غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام، لکھنو¿ یونیورسٹی اور اردو رائٹرس

0
37

فوم لکھنو¿ کے اشتراک سے دوروزہ قومی سمینارکا انعقاد
ےو اےن اےن
لکھنﺅ//ادیبوں اورشاعروں کی شخصیت کی تشکیل اور ان کے ادبی سفر میں شہروں کا پس منظر بھی نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ بغداد، سمرقند،شیراز، اصفہان، دہلی،اکبرآباد، عظیم آباد اور لکھنو¿ کی عام فضانے بھی علما،ادبااور دانشوروں کی ذہن سازی ںنہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ غالب نے جن شہروں میں قیام کیااور وہاں کی علمی و تہذیبی روایت سے اثرات قبول کےے ان میں کلکتہ، بنارس، رام پور اور لکھنو¿ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ”باد مخالف“ اور ”چراغِ دیر“ جیسی شاہکار مثنویوں کو کلکتہ اور بناس کے تاریخی سیاق سے الگ کرکے نہیں سمجھا جاسکتا۔ غالب نے سفر کلکتہ کے دوران لکھنو¿ میںقیام کیااور یہاں کی علمی و ادبی فضااور مہمان نوازی کے ایسے نقوش اپنے ساتھ لے کے گئے جو مدت العمران کی حسین یادوں سے محو نہ ہوسکے۔ عہد غالب کا لکھنو¿ اپنے علمی،ادبی اور ثقافتی ورثے کی وجہ سے زریں دورانیہ طے کررہاتھا۔ سلطان العلما سید محمد صاحب اور سیدالعلما سید حسین صاحب جیسے علماسے علم و عرفان کے ایوان آباد تھے تو آتش، ناسخ، انیس اور دبیرجیسے ادبا سے ادبی منظرنامہ روشن تھا۔ منشی نو کشور پریس علمی وادبی اور طبی غرض ہر قسم کی کتابیں شائع کرکے علمی دنیا میں الگ باب رقم کر رہاتھا۔ بقول غالب”اس چھاپے خانے نے جس کابھی دیوان چھاپااس کو زمین سے آسمان تک پہنچا دیا۔“ غرض غالبیات کے تعلق سے لکھنو¿ کی علمی،ادبی اور تہذیبی اہمیت کا اندازہ ہم سب کو ہے۔ سال رواں فروری میں غالب کی وفات کو ۰۵۱برس اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے قیام کو ۰۵برس مکمل ہوگئے۔اس موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ نے لکھنو¿ یونیورسٹی اور اردو رائٹرس فوم لکھنو¿ کے اشتراک سے دوروزہ سمینار بعنوان ” عہد غالب کا لکھنو¿“کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے۔ سمینار کا افتتاحی اجلاس ۵ مارچ ۳بجے سہ پہر کومالویہ ہال لکھنو¿ یونیورسٹی میں ہوگا۔ عزت مآب جناب رام نائک، گورنر اترپردیش بطور مہمان خصوصی اس جلسے میں شرکت فرمائیں گے۔ صدارت کے فرائص پروفیسر سریندرپرتاپ سنگھ، وائس چانسلر لکھنو¿ یونیورسٹی انجام دیں گے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی افتتاحی کلمات ادا کریں گے۔ کلیدی خطبہ ممتاز ناقد ودانشور پروفیسر شارب ردولوی پیش کریں گے۔پروفیسر عباس رضانیر،صدر شعبہ¿ اردو لکھنو¿ یونیورسٹی تعارفی کلمات پیش فرمائیںگے۔ ڈاکٹر رضاحیدر،ڈائرکٹر غالب انسٹی ٹیوٹ استقبالیہ کلمات پیش اداکریں گے اور جناب سید وقار مہدی رضوی صاحب، جنرل سکریٹری اردو رائٹرس فورم لکھنو¿، اظہار تشکر فرمائیں گے۔ افتتاحی اجلاس کے بعد شامِ غزل کا بھی اہتمام کیا گیا ہے جس میں ممتاز گلوکارہ ڈاکٹر مالویکا ہری اوم غالب کی غزلیں اپنے منفرد انداز میں پیش فرمائیں گی۔ ۶ مارچ صبح ۰۱بجے سے شام ۵ بجے تک ” عہد غالب کا لکھنو¿“ کے عنوان سے مقالات کا سلسلہ شروع ہوگا جن مقالہ نگار حضرات کو زحمت دی گئی ہے ان میں پروفیسر مجاور حسین،پروفیسرفضلِ امام،پروفیسر احسن الظفر،محترمہ صبیحہ انور،جناب فیاض رفعت،پروفیسر یعقوب یاور،پروفیسرشفیق اشرفی،پروفیسر عمر کمال الدین، پروفیسر عباس رضا نیّر،ڈاکٹر روشن محمد تقی،جناب منیش شکلا،ڈاکٹر عمیر منظر،ڈاکٹر ریشما پروین،ڈاکٹر فاضل احسن ہاشمی، ڈاکٹر نور فاطمہ،ڈاکٹر شفیق حسین شفق،ڈاکٹر عشرت ناہید، ڈاکٹر منتظر قائمی، ڈاکٹر محضر رضا،ڈاکٹر ندا معید،محترمہ ثنا فاطمہ، اور ڈاکٹر شبیب احمد علوی قابل ذکر ہیں۔سمینار کے اختتامی اجلاس میں خواجہ معین الدین چشتی اردوعربی فارسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ماہ رخ مرزا نواب جعفر میر عبداللہ اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، لکھنو¿ کےمپس کے انچارج ڈاکٹر عبدالقدوس مہمان خصوصی کی حیثیت سے موجود رہیں گے۔ امید ہے کہ اپنی نوعیت کے اس منفرد سمینار میں بڑی تعداد میں ارباب علم موجود رہیں گے۔

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا