان،مصر، قطر اور ایران کے بعد آج تلک کسی بھی اسلامی مملک میں نہ غیرت اورنہ ہی ملی وابستگی کا احساس ہمیں نظر آیا۔
جب چاروں طرف اسرائیلی بربریت پر خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ ایسے میں امریکہ جو اسرائیل کا سب سے اہم اور اعلیٰ حمایتی ہے، اس ملک میں سات مہینوں میں کئی بار غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرتے امریکہ میں امن پسند تنظیموں نے مزاحمتی اورمذمتی احتجاج درج کروائے۔ اب گذشتہ ہفتہ امریکہ کی تیس یونیورسٹیوں میں شب وروز طلبہ اور اساتذہ اسرائیل کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں۔ مقامی پولیس جس طرح ان طلبہ پر قانونی کارروائی کررہی ہے۔طلبہ کو ان مظاہروں سے دور رکھنے انہیں گرفتار کیا جارہا ہے۔ اسی طرح اسرائیل مخالف احتجاج میں شدت دیکھی جارہی ہے ۔ امریکی یونیورسٹی کے طلبہ کے اس احتجاج اورجنگ بندی کے مطالبہ کا اثر آسٹریلیا، اٹلی اور کینیڈا کی یونیورسٹیوں میں بھی دیکھا جانے لگا ہے۔ مسلم ممالک میں عوام اور طلبہ کی خاموشی لائق صد افسوس ہے ہی،مگر امریکہ اور دیگر ممالک میں جاری مظاہروں میں فلسطینی عوام کے حقوق کا تحفظ، فلسطین کی آزادی امن کی بحالی، قتل وخون کاخاتمہ اورجنگ بندی کے لیے شدت کے ساتھ اُبھرتی آوازوں نے امریکی صدر جوبائیڈن اوراسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ ان دونوں حکمرانوں نے اسرائیل مخالف مظاہروں کو غیرقانونی کہہ کر کھلی مذمت کی ہے۔
امریکہ اور دیگر ممالک میں امن عالم اور حقوق انسانی اور آزادی انسان کے طرفدار طلبہ کے مظاہروں میں بڑھتی شدت پر ساحرؔ لدھیانوی کی نظم کے چند اشعار حالات کی ترجمانی کرتے محسوس ہوتے ہیں۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آنکلا ہے
کہیں شعلہ کہیں نعرہ کہیں پتھر بن کر
خون چلتا ہے تو رُکتا نہیں سنگینوں سے
سر اُٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں سے
بہرکیف گذشتہ سال 7 ؍ اکتوبر سے تادم تحریر جنگ کے خوفناک ماحول میں جس طرح کی زندگی غزہ میں فلسطینی بے سرو ساماں اور بے کسی کی زندگی بسر کررہے ہیں، وہ اس دور کی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ رمضان کا پورا مہینہ اور عیدبھی جنگ وجدال کے درمیان گزارنے والے فلسطینی امن کے ٹھیکیداروں کے دوغلے معیار اور سب سے بڑھ کر مسلم ممالک کی سرد مہری اور بے تعلقی پر سخت ناراض ہیں۔ اور دُنیا کے کونے کونے میں بسے اہلِ ایماں اور امن پسند افراد اس جنگ کی ہولناکی سے سخت نالاں ہیں۔ سفارتی تعلقات اور تجارتی مفادات کو فوقیت دینے والے مسلم ممالک کو اپنی مصلحت اور بے حسی ہمیشہ نشان علامت بناتی رہے گی بشرط یہ کہ ان میں ایمان کی حرارت باقی رہے۔
[email protected] cell: 9986831777

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا