عظمت ِ صحابہ

0
0

 

 ۔محمدتوحیدرضاعلیمی بنگلور

موجودہ دور میں کر قسم قسم کے فتنے جنم لے رہے ہیں مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر صحابہ ء کرام اور اہل بیت کی محبت کی آڑمیں صحابہء کرام کی شان میں گستاخی اہل بیت نبوت کی شان میں گستاخی کرنے کی ناپاک کوشش کررہے ہیں حضور رحمت دوعالم ﷺ کے خلفائے راشدین اور صحابہ ء کرام کے مراتب و مرتبہ عظمت و بلندی کو گھٹانے بڑھانے میں لگے ہیں جب کہ سب صحابہ آپس میں بے انتہامحبت کرنے والے ہیں
اللہ پاک نے پارہ ۲۶ سورہ فتح آیت نمبر ۲۹ میں فرمایا۔محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں نرم دل تو انہیں دیکھے گا رکوع کرتے سجدے میں گرتے اللہ کا فضل و رضا چاہتے ان کی علامت اُن کے چہروں میں ہے سجدوں کے نشان سے یہ ان کی صفت توریت میں ہے اور ان کی صفت انجیل میں ہے(ترجمہ کنزالایمان)
تفسیر خزائن العرفان میں ہے کہ صحابہ کرام ایک دوسرے پر محبت و مہربانی کرنے والے ایسے کہ جیسے باپ بیٹے میں ہو تی ہے اور یہ محبت اس حد تک پہنچ گئی کہ جب ایک مومن دوسرے مومن کو دیکھتے فرطِ محبت سے مصافحہ و معانقہ کرتے اور صحابہ سب کے سب صاحب ایمان و عمل صالح ہیں یہ مثال ابتدائے اسلام اور اس کی ترقی کی بیان فرمائی ہے کہ نبی کریم ﷺ تنہا اٹھے پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپ کے مخلصین اصحاب سے تقویت دی
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سید عالم ﷺ کے اصحاب کی مثال انجیل میں لکھی ہے کہ ایک قوم کھیتی کی طرح پیداہوگی وہ نیکیوں کا حکم کریں گے بدیوں سے منع کریں گے کہاگیاہے کہ کھیتی حضور ﷺ ہیں اور اس کی شاخیں اصحاب اور مومنین ہیں(تفسیر خزائن العرفان )
میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں
اورمشکو ۃ المصابیح کتاب المناقب میں ہے ہمارے نبی خاتم النبیین ﷺ نے فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں پس اس میں سے جس کی بھی اقتدا کروگے ہدایت پائوگے۔صحابہ کرام کی شان کے آگے ہماشماکی کیا حیثیت ہم لاکھ کوششوں کے باوجود بھی صحابی کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے اوردنیا کے تمام اولیاء ابدال غوث اور قطب بھی جمع ہوجائیں توبھی کسی صحابی کے درجے کو نہیں پہنچ سکتے
رہی صحابہ کرام کی آپسی محبت تو جب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین جب مکہ مکرمہ میں ظلم و ستم سفاکی اور درندگی کی انتہا ہوگئی اور اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے زندہ رہنا دشوار ہوگیاتو ان مسلمانوں نے دین کی حفاظت کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردینے کا ارادہ کیا اور اپنا وطن اہل و عیال مال ودولت زمین جائدا د صنعت و حرفت اورتجارتی کاروبار سب کچھ چھوڑکر اپنے دین و عقیدے کی حفاظت اور دین اسلام کی ترویج و اشاعت کے مقصد سے مکہ مکرمہ سے خالی ہاتھ نکل پڑے اور ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے انہیں مہاجرین کہا جاتا ہے تو مہاجرین کو انصارِ مدینہ (مددگار ابتدائی مسلمان)نے گرم جوشی سے خوش آمدید کہا انصار نے اُنکا والہانہ استقبال کیا اور تمام آنے والوں کو عزت و تکریم کے ساتھ جگہ دی بلکہ اپنے گھر سامان مویشی یہاں تک کہ اپنی جائیدادیں تک بانٹ لیں یہ ان صحابہ کرام کی کھلی محبت کی مثال ہے
ہیں مثل ستاروں کے میری بزم کے ساتھی
اصحاب کے بارے میں یہ فرمایا نبی نے
عظمت صحابہ احادیث کی روشنی میں
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے الاصابہ کے دیباجہ میں امام ابوزرعہ رازی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول نقل کیا ہے ،جب تم کسی کو دیکھو کہ وہ رسول کریم ﷺ کے صحابہ میں سے کسی کی تنقیص کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے (الاصابہ ج۱)
۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی رحمت ﷺ نے فرمایا ،اللہ تعالیٰ میری امت کے جس شخص سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے دل میں میرے صحابہ کی محبت ڈال دیتا ہے(لاصواعق المحرقۃ۱۲ ترمذی)
حضور ﷺ کا فرمان عالی شان ہے جب میرے صحابہ کا ذکر ہورہا ہو تو خاموش رہا کرو یعنی ان کے متعلق اچھی بات کہو ورنہ خاموش رہو (لاصواعق المحرقۃ۳۲۴)
پس حضور کی آل ازواج اولاد و اصحاب رضی اللہ عنھم اجمعین سے محبت انکی تعظیم اور انکی تعلیمات پر عمل ایمان کی علامات میں سے ہے اور ان سے بغض وعناد ایمان و عافیت کی تباہی کا سبب ہے ،
سہل بن عبد اللہ تستری رحمہ اللہ کا ارشاد ہے ،وہ شخص ایمان ہی نہیں لایا جس نے آپ کے اصحاب کی تعظیم نہیں کی ۔
بخاری و مسلم مشکوہ باب مناقب الصحابہ میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،میرے کسی صحابی کو برانہ کہو کیوںکہ تم میں سے اگر کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تواُن کے ایک مُد یا اس کے نصف کے ثواب کو بھی نہیں پہنچے گا ۔
حدیث پاک کا مفہوم یہ ہوا کہ غیرصحابی کتنا ہی نیک ہو اور راہِ خدا میں اگر اُحد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرے تو بھی ثواب و درجہ میں کسی صحابی کے خیرات کئے ہوئے ایک سیر دو چھتانک بلکہ اسکے نصف کے ثواب کو بھی نہیں پاسکتا ۔۔جب صحابہ کرام کی خیرات کا بلند رُتبہ ہے تو ان کی نمازوں روزوں زکوۃ وجہاد اور دیگر عبادات کا کس قدر اعلیٰ مقام ہوگا ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غیب بتانے والے بنی ﷺ نے فرمایا ۔اُس مسلمان کو آگ نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا میرے دیکھنے والے کو دیکھا (ترمذی مشکوۃ باب مناقب الصحابہ)
اس حدیث پاک سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام و تابعین عظام کو جہنم کی آگ نہیں چھوسکتی کیوںکہ وہ رب کریم کی خاص رحمت سے جنت کے مستحق ہوتے ہیں یہ بات ذہن نشین رہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدر صحابی اور امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ عظیم المرتبت تابعی ہیں ان کی گستاخی و بے ادبی سخت جرم اور رحمت الٰہی سے محرومی کا باعث ہے ۔
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضاخان فاضل بریلوی فرماتے ہیں
اہل سنت کا ہے بیڑا پار اصحابِ حضور
نجم ہیں اور نائو ہے عترت رسولُ اللہ کی
میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنالینا
حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ،میرے صحابہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا ،میرے صحابہ کے متعلق اللہ سے ڈرنا، میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنالینا ،جو اُن سے محبت کرتاہے تو وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے اُ ن سے محبت کرتا ہے اور اُن سے عداوت رکھتا ہے تو وہ مجھ سے عداوت رکھنے کی وجہ سے اُن سے عداوت رکھتا ہے ۔جس نے انہیں تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے پکڑے(ترمذی مشکوۃ باب مناقب الاصحابہ )
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے بغض و کینہ رکھنا اور اُن پر تنقید کرنا درحقیقت حبیب کبریا ﷺ سے عداوت رکھنا اور انہیں اذیت دینا ہے اور آقاو مولیٰ ﷺ کواذیت دینا دراصل اللہ تعالیٰ کو اذیت دینا ہے اور ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے قہر و غضب کے مستحق ہیں
بعض لوگ ناجانے کیوں صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار سے بغض رکھتے ہیں ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ، امام حسین صحابی نہیں تھے کیوںکہ صحابی ہونے کے لیے حضور ﷺ کے ساتھ ملاقات کے وقت بالغ ہونا شرط ہے حالانکہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے شرح بخاری میں لکھا ہے کہ بالغ ہونے کی شرط مردود ہے ،امام بخاری امام احمد اور جمہورِ محدثین کا یہی قول ہے (فتح الباری)
صحابہ کون ہیں
صحابی کے لغوی معنی ساتھی کے ہیں جبکہ شریعت میں صحابی اُس خوش نصیب کو کہتے ہیں جس نے ایمان و ہوش کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کا دیدار کیا یا جسے آقا و مولیٰ ﷺ کی صحبت نصیب ہوئی اور پھر ایمان پر اس کا وصال ہوا (فضائل صحابہ و اہل بیت ص ۲۳)
تمام صحابہ کرام میں سب سے افضل سید نا ابو بکر صدیق ہیں پھر سید نا فاروق اعظم پھر سید عثمانِ غنی پھر سیدنا مولیٰ علی شیرخدا پھر بقیہ عشرہ مبشرہ و حضرات حسنین کریمین اہل بدر و اُحد بیعت رضوان والے بیعت عقبہ والے اور سابقین ہیں تمام صحابہ کرام متقی عادل اور جنتی ہیں اور ان کا ذکر خیر ہی کے ساتھ کرنا فرض ہے تمام صحابہ کی تعظیم و توقیر واجب ہے اور کسی بھی صحابی کے ساتھ بُرا عقیدہ رکھنا بدمذہبی و گمراہی اور جہنم کا مستحق ہونا ہے کیوںکہ قرآن واحادیث میں جابجا صحابہ کرام کے عادل متقی ہونے کی اور فسق سے محفوظ ہونے کی گواہی موجود ہے
وہ صحابہ جن کی ہر صبح عید ہوتی تھی
نبی کا ذکر کرتے نبی کی دید ہوتی تھی

امام مسجد رسول اللہ ﷺ خطیب مسجد رحیمیہ میسور روڈ قبرستان بنگلور
مہتمم دارالعلوم حضرت نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ نوری فائونڈیشن بنگلور
رابطہ۔9886402786
tauheedtauheedraza@gmail.com

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا