علمی اور تاریخی روایتوں کے امین و پاسباں

0
0
    حافظ مقصوداحمدضیائی
رشحات قلم : انعام الرحمن نؔیّر
میں خود تراشتا ہوں اندھیروں سے روشنی
مانگے ہوئے اجا لو ں کا فنکار میں نہیں
شخص سے شخصیت بننے تک وقت درکار ہوتا ہے ؛ جو لوگ کسی بھی فیلڈ میں مقام حاصل کرتے ہیں ؛ اس کے پیچھے ان کی جہد مسلسل اور زبردست عملی و ارادی قوتوں کا دخل ہوتا ہے ؛ جن لوگوں کے یہ اوصاف ہوتے ہیں وہی عظیم کہلاتے اور ان کی ہی عظمتوں کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ ہندوستاں کی جاں و دل اور کشمیر کے عارض کا تل خطہ پونچھ ہوشربا فطری حسن اور دلآویز خدوخال اور بے نقاب جمال آرائیوں کے ساتھ علم و ادب کا بھی گہوارہ رہا ہے ؛ جس کی کوکھ سے علماء و صلحاء اور ادیبوں قلم کاروں ؛ صحافیوں اور شاعروں نے جنم لیا اور افق کے عالم پر اپنی توانائیوں اور تابناکیوں سے جلوہ افروز ہوئے۔ چنانچہ اس کہکشانی سلسلے کے ایک اہم ترین کڑی قرطاس و قلم کے آفتابِ فروزاں و ماہتابِ درخشاں حافظ مقصوداحمدضیائی صاحب استاذ جامعہ ضیاءالعلوم پونچھ جموں و کشمیر بھی ہیں۔ جنہوں نے 1983ء میں ریاست جموں و کشمیر کے دور افتادہ سرحدی گاؤں گوتریاں موضع مندہار میں محمدصادق خاں کے گھر جنم لیا۔ اور گورنمنٹ پرائمری اسکول سوکڑ سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا معروف قدیم دانش گاہ جامعہ ضیاءالعلوم پونچھ اور پھر نفاست کا آئینہ دار مشہور دینی ادارہ جامعہ مظہرسعادت ہانسوٹ گجرات سے کسب فیض کیا بعد اذاں مادر علمی اول جامعہ ضیاءالعلوم کو اپنی تدریسی خدمات کے لیے پیش کیا اور معتدبہ مدت سے جامعہ کے شعبہ تحفیظ القرآن سے منسلک ہوکر پر وقار انداز میں دلجمعی کے ساتھ تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں اور صالح فکر کے ساتھ تعمیری مزاج کے حامل ہیں۔ انہوں نے اپنے لیے تدریس کے ساتھ دوسری راہ پرورش لوح وقلم منتخب کی اس راہ کے وہ نو وارد تھے اور ان کے لیے یہ راہ نئی ؛ پیچیدہ اور دشوار تھی۔ مگر فطری ذہانت اور فکری توانائی نے ہاتھ تھامے رکھا ؛ اور بامراد رہے ؛ میانہ قد ؛ کشادہ پیشانی ؛ روشن آنکھیں ؛ متوسط قدوقامت ؛ رفتاردھیمی اور باوقار ؛ جسم پرسادہ لباس ؛ سردی میں کبھی کبھی شیروانی اور بالوں والی ٹوپی ؛ پاؤں میں موسم کے اعتبار سے جوتے ؛ نہ تنک مزاج نہ کرخت لہجہ ؛ گفتگو میں تسلسل اور سامع کواپنے سحرمیں گرفتارکرلینے میں کمال ؛ مدلل اندازبیان ؛ دل کھوٹ سے خالی اور جذبہ ایثارسے لبریز ؛ دماغ میں ہمہ وقت تعمیری منصوبے اور شب و روز تدریسی اوقات سے فراغت پر بالخصوص عصر تا مغرب کے حصے میں لیب ٹاپ کے روبرو تکیہ بغل میں رکھ کر لکھنے کے عادی ؛ نظریں جھکی جھکی ؛ راستے میں ایک جانب چلنا اور محض مجلس میں ہوں تو سنجیدگی اور مزاح کا امتزاج اہل علم سے قلبی محنت طلبہ خصوصًا شاگردوں سے بے پناہ پیار ؛ آپ کی تحریری زندگی کی شروعات 2013ء میں ہوئی ؛ جس کا تفصیلی تذکرہ تصنیف لطیف "متاع زندگی” (زیر طبع) میں موجود ہے۔ گزشتہ دس برسوں سے موصوف کا قلم خوشبو بکھیر رہا ہے ؛ پونچھ کی ادبی فضاؤں میں جہاں عالمی شہرت یافتہ ادیب ؛ فقیدالمثال ناول نگار ؛ صاحب طرزکہانی کار اور منفرد اسلوب نگارش شخصیت کرشن چندر ؛ٹھاکر پونچھی ؛ چراغ حسن حسرت ؛ تحسین جعفری ؛خواجہ محمد دین بانڈے ؛ سرون ناتھ آفتاب ؛ دیناناتھ رفیق ؛ فاروق مضطر ؛ ایم این قریشی ؛ این ایچ قریشی ؛ ادیب اریب بشیربٹ ؛ مغل فاروق پرواز وغیرہ جیسے ناموروں کے نام گونجتے تھے ؛حافظ مقصوداحمدضیائی صاحب کا نام بھی ان فضاؤں کے حسن اور خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے وہ اپنے اسلوب کی انفرادیت ؛ انشاء کی ندرت ؛ فکر کی ہمہ گیری ؛ دلکش اور جاذب نظرتحریر ؛ معلومات کی جامعیت اور مطالعہ کی وسعت کے اعتبار سے نامورلوگوں میں شامل ہیں۔ انہوں نے سماجی ؛ دینی ؛ مذہبی ؛ ادبی مضامین کے ساتھ خاکہ نگاری کو بھی اپنایا اور اس میں نئے رنگ بھرے۔ حضرت مولانا پیرذوالفقاراحمدنقش بندی ؛ مولانا ابن الحسن عباسیؒ ؛ مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانیؒ ؛ مولانا نذرالحفیظ ندویؒ ؛ مولانا غلام نبی قاسمی کشمیریؒ ؛ مولانا عبداللّٰہ کاپودرویؒ ؛ مولانا عبداللّٰہ پٹیل مظاہری رویدرویؒ ؛ مفتی محمد اسحق نازکی ؛ خواجہ محمد دین بانڈے ؛ پروفیسر مرغوب بانہالی ؛ ڈاکٹرشمس کمال انجم ؛ ڈاکٹرعبدالرشیدندوی ؛ مولانا ندیم الواجدی ؛ اور مولانا نسیم اخترشاہ قیصرؒ وغیرہ جیسے ارباب علم و دانش سے ان کی خط و کتابت اور ملاقاتیں رہیں ان لوگوں نے تحریری میدان میں جو وقار ؛عزت ؛ عظمت اور بلندی عطاء کی۔ حافظ مقصوداحمدضیائی صاحب نے بھی ان ہی بنیادوں کو اپنی تحریری زندگی کی معراج جانا۔ وہی کسک ؛ تڑپ اور اضطراب ان کی تحریروں کا بھی حصہ ہیں ؛ جو ان کے دور کے قلمکاروں کے یہاں ملتاہے۔ ان کی بولتی ؛ چہکتی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی تحریروں کو پڑھ کرجہاں سکون ملتاہے اور امیدوں کی دنیا جاگتی ہے بلاشبہ وہ خاصے کی چیز ہے۔ حافظ مقصوداحمدضیائی صاحب جامعہ ضیاءالعلوم کی پیداوار اور اس کہکشان علم و فن کے درخشاں ستارے ہیں ؛ جس کو ہم دبستان ضیائی کے نام سے جانتے ہیں ؛ موصوف علم و ادب کے اس پیش رو کارواں میں شامل ہیں جو اس دور میں پرورش لوح و قلم کا فریضہ بحسن و خوبی انجام دے رہا ہے۔ یہ تاریخی سچائی ہے کہ ضیاءالعلوم سے قابل تعریف افراد پیدا ہوئے ؛ عصر حاضر جو تصنیف و تالیف کی فصلِ بہار کا ہر اعتبار سے بے نظیر دور ہے۔ حافظ مقصوداحمد ضیائی نہ صرف پڑھے لکھے لوگوں سے اپنی انفرادیت کا خراج وصول کر رہے ہیں بلکہ زبان و ادب کے اداشناسوں اور قرطاس و قلم کے ذریعے اپنے ہاتھوں اپنی تقدیر لکھنے والوں کے لیے باعث حسد بھی بنے ہوئے ہیں۔ ضیاءالعلوم کی نسل نو میں تحریر و انشاء پردازی میں جن سعادت مندوں نے بہت جلد شہرت حاصل کی ان میں حافظ مقصوداحمدضیائی صاحب کا نام نمایاں ہے۔ جنھیں عظمت و عزت گویا کہ وراثت میں ملی اور انھوں نے اپنی محنت اور اکتساب کے ذریعے بھی اپنے کو عظمت و عزت کا بھرپور حق دار ثابت کیاہے۔ کشمیرکے کہساروں سے مہبط وحی تک ؛ پیغمبرانقلاب بحیثیت سپہ سالار ؛ تجویدکے انمول موتی ؛سرزمین علماء کا یادگارسفرنامہ ؛ کشت زارعلم کاشجرثمردار ؛ نابغہ روزگارشخصیت ؛ ایک چاندتھاسرآسماں ؛ مشک ورق ؛ متاع زندگی ؛ سنگلاخ وادیوں کا مردآہن ؛ ماہتاب علم و عمل۔ ان کی لکھی اور ترتیب دی ہوئی وہ کتابیں ہیں جن کو خاص و عام میں مقبولیت حاصل ہے۔ اخبارات رسائل و جرائد میں شائع ہونے والے ان کے چھوٹے بڑے مضامین بشمول جدید کتب پر تعارف و تبصروں کی تعداد ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ ہے۔ سچ یہ ہے کہ آپ کا قلم گوہربار لکھتا ہی نہیں بلکہ صفحہ قرطاس پر علم و ادب کے موتی بکھیرتا ہے۔ آپ کا اسلوب تحریر گنجلک ہوجائے تو اہل ذوق کا تاثر بطور نمونہ بحرالعلوم حضرت مولانا غلام نبی قاسمی کشمیریؒ ہدیہ قارئین ہے۔ "قلم رواں اور سیال مضامین کے کٹھن اور سخت کہساروں کو یورپ کی مشینوں کی طرح مسخرومفتوح کرتا ہوا اسے اقلیم کی تسخیر کی تسخیرکہیے یا نویافت۔ دلی مبارکباد ؛ ہیچ پوچ دعائیں ؛ نیک خواہشات!!! اور جب سہل ہو تو تاثر اس طرح نظر نواز ہوتا ہے۔ کہ”حمدونعت کا تحلیلی مطالعہ” مضمون پڑھا انتخاب ہی نہیں بلکہ حسن انتخاب سو, داد واجب ؛تحسین فرض عین ؛ سچ کہتا ہوں کہ مجھے آپ کی نگارشات اس لیے پسند ہیں کہ آپ نرگس شہلا کی طرح رنگ رنگ کی پھولوں کا عرق کشید کرکے نگارش نہیں نگارستان عسل مصفی تیارکرتے ہیں”۔ اللّٰہ کریم آپ کی علمی وتحریری صلاحیتوں کو گلستانِ سعدی کی مقبولیت اور عمر نصیب فرمائے اور بخاری کی قبولیت اور شہرت عطاکرے”۔ مجھے حافظ صاحب کی مضمون نگاری کو پڑھ کر بے حد خوشی ہوتی ہے ؛ انشاء کا ملکہ اور کام کرنے والے دوسرے لوگوں کی حوصلہ افزائی کے معاملے میں فراخ دلی کے مظاہرہ کی نعمت آپ پر لاریب انعامِ باری ہے۔ اس وصف خاص سے آپ نے مضمون نگاری میں بہت کام لیا ؛ موصوف کے یہاں بہ طور خاص قوت مشاہدہ اور قوت تخیل و تاثر کی فراوانی ہے۔ جس طرح آپ تحریری میدان میں مواج ہیں یہ سفر بے تکان جاری رہا تو ایک دن اپنا نام تاریخ نویسوں کو لکھنے پر مجبور کریں گے۔ موصوف کے لیے یہ سعادت کیا کم ہے کہ انھوں نے اس صنف سخن کے ذریعے ارباب فکر و دانش کو استفادہ کرنے اور ان کے کارناموں سے خطہ کی نسل نو کے لیے چراغ جلانے کی راہ ہموار کردی ہے تاکہ وہ بھی اپنے اسلاف کے روشن کارناموں کی جانکاری کے بعد مستقبل کے امکانات سے مستفید ہوں اور حوصلہ جٹاسکیں۔ غرضیکہ آں موصوف جذبہ ایمانی وحمیت اسلامی کے مظہر ہیں ؛ ان کی فکر رسا اور مثبت سوچ میں اسلامی ضابطہ رچ بس گیاہے ؛ آپ کی تصنیفات کے محتویات و مضامین میں جس کا سنجیدہ اظہار خوب تر ہے۔ مگر
شوق کی بے خودی ہے یہ روح کی بے کلی ہے
ماتم زندگی ہے یہ نغمہ زندگی ہے
آپ کی تحریریں جابجا اس کی بھی شہادت دیتی ہیں کہ آپ ماہر نفسیات بھی ہیں ؛ ادبی اخلاقی و تہذیبی امور کی نکتہ داں اور اکتساب نتائج کے حوالے سے نکتہ سنج بھی ہیں۔ آپ کی تحریروں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان اپنی ذہنی روحانی جسمانی و نفسانی زندگی کس طرح بہتر بناسکتا ہے ؛ ان کی تحریروں کے مطالعہ سے حقائق زندگی اور مقصد حیات کا ایک صحیح نقشہ صفحہ ذہن پر ابھرتا ہے ؛ "سفرحج” کے لیے تشریف لے جاتے ہیں تو جہاں اس مبارک ترین سفر سعید میں آپ نے خود کو سعادتوں سے مسعود کیا ؛ وہیں ایک لافانی اور روحانی نسبت کا نور بھی ساتھ لے کر آئے اور حج کے اس سفر کو زاد آخرت کے حصول کا ذریعہ بھی بنایا اور دوران سفر موصوف نے جنید ؛ وقت ؛ شبلی زمانہ عارف باللّٰہ حضرت پیر شریعت و طریقت مولانا پیر ذوالفقاراحمد نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ سے شرف بیعت بھی حاصل کیا۔ جو یقینًا مستقبل میں ان کے جسم و روح کے لیے اکثیراعظم ثابت ہوگا۔ محسوس ہوتا ہے کہ جب سے موصوف اپنے مرشد کامل سے منسلک ہوئے ہیں ؛ زندگی کا طرز ہی بدل گیا ہے اور اخلاق و اعمال میں غیر معمولی سنجیدگی آئے ہے۔ اللّٰہم زد فزد صلاحا و فلاحا۔ اللّٰہ رب العزت استقامت کو ہمرکاب فرمائے اور دل میں اپنی یاد کی تڑپ بخشے۔
 الحاصل! کہاجاتا ہے کہ عطار ؛ رومی ؛رازی ؛ غزالی ؛ حالی ؛ شبلی ؛ اقبال ؛ غالب ؛ فنا ہوگئے جب کہ یہ نامناسب ہے۔ اس لیے کہ ان کے مآثر و معارف ؛ تحریری شہ پارے اور علمی باقیات پہلے سے کہیں زیادہ آج مقبول ہیں اور ہرصبح کے ساتھ جاودانی کی منازل عظمٰی کی طرف رواں دواں ہیں غرضیکہ حافظ مقصوداحمدضیائی عصر حاضر کے ایک فعال متحرک اور دردمند قلم کار ہیں ؛ مجھے یقین ہے کہ موصوف اگر اپنی ڈگر پر قائم رہے اور حالات ؛ زمانہ اور حوادث کی کسی بھی ستم ظریفی نے انھیں اس سے نہیں ہٹایا تو وہ مضمون نگاری کا ہمہ گیر موضوع بن کر ابھریں گے اور اس بات کے بجا طور پر حق دار ہوں گے۔ کہ
    تاریخ گلستاں جو مرتب ہوئی کبھی
    دیباچہ بہار کا عنوان رہیں گے ہم
آخری بات : متذکرہ بالا تبصرہ کا حاصل تحریر یہ ہے کہ عصر جدید میں بھی ہماری علمی تاریخ بعض ایسی عبقری زمن شخصیتوں سے معمور ہے جنھوں نے اپنے محدود وسائل اور نامساعد حالات کے باوجود علمی و ادبی تحقیقات کے قیمتی انبار لگاکر رکھ دئیے ہیں اس کی روشن مثال ہمارے فاضل دوست حافظ مقصوداحمدضیائی کی شخصیت ہے۔آں موصوف نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران اپنی گوناں گوں تحریری کاوشوں سے قرون وسطی کے فضلاء و محققین کی یاد تازہ کرا دی ہے۔موصوف کے اشہب قلم کی جولانی اب تک کم و بیش ایک درجن تالیفات کے قیمتی موتی رول چکی ہے۔ اللّٰہ رب العزت بصحت و عافیت تا دیر سلامت رکھے اور ہر مکر و شر سے اپنے حفظ و امان سے نوازے۔ اب میں اس مقام پر پہنچا ہوں کہ جہاں یہ تذکرہ ختم کیا جاسکتا ہے اس شعر پر یہ راہروقلم رخصت ہوا چاہتا ہے کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا