’’عوام نے جن حکمرانوں کو منتخب کیا ، ان کی قسمت تبدیل ہو گئی‘‘

0
82

قیصر محمود عراقی

ہر حکومت چاہے وہ آنے والی ہو یا جانے والی ، یہی کہتی آئی ہے کہ ہم عوام کی قسمت بدل دینگے اور اس ملک کو خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن کردینگے، مگر حکمرانوں کے دعوے صرف دعوے ہی رہتے ہیں، نہ ملک کی قسمت جاگتی ہے اور نہ ہی عوام کی قسمت میں خوشحالی آتی ہے۔ مگر ہاں، عوام نے جن حکمرانوں کو منتخب کیا ان کی قسمت ضرور تبدیل ہوگئی۔ قسمت نہ بدلنے والوں میں سرفہرست اس ملک کے عوام ہیں، عوام آج بھی سب کا ساتھ ساب کا وکاس اور ہندوستان میں خوشحالی آنے کی سہانے خواب دیکھ رہے ہیں۔
قارئین حضرات مسئلہ یہ نہیں کہ عوام پر مصائب کیوں آتے ہیں؟ لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان مصائب میں عوام کا اجتماعی رویہ کیسا ہوتا ہے اور جو عوام کے رہنما بنے پھرتے ہیںوہ عوامی رہنماکس انداز میں مصائب کا مقابلہ کرکے عوام کو مسائل کی دلدل سے نکالتے ہیں، جب کہ عوامی رہنما عوام کیلئے ایک باپ کی حیثیت رکھتا ہے۔ عوام کے اوپر جب بھی کوئی دکھ یا مصیبت نازل ہوتی ہے تو عوامی رہنما سب سے پہلے سینہ سپر ہوتے ہیں، رہنمائوں میں خدادصلاحیت ہوتی ہے کہ وہ آنے والے طوفانوں کا وقت سے پہلے ادراک کرلیتے ہیں، اپنی عوام کو تیار کرتے ہیںاور وقت کے آنے پر حالات کا مقابلہ کرکے عوام کو مصائب سے نجات دلاتے ہیں، اسی کا نام لیڈر ہے۔ اگر لیڈر حالات کا ادراک نہیں کرسکتا ، مشکلات میں عوام کے ساتھ نہیں کھڑا ہوتا، عوام کے دکھ درد میں شامل نہیں ہوتا تو ایسے لیڈر کو راہزن تو کہا جاسکتا ہے راہبر نہیں۔ لیکن کیا کیا جائے، عوام کے ساتھ آج کچھ بھی ہو حکمرانوں کو اپنی عیاشیوں سے فرصت نہیں، کرپشن ، وی آئی پی کلچر ، جلسے، جلوس اور دھرنوں کی سیاست اور ایسی ہی دیگر مصروفیات میں مگن ہیں، عوامی فلاح وبہبود، ترقی اور عوامی مسائل کی حل کی جانب کس کی توجہ ہے؟ عوام کی آواز پر کون کان دھر رہا ہے؟ بھوک، افلاس ، علاج ومعالجے کی سہولت کا فقدان ، بے روزگاری، ذخیرہ اندوزی اور اسی نوعیت کے دیگر مسائل جن کا عوام کا سامنا ہے ان کے حل کی طرف کون توجہ دے رہا ہے؟ جب کہ ملک میں عوام کا ایک جم غفیر جو سنجیدگی کے ساتھ ملک کی ترقی اور عوام کی بہبود کا خواہش مند ہے، لیکن مناسب قیادت کا فقدان ہونے کی صورت میں عوام مایوسی کا شکار ہے۔ آج کل ملک کی سیاست کا کھیل اتنا خراب ہوگیا ہے کہ ہمارے ملک کے وہ کہنہ مشق ، تجربہ کار اور قابل سیاست داں اس فیلڈ سے کنارہ کش ہوگئے ہیں کہ جو ماضی میں اپنی قابلیت اور اہلیت کا لوہا منوا چکے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس ملک اور عوام کی حالت سدھارنے کے گرُبھی ہیں اور تجربہ بھی ، لیکن وہ ایسے حالات میں خود کو آلودہ نہیں کرنا چاہتے۔
ہمارے حکمرانوں نے اس ملک کو جس طرح سے تباہ وبرباد کیا ہے اس کی کہانی ہر نئے آنے والے حکمران کی زبانی ملک کے عوام سنتے سنتے تھک چکے ہیں۔ ویسے دیکھا جائے تو جانے والی حکومت اور آنے والی حکومت دونوں اپنے لگائے گئے نعروں اور دعوںمیں کہیں سے کہیں تک بھی مخلص اور سچے نہیں ہوتے، ان کے سارے دعوںاور وعدوں کے پیچھے جھوٹ ، مکر، فریب اور دھوکہ دہی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے سیاست جھوٹ ، مکر ، فریب اور دھوکہ دہی کا دوسرا نام بن کر رہ گئی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ جھوٹ ، مکر ، فریب اور دھوکہ دہی ہی سیاست کہلانے لگی ہے تو کہیں سے کہیں تک بے جا نہ ہوگا۔ یہ ہم عوام کی بدقسمتی ہے کہ آج کل کی سیاست پر وہ لوگ چھائے ہوئے ہیں جو دنیوی لحاظ سے بہت مضبوط وتوانا ہیں، دولت مند ہیں، جاگیروں کے مالک ہیں، جو اپنی طاقت ، دولت اور قوت کے سبب سیاہ وسفید کے مالک بنے ہوئے ہیںاور لطف کی بات تویہ ہے کہ ہم عوام ان بڑے بڑے مگر مچھوں کو اپنا مائی باپ ، پالن ہار ، نجات دہندہ اور مشکل کشاں سمجھتے ہیں اور اگر ان کے مقابلے پر کوئی سر پھرا لیکن لائق ، فائق ، قابل، اہل اور جرأ ت واستقلال کا حامل لیکن غریب طبقے سے تعلق رکھنے والا کھڑا ہوجائے تو وہ اسی ننگے بھوکے عوام کی نظر میں مکھی اورمچھر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا ۔ یہی وجہ ہے کہ جن جن مشکلات کو وہ دور کرنے کیلئے لٹیروں، بدقماشوں، بدمعاشوں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور صاحب طاقت وقوت والوں کو اپنا ملجا وماویٰ سمجھ بیٹھتے ہیں وہ ان کے دکھ درد کو کم کرنے کی بجائے مزید اضافے کا سبب بن جاتے ہیں۔
قارئین محترم! یہ کھیل ہم کئی سالوں سے دیکھ رہے ہیں کہ جب عوام نے ملک کے نظام سے بیزاری پیدا ہوتی ہے تو چہرے یا حکمراں جماعت ہی تبدیل کردی جاتی ہے یا اسی جماعت کے افراد کو لیکر ایک نئی سیاسی جماعت کھڑی کردی جاتی ہے اور پھر نئے نعرے اور نام سے عوام کوسہانے خواب دکھائے جاتے ہیںاور بھولی عوام پھر تبدیلی کے نعرے پر بیوقوف بن جاتی ہے لیکن اب عوام کو سوچنا ہوگا کہ وہ کب تک تبدیلی اور حقوق کے حصول کیلئے ان ہی لوگوں کے پیچھے بھاگتے رہینگے جن سے مایوسیوں کے علاوہ کچھ نہیں ملا ۔ کب تک عوام کرپٹ ٹولے کے پیچھے چلتے رہینگے، جنہوں نے ملک کی دولت کو لوٹ کر کھایا ہے اور بیرون ملک اثاثے بنائے ہیں اور عوام کو محرومیوں کے تحفے دیئے ہیں، اگر پھر وہی چہرے اور لوگ پارلیامنٹ میں آگئے توبچا کچا ہندوستان بھی یہ لوگ لوٹ کر کھاجائینگے۔ اس لئے احتساب کا عمل کسی ایک فرد کے خلاف نہیں بلکہ ہر اس فرد کے خلاف ہونا چاہئے جو کرپشن میں ملوث ہو ، چاہے وہ سیاست داں ہو یا ایک عام آدمی سب کے خلاف بلا امتیاز عہدہ اور شخصیت دیکھے بغیر احتساب ہوگا تو ملک ترقی کریگا اس لئے وقت کی سب سے بڑی ضرورت اس خود پسند ، مفاد پرست اور کوتاہ اندیش قیادت سے نجات حاصل کرنا ہے،جس نے ملک اور عوام کو اس حال میں پہنچا دیا ہے۔ انتخابی بگل بج چکا ہے، تاریخوں کا اعلان بھی کردیا گیا ہے اور سات مرحلے میں الیکشن ہونے جارہا ہے۔ فیصلے کی اس گھڑی میں ضروری ہے کہ عوام ایک ایسی قیادت کو سامنے لائے ، جس کا دامن داغدار نہ ہو ، جو عوام کا خیرخواہ ہو ، جمہوری اور فلاحی ریاست کو قائم کرنے کے جذبے اور صلاحیت سے مالا مال ہو۔ اگر عوام اس وقت اپنے ووٹ دینے کے اس اختیار کو استعمال نہیں کرتی تو محض روایتی آہ وبقا سے حالات ہر گز تبدیل نہیں ہوسکتے۔ یہ ہمارے اپنے مفاد اور ہمارے آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کا تقاضہ ہے اور یہی بے تاب روحوں کی پکار ہے، جنہوں نے ہندوستان کی آزادی میں اپنے جان ومال اور عزت وآبروکی قربانی دی، آج وہ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان کو بچانے اور اس کومقصد وجود کے مطابق بنانے کیلئے بھی اسی طرح جدوجہد کریں جس طرح اسے آزادی دلانے کیلئے کی گئی تھی۔
کریگ اسٹریٹ،کمرہٹی،کولکاتا۔۵۸
موبائل:6291697668

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا