"صفر”کامہینہ منحوس نہیں 

0
0
تحریر:اللہ نوازخان
 اسلامی سال کا دوسرا مہینہ صفر ہے۔زمانہ جاہلیت میں صفر کو منحوس سمجھا جاتا تھااور اس مہینے میں اچھے کام نہیں کیے جاتے تھے،کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس مہینے میں بلائیں اترتی ہیں۔شادی، بیاہ اور دیگر خوشی کےتہوار صفر کے مہینے میں نہیں منائےجاتے تھے۔اسلام نے اس قسم کی جاہلانہ باتوں سےمنع کیا ہوا ہے۔جہاں جہالت زیادہ ہوتی ہے،وہاں فضول قسم کی رسومات بھی زیادہ ہو جاتی ہیں۔فضول قسم کی رسومات اور غلط عقائد انسان کا ایمان بھی چھین لیتے ہیں اور وقت کے علاوہ مال کی بھی بربادی ہوتی ہے۔اسلام نےفضولیات کو  اسی لیےمنع کیا ہے،تاکہ ایک بہترین معاشرہ قائم ہو سکے۔بعثت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےمنع فرما دیا تھا کہ صفر کو منحوس سمجھا جائے۔بعض لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ ماہ صفر میں بیماری،نحوست اوربھوت پریت کا نزول ہوتا ہے۔حدیث ہے”ماہ صفر میں بیماری نحوست اور بھوت پریت کا نزول نہیں ہوتا”(مسلم)اس حدیث سےعلم ہوتا ہے کہ جوشخص اس بات پہ یقین رکھتا ہے کہ اس ماہ میں بیماریاں اور مصیبتیں اس مہینے کی نحوست کی وجہ سےآتی ہیں تو وہ جاہل ہے،حقیقت میں ماہ صفر کی وجہ سے نہ تو بیماریاں آتی ہیں اور نہ بلائیں نازل ہوتی ہیں۔بعثت سے قبل اس ماہ میں  جنگ بھی حرام تھی۔بد شگونیوں کو ترجیح دی جاتی تھی۔اسلام میں نہ تو بدشگونی کی کوئی حقیقت ہےاور نہ کسی مہینےکی نحوست کی حقیقت ہےبلکہ اسلام میں ان فضولیات سےبچنے کا حکم دیا گیا ہے۔اس مہینے میں خوشی منائی جا سکتی ہے۔جس طرح زمانہ جہالت میں سمجھا جاتا تھا کہ اس مہینے میں بلائیں اترتی ہیں اور اسی مہینے کی نحوست کی وجہ سےمشکلات آتی ہیں،تو اسلام میں ان باتوں سےمنع کیاگیا ہے۔چھوت یا بدشگونی یا صفر کی نحوست،یہ سب لغوخیالات ہیں۔ایک حدیث کے مطابق”چھوت لگنا،بد شگونی لینا اور صفر کا منحوس ہونا یہ سب لغو خیالات ہیں(بخاری)اسلامی تعلیمات انسان کوصراط مستقیم پر چلاتی ہیں۔بہت سے افراداس مہینے کومنحوس جان کرسفر وغیرہ بھی نہیں کرتے،ان کا اس بات پر یقین ہوتا ہے کہ اس ماہ میں سفر کرنا نقصان کا سبب بنے گا۔ایسی فضولیات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
 جس طرح زمانہ جہالت میں صفر کے مہینے کومنحوس سمجھا جاتا تھا،اب بھی اکثریت سمجھتی ہے کہ صفر کا مہینہ منحوس ہے۔غیر مسلموں کو تو چھوڑیے مسلمان بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس ماہ میں مصیبتیں اور پریشانیاں بہت زیادہ آتی ہیں۔دلیل کے طور پر یہ بات حدیث بنا کرپیش کر دی جاتی ہےکہ جو شخص مجھے صفر کے مہینے کی ختم ہونےکی خوشخبری دے گا میں اسے جنت کی بشارت دوں گاحالانکہ یہ حدیث نہیں بلکہ من گھڑت بات ہے۔لیکن اسکو حدیث بیان کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ صفر کا مہینہ پریشان کن ہوتا ہےاور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےاس مہینےکو خیریت سے گزرنےکو ایک خوشخبری سے تشبیہ دی ہے۔اس بات کو حدیث بنا کرپھیلایا گیا ہے،جو کہ جھوٹ اور غلط ہے۔موجودہ مسلمانوں میں بھی یہ خامیاں پائی جاتی ہیں اور ان کوحق سمجھ لیا جاتا ہے۔حق پاس ہونے کے باوجود بھی باطل کی پیروی کرنا بہت ہی افسوسناک ہے۔اب بھی بہت سے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس ماہ میں اچھے کام کرنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔بد شگونی بھی اسلام میں ممنوع ہےاور چھوت چھات کےغلط تصور سےبھی اسلام روکتا ہے۔یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ بےچین بدروحیں آتی ہیں،ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ایک حدیث کے مطابق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا "چھوت چھات کی کوئی حقیقت نہیں،بد شگونی کچھ نہیں ہے،بے چین بدروحوں کی کوئی حقیقت نہیں اورصفر کا مہینہ منحوس نہیں”(بخاری)چھوت چھات کے بارے میں غلط تصور رکھنا منع کیا گیا ہے۔
 بعض باتیں اور رسم و رواج یا کلچربہتر ہوتا ہے،اسلام ان سےنہیں روکتا،صرف وہ رسم و رواج جو انسان کوجہالت کی طرف دھکیلتے ہیں ان سے منع کیا گیا ہے۔دینی اور دنیاوی تعلیمات انسان کو جہالت سےنکالتی ہیں۔تعلیم یافتہ شخص ان فضولیات کی تحقیق کر کےخود کوان سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔قرآن اور حدیث کا مطالعہ کرنے سے انسان کو اچھی طرح سمجھ آ جاتی ہے کہ حق کیا ہے اور باطل باتیں کون سی ہیں؟اس بات کو بھی سمجھنا ہوگا کہ اسلام ہر رسم ورواج کا مخالف نہیں ہے،بلکہ بہتر باتیں اور بہتر رسم و رواج اپنائے جا سکتے ہیں۔مثال کے طور پر کہیں تہبنداستعمال کیا جاتا ہے اور کہیں شلوار قمیض یاپینٹ شرٹ،ان سےاسلام منع نہیں کرتا۔ڈھول کو بھی کئی علاقوں میں پسند کیا جاتا ہے،بلکہ کئی جگہوں پر خوشی کےموقع پراس کو بجایا جاتا ہے،علماء کرام اس کوبجانے سے منع نہیں کرتے۔ایسی باتیں اور اعمال جن سے ایمان کےضائع ہونے کا خطرہ ہو،ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔لا علمی اور جہالت انسان کو اس سٹیج پر بٹھادیتی ہے جہاں فضولیات کو ایمان کا حصہ سمجھ لیا جاتا ہے۔یہ فضول باتیں انسان کا دامن ایمان سے خالی کر دیتی ہیں اور وقت بھی ضائع ہوتا ہے،علاوہ ازیں سرمایہ بھی ضائع ہو جاتا ہے۔صفر کے مہینے کو دوسرے مہینوں کی طرح سمجھنا چاہیےاور خوشی منانی چاہیے۔تجارت یا سفر اس مہینے میں بالکل ممنوع نہیں۔قرآن باقاعدگی سے پڑھا جائےتو اس قسم کی فضول باتوں سےبچا جاسکتا ہےنیز اچھی کتابیں پڑھنی چاہیےتاکہ علم میں اضافہ ہو۔کسی قسم کی بد شگونی بھی اسلام میں ممنوع ہے۔برصغیر پاک و ہند میں بہت سے افرادکالی بلی کا راستہ کاٹنا،بدشگونی سمجھتے ہیں حالانکہ اس قسم کی بدشگونی کی کوئی حقیقت ہی نہیں۔نحوست کا غلط تصور بہت سے اذہان میں اتنا راسخ ہو چکا ہےکہ اگر بتایا جائےکہ یہ غلط ہے تو وہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔جب تک علم کی روشنی ہمارے سینوں کے اندر نہیں جائے گی تب تک اس قسم کی فضولیات پروان چڑھتی رہیں گی۔قرآن کا ترجمہ پڑھنا چاہیے اور سمجھنے کے ساتھ عمل بھی کرنا چاہیےتاکہ فضول قسم کی باتوں سے جان چھوٹ جائے۔
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا