انٹرنیٹ سہولیات کو منقطع رکھنے سے وادی کے 7ملین لوگ متاثر ہو رہے ہیں /وکلاء تین رکنی بینچ نے مرکزی حکومت کے نام نوٹس جاری کرتے ہوئے بدھ کے روز مفصل رپورٹ پیش کرنے کا حکم صادر کیا
سرینگر یو پی آئی // عدالتِ عظمیٰ میں کشمیر ٹائمز کی مدیر اعلیٰ اور راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈر کی جانب سے دائر کی گئی دو عرضیوں پر شنوائی ہوئی جس دوران وکلاء نے جموںکشمیر میں انٹرنیٹ خدمات پر مسلسل پابندی عائد کرنے اور مین اسٹریم لیڈران کی نظر بندی کا معاملہ اُٹھایا۔تین رکنی بینچ نے مرکزی حکومت کے نام نوٹس جاری کرتے ہوئے بدھ کے روز اس سلسلے میں مفصل رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ۔ خبر رساں ایجنسی یو پی آئی کے مطابق پانچ اگست کے بعد سے ریاست میں انٹرنیٹ خدمات کی معطلی اورنظر بند لیڈروں کی رہائی کے حوالے سے کشمیر ٹائمز کی مدیر اعلیٰ انورادھا بھسین اور راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈر غلام نبی آزاد کی جانب سے دائر عرضیوں پر بیک وقت شنوائی ہے۔ نمائندے کے مطابق تین رکنی بینچ کے سامنے وکلاء نے بتایا کہ وادی کشمیر میں 106روز سے انٹرنیٹ خدمات منقطع ہے جس کی وجہ سے تاجروں اور سیاحتی سے جڑے افراد اور میڈیا سے وابستہ نمائندوں کو سخت دقتوں کا سامنا کرناپڑرہا ہے۔ وکلاء نے تین رکنی بینچ کو بتایا پچھلے 106دنوں سے سات ملین لوگ انٹرنیٹ معطلی سے متاثر ہو ئے ہیں ۔ وکلاء کا مزید کہنا تھا کہ انٹرنیٹ خدمات پر پابندی عائد کرنے کسی بھی صورت میں صحیح اقدام نہیں ۔ تین رکنی بینچ نے وکلاء کی جانب سے مرکزی حکومت کے فیصلے پر اعتراضات اُٹھانے کے بعد بینچ نے مرکزی حکومت کے نام نوٹس جاری کرتے ہوئے آج یعنی بدھ کے روز عدالتِ عظمیٰ میں اس حوالے سے مفصل رپورٹ پیش کرنے کے احکامات صادر کئے۔ یہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ پانچ اگست کے بعد سے جموںوکشمیر میں انٹرنیٹ سہولیات منقطع ہے اگر چہ جموں میں برانڈ بینڈ سہولیات کو بحال کیا گیا تاہم وادی کشمیر میں یہ سہولیات بھی ٹھپ پڑی ہوئی ہے۔ بتا دیں کہ برانڈ بینڈ سروس مسلسل بند رہنے سے ذرائع ابلاغ سے وابستہ نمائندوں کو رپورٹنگ کرنے میں دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ مقامی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں میں کام کرنے والے نمائندوں نے حکومت سے بار بار التجا کی ہے کہ وادی کشمیر میں برانڈ بینڈ سہولیات کو بحال کیا جائے تاکہ ذرائع ابلاغ کو پیشہ وارانہ فرائض انجام دینے میں کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرناپڑے۔ پریس کالونی کے ساتھ ساتھ کشمیر پریس کلب میں بھی میڈیا نمائندوں نے انتظامیہ کی اس کارروائی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انٹرنیٹ کی بحالی کا مطالبہ کیا تاہم ابھی تک انتظامیہ نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں۔ سیکورٹی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ برانڈ بینڈ سہولیات بحال کرنے سے وادی کے پُر امن حالات میں رخنہ پڑنے کا احتمال ہے جس کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ لیا گیا ہے۔ سیکورٹی ایجنسیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملی ٹینٹ انٹرنیٹ کا غلط استعمال کرسکتے ہیں اور من گھڑت مسیج کا ایک سیلاب آنے کا خطرہ برقرار ہے۔