غزل

0
0

عمران راقم

ہر بار بن رہی تھی جو ہشیار گر گئی
بے شرم ہر نظر سے ہی اس بار گر گئی
دہشت گروں کیہاتھ سیتلوار گر گئی
یہ بھی سنیں گے مرکزی سرکار گر گئی
جن کوخدا تھا ہونے کا غرہ بہت یہاں
سرسے انہی کیزعم کی دستار گر گئی
جو تھی کھڑی وہ عزت و ناموس کے لئے
پردے کے پیچھے کی وہی دیوار گر گئی
آساں سمجھ رہے تھے سیاست کا وہ سفر
خودکی بنائی کھائی میں سب کارگرگئی
وہ تو کٹی پتنگ ہے اس کا وجود کیا
اس پار گر گئی کبھی اس پار گر گء
سچ بولنے کے شہر سے آداب کیا گئے
اہل زباں کے منہ سے ہی منقار گر گئی
ان سے نظر ملانے کا اب کیا ہو حوصلہ
جب بھی پلک اٹھی تو ہر بار گر گئی
جیسے ہی اس نے ہم کو دیا بے وفا کا نام
بجلی ہمارے ذہن پہ دو جار گر گئی
راقم ہوا میں کیا ہوئی تھوڑی سی دوستی
کشتی سے جو لگی تھی وہ پتوار گر گئی
9163916117

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا