’’ اتحاد اور آپسی محبت کے بغیر مسلمان اسی طرح ہے جیسا کہ بغیر روح کے انسان کا جسم‘‘

0
0

قیصر محمود عراقی

آج کے اس دور کو کون سا دور کہینگے ؟ فتنوں کا دور ، گناہوں کا دور، بے حیائی اور بے لگامی کا دور ، خود سری اور خود غرضی کا دور، شیطانی دور ، یا جوجی ماجوجی دور ، سمجھ میں نہیں آتا کہ عصر حاضر کو کیا نام دیا جا ئے ؟ دور حاضر دورِ جا ہلیت کی طرف تیزی سے رواں دواں ہے ۔ بلکہ بعض لحاظ سے اس سے بھی آگے جا چکا ہے ۔ ان جملہ خرابیوں کو دور کر نے اور ان پر قابو یافتہ ہو نے کی سارے عالم میںکوششیں کی جا رہی ہے ۔ لیکن کوئی کوشش کا میاب ہو تی نظر نہیں آتی ۔ نئی نئی تجاویز روبہ عمل آکر فیل ہو رہی ہیں ، تعبیر کے بجائے تخریب کا باعث بن رہی ہیں ۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ، ہو نا بھی یہی چاہیئے ، اس لئے کہ ان جملہ خرافات ، بے اطمینان اور بے چینی پر قابو پا نے کے لئے محض انسانی تدبیریں اختیار کی جا رہی ہیں اور انسانی تدبیریں پورے طور پر کا میاب ہی کب ہو تی ہیں؟
آج ضرورت ہے اُن تدبیروں کی اور نسخہ کیمیا کی جو نبی پاک ﷺ نے بھٹکی ہو ئی انسانیت کے لئے استعمال کیا تھا ۔ یہ خالق کا ئنات کا عطا کر دہ نسخہ تھا ، جس نے گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں پھنسی ہو ئی انسانیت کو روشن شاہراہ پر لا کھڑا کر دیا ، جس نے بد ترین خلائق کو بہترین بنا دیا اور جس نے مردو ںکو مسیحا کر دیا ، لہذا عصر حاضر کے مذہبی اختلاف میں سیرت نبوی ﷺ سے رہنمائی حاصل کر نی ہو گی ۔
عالمی پیمانے پر اتحاد و اتفاق قائم کر نے کی ضرورت آج سب سے زیادہ محسوس کی جا رہی ہے ۔ آج کوئی ایسا اقتدار نہیں جس کو سب لوگ تسلیم کریں، جس کی سب اطاعت کریں ، کسی متفقہ اقتدار کا نہ ہو نا آج کی سب سے بڑی کمی ہے ۔ آج ایک قوم دوسری قوم کو دیکھنا نہیں چاہتی ۔مختلف قسم کے معاہدے ہو تے ہیں اور ٹوٹ جا تے ہیں ان کے حل کے لئے اگر یہ سو چا جا ئے کہ کسی ایک انسان کی حاکمیت پر سارے لوگ متفق ہو جا ئیں پر ایک اس کی اتباع کریں ، تو ایسا فطری طور پر نا ممکن ہے ، اس لئے کہ آج ہر قوم دوسری قوم کی مخالف ہے تو جس انسان کا بھی انتخاب ہو گا وہ کسی ایک قوم کا فرد ہو گا ۔ اس پر اگر تفاق سے اپنی قوم متفق ہو گئی تو دوسری اقوام کو متفق کر نا آسان نہیں ۔ پھر یہ کہ انسان نفساتی اغراض اور ذاتی خواہشات سے پاک نہیں ہو تا ۔ اگر کسی پر اتفاق کر لینے کی پوری کوشش بھی کرے تو وہ آدمی وقت کا فرعون ، اور دورِ حاضر کا ’’مودی‘‘ ثابت ہو گا ۔ وہ سارے فوائد اپنے لئے ، اپنے خاندان ، اپنے فرقے اور اپنی قوم کے لئے سمیٹ لے گا ، دوسرے لوگ محروم اور منہ تکتے رہ جا ئینگے ۔ اس طرح انصاف کی جگہ ظلم اور مساوات کی جگہ کے اعتدالیوں کی حکومت ہو گی ۔ کسی آدمی کا علم اتنا وسیع نہیں ہو سکتا کہ ہر انسان کی ضروریات معلوم کر سکے، اصلاح و فلاح کی صورتوں سے واقف ہو ، ہر ایک کی فطرت جا نتا ہو۔ اس لئے وسیع تر ین علم نہ ہو نے کی وجہہ سے وہ جگہ جگہ ٹھوکریں کھائے گا اور پوری انسانی آبادی کو تباہی کے دہا نے پر لا کھڑا کر دے گا ۔ اس لئے انسان پر پوری نوع انسانیت کا متفق ہو نا نا ممکن اور لا حاصل ہے ۔
اس اختلاف کو ختم کر نے کی ایک دوسری شکل بھی ممکن نہیں کہ ساری انسانیت مل کر کسی ایک ادارہ کی حا کمیت کو تسلیم کر لے ۔ دنیا میں جتنے ادارے عالمی پیمانے پر قائم ہو ئے ، ان سب کا حال یہی ہوا ۔ آج اس واضح مشال عالمی تنظیم ’’ اقوام متحدہ ‘‘ ہے ۔ لہذا آج اختلاف حل کر نے کے لئے وہی کر نا ہو گا۔ جو اللہ کے رسول ﷺ نے کیا۔ آپ ﷺ نے اختلاف و انتشار سے تباہ دنیا کو متحد کر کے عملی مثال پیش کر دی ۔ا ٓپ ﷺ نے دنیا کو بتادیا کہ اے انسانو! کسی انسان یا کسی ادارہ کی حاکمیت کو تسلیم کر نے کے بجائے ایک ایسی ذات کی حاکمیت کو تسلیم کر لو جس نے سارے انسانوں اور اداروں کو جنم دیا ہے ۔ اسی کی حاکمیت کو تسلیم کر نے میں بھلائی ہے ۔ آپ ؑ کی ’’دعوتِ توحید‘‘کو جو ق در جوق افراد انسانی نے قبول کیا ، مذہبی اختلافات کو ختم کر نے کایہ سب سے بڑا مشترکہ پلیٹ فارم ہے ۔
رحمت ِ عالم ﷺ کی رسالت عالم گیر ہے ، پھر آپ ﷺ پوری دنیا کے لئے چراغ راہ بن کر تشریف لائے تھے ، آپ ﷺ ہی کی سیر ت و سنت کو سامنے رکھ کر دنیا راہ یاب ہو سکتی ہے ۔، ہر طرح کے مسائل کا حل آپ ﷺ کی ہی اتباع میں مضمر ہے ، جملہ خرافات ، مصائب سے نجات کا ’’ نسخہ کیمیا ‘‘ آپ ﷺ کی زندگی میں ہی مل سکتا ہے ۔
افسوس صد افسوس آج لوگوں نے دنیا ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا یا ہو ا ہے ، غریب بھی امیر بننے کی اور دنیا کو حاصل کر نے کی کوشش کر تا ہے اور امیر امیر ترین ہو نے کی کوشش کر تا ہے ۔ آج کے اس دور میں اگر آپ دنیا کے ساتھ ساتھ دین کی بات کرینگے تو لوگ کہینگے کہ دیکھو دین کی بات کر تا ہے جبکہ دنیا کہاں پہنچ گئی ہے ۔ دنیا کی تحقیر اور مذمت کی بات بہت سے مسلمانوں کے دلوں میں بھی آسانی سے نہیں اتر تی بلکہ نو بت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بعض وہ لوگ جو مسلمانوں کے رہنما سمجھے جا تے ہیں اور دین کے لحاض سے ان کا شمار عوام میں نہیں بلکہ خواص میں کیا جا تا ہے وہ بھی اپنے دلوں میں دنیا کی محبت جمائے بیٹھے ہیں ۔ ہمارے آپسی عدم اتفاق کی وجہہ سے مختلف مقامات پر ہم مسلمانوں کو ظلم و بر بریت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ، اس کی وجہہ یہ ہے کہ ہم مسلمان تو ضرور ہیں لیکن عمل سے ہماری زندگی خالی ہے ن، تعلیمِ قرآن اور سنت ِ نبوی ﷺ سے ہم بہت دور ہیں ، ہماری صفوں میں اتحاد و اتفاق باقی نہیں رہی ، ہم مسلکی جزوی اختلافات میں منقسم ہو گئے ہیں ، آج ہم سیاسی و مذہبی ، انتشار و خلفشار کی وجہہ سے دلوں میں نفرت رکھتے ہیں اور یہ نفرت کم ہو نے کا نام ہی نہیں لے رہی بلکہ بڑھتی جا رہی ہے ۔ اس جدید دور میں سیاسی انتہا پسندی و فرقہ واریت نے ہمیں اندر سے کھوکھلا اور کمزور بنا دیا ہے جس کی وجہہ سے ہماری دنیا میں آض عزت نہیں رہی ۔ پہلی وجہہ یہ کہ ہم نے اتحاد و اتفاق کا دامن چھوڑا ، پھر ہم ادب و احترام کا رشتہ بھول گئے جس کی وجہہ سے تنزلی ہمارا مقدر ٹھہری جبکہ مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ اتحاد و اتفاق کا درس دیا ۔
تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب تک مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد قائم رہا اس وقت تک فتح و نصرف اور کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہو تے رہے اور جیسے ہی مسلمانوں نے اتحاد و اتفاق کے دامن کو چھوڑ کر اختلاف و انتشار میں لگے تب سے ہی شکست اور ناکامی اور طرح طرح کے مسائل ان کا مقدر بن گئی ۔یہ بات مسلمانوں کو سمجھنا چاہیئے کہ اجتماعیت اسلام کی روح ہے ، اتحاد و آپسی محبت کے بغیر مسلمان اسی طرح ہے جیسا کہ بغیر روح کے انسان کا جسم۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہر حال میں اتحاد کو قائم و دائم رکھا جا ئے کیونکہ یہ ایسی اجتماعی ضرورت ہے جس کے بغیر کسی بھی خاندان و قوم کی بقا و تر قی کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقل سلیم عطا فر مائے اور آپس میں اخوت و محبت و ہمدردی اور فلکی و ملی اور سماجی و سیاسی اور مسلکی اور فروعی اختلافات سے بجائے اور امتِ واحدہ بن کر رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ خدا کر ے کہ ہمارا کھویا ہوا شاندار ماضی ہم کو دوبارہ مل جا ئے اور ہم پھر سے ایک بار سر بلندی اور سرخروی سے اس دنیا میں جیئں اور جب اس دنیا سے جائیں تو اخروی کامیابی بھی ملے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اتحاد و اتفاق سے رہنے کی توفیق نصیب فر مائے۔ ( آمین )

کریگ اسٹریٹ ، کمرہٹی ، کولکاتا ۔۵۸
Mob: 6291697668

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا