’’ شادی کا لڈو ‘‘ جو کھا ئے پچھتائے ، جو نہ کھائے وہ بھی۔۔۔۔‘‘

0
0

قیصر محمو د عرا قی

’’شادی و ہ بور کا لڈو ہے جو کھائے وہ بھی پچھتائے اور جو نہ کھا ئے وہ بھی پچھتائے‘‘ شادی کے معنی جشن یا مجاز اً بیاہ کے ہیں ، شادی دو انسانوں یعنی مرد اور عورت کو ایک رشتے میں بندھنے کا نام ہے ۔ دنیا کے ہر مذہب ، ہر معاشرے میں شادی کی اہمیت ایک جیسی ہے ۔ قدیم وقتوں میں شادی کے فریضہ کو ذمہ داری سے پورا کیا اور نبھایا جا تا تھا ، باپ کے گھر سے رخصت ہو کر لڑکی اپنی آخری سانس تک شوہر کے گھر میں رہ کر زندگی گزار دیتی تھی،چاہے وہ زندگی ہنسی خوشی سے گزارتی یا دکھ سہہ کر ، ہر حال میں وہ شوہر اور اس کی گھر کی باندی کے طور پر گزار دیتی۔ بر صغیر میں ہندو معاشرے میں تو شادی کے معنی ہی یہ تھے کہ شادی کے بعد اکٹھے جینے مر نے کے عہد و پیماں تھے، لیکن جینا مر نا صرف عورت کی ذات تک محدود تھا کہ اگر اس کا شوہرمر جا ئے تو بیوی کے لئے لازم ہو تا تھا کہ وہ شوہر کی ارتھی کے ساتھ ستی ہو جا تی تھی جبکہ مرد کے لئے یہ پابندی لازمی نہیں تھی ۔ پھر وقت بدلا اور ستی کی رسم محدود ہو ئی ، عورت کی بیوگی کو عبرت کا نشان بنا دیا جا تا اور زندگی کی پر آسائش اُس پر حرام قرار دے دی جا تی۔ آج کے موجودہ دور میں ہندو معاشرے کی عورت اتنی مضبوط حیثیت لے چکی ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود کر نے کے مقام پر آ کھڑی ہو ئی ہے ۔
اسلام میں نکاح کی اہمیت ہی مضبوط معاشرے کی بنیاد ہے ، نکاح کا نیک مقصد بے راہ روی اور بے حیائی کو روکنا ہے ۔ جہاں ہمارے مذہب میں لڑکے لڑکی کی رضا مندی کو اہمیت دینے کی اجازت ہے ، وہاں خاندان کے فیصلوں کو بھی اولیت دی جا تی رہی ہے ، پھر زمانہ بدلا ، وقت بدلا ، زندگی کے ان دیکھے موڑ آئے اور روایات خاندانوں سے نکل کر گھروں کے انفرادیت تک محدود ہو گئی ، پہلے وقتوں کے خاندانوں کے سسٹم کو دیکھیں تو بچے بچیوں کی شادی کا فیصلہ خاندان بھر کا عزت کا معاملہ ہو تا تھا ، ہر کوئی دوسرے بچوں کا خیال بھی اُسی طرح کر تا تھا ، جس طرح اپنے بچوں کی ازدواجی مستقبل کے بارے میں فکر مند ہو تا تھا ،پھر یہ روایت خاندانوں سے ختم ہو ئی ، گھروں میں بچوں کے ماں باپ نے اپنی تر جیحات کو اہمیت دینی شروع کی تو معاشرے میں بگاڑ کی ابتدا ہوئی ، خاندان کے بچوں اور بچیوں کو نظر انداز کر نے کا رواج عام ہو ا، نکاح یا شادی کا نیک مقصد کمرشیل ہو گیا ۔ اپنی حیثیت سے اونچے معیار تک چھلانگیں لگنی شروع ہو ئیں اور خاندانوں میں بچیاں بن بیاہی رہنے لگی ، وقت کے اس موڑ پر زندگی کی چکا چوند روشنی کی ابتدا ہو ئی اور جوں جوں وقت کی گاڑی آگے بڑھی لالچ کی روشنی اتنی بڑھی کہ صرف روشنی ہی رہ گئی مگر ارد گرد کے رشتے اور روایات روشنی کی چکا چوند میں گم ہو گئے ۔
تر جیحات بدلی تو خود پسند کی لہر نے معاشرے میں پسند کی شادی کو سامنے لا کھڑا کیا ۔ ابتدا میں اس روایت کو بُرا سمجھا گیا ۔ مگر پچھلے موڑ پر اونچے معیار کے میناروں کی اونچائی اور اس اونچائی کی اتنی پستی کہ خوف سے اسے ہی صحیح جا نا اور شادی جیسے سنجیدہ معاملے کی نا سمجھ بچوں کی پسند پر چھوڑ دیا ۔ اس طرح پسند کی شادی کا رواج پا لیااور جس تیزی سے یہ رواج عام ہوا اسی تیزی سے شا دی جیسا مضبو ط بندھن کچے دھاگے کی طرح ٹوٹنا شروع ہو نے لگا۔
پسند کی شا دی کا روا ج یوں تو پُرانے وقتوں میں بھی تھا ، لیکن محبت کر نے والوں اور محبت کی شادی کر نے والوں کو اس عمل کو پسند کی نگاہ سے نہیں دیکھا جا تا تھا ۔ چند محبتیں ہی شادی کے انجام تک پہنچنے میں کا میاب ہو پاتی تھیں ۔ کیونکہ محبت ڈھکے چھپے انداز میں پردوں میں رہ کر کی جا تی تھی یوں یہ محبتیں پردوں میں ہی رہ جاتیں ۔ تاریخ میں محبت کر نے والے مثلاً لیلیٰ مجنوں، ہیر رانجھا ، سواہنی مہیوال نے اپنی محبت کو تو امر کر دیا ، مگر ایک ہو نے کا خواب ، خواب ہی رہا ۔ اب محبت اس دور میں پانی کے بلبلے کی طرح ہو چکی ہے ، محبت امر ہو نے کے بجائے جھاگ کی طرح جلد ہی بیٹھ جا تی ہے۔
آج کے دور میں نوجوان نسل کا خیال ہے کہ شادی اس سے ہونی چاہیئے جس سے وہ پیا ر کر تے ہیں ، اسی سوچ کے نام پر ہمارے معاشرے میں آزاد خیالی کی بنیاد یں مضبوط ہو نی شروع ہوئیں ۔ اکیسویں صدی میں انٹر نیٹ اور موبائل فون کے معاشرے میں عام ہو نے سے آزاد خیال ، محبت ، پسند کی شادی بے قابو ہو نے لگی ۔ جس شدت سے محبت ہو تی اُسی زور شور سے شادی بھی سر انجام پا جاتی مگر نتیجہ چند سالوں یا چند ماہ میں ہی سامنے آ جا تا،توقعات اور ارما نوں کا طو فا ن شا دی کے بعد تبھی تھمتا جب معاملات شادی ختم ہو نے پر پہنچتا اور یکا یک آندھی کی طرح محبت بھی ختم ، شادی بھی ختم اور Under Standingکے نام پر ہو نے والے عہد و پیماں بھی Under groundہو جا تے ہیں ،عرف عام میں اسے’’ لو میرج ‘‘کہا جا تا ہے مگر یہ اگر مستی میرج کہا جا ئے ، غلط نہ ہو گا جو کچھ عرصہ بعد ہی ختم ہو جا تی ہے۔
آج کل ایک نیا رواج دیکھنے میں آرہا ہے کہ لڑکے لڑکیا اتنے خود مختار ہو چکے ہیں کہ کورٹ کچہری میں نوجوان جوڑے کسی کو نے میں کھڑے وکیل یا گواہوں کا انتظار کر تے نظر آتے ہیں ۔ نوجوانوں میں تعلیمی شعور کی وجہہ سے وہ یہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ شادی جیسے اہم فرض میں بھی انہی کی مرضی اور پسند ہو نا ضروری ہے گھر والے اب اہم نہیں رہے ۔ گو کہ یہ طریقہ کا ر ابھی محدود ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے جو کہ لمحہ فکر یہ ہے۔ آخر کیا وجوہات ہیں ؟ جس وجہہ سے یہ رواج بھی عام ہو تا جا رہا ہے۔ جس تیزی سے شادیاں ہو تی ہیں اُسی تیزی سے طلاق ہو جا تی ہے ۔ ایک زمانہ تھا جب معاشرے میں خاندانی اقدار پر فخر کیا جا تا ، ہر خاندان کی اپنی قدر یں تھیں اور خاندان کے ہر فرد پر لازم تھا کہ وہ اُن اقدار کی پاسداری کر ے ،لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اُن اقدار کا خاتمہ ہو تا جا رہا ہے،آج کے والدین اپنے بچوں کی گھریلوں تر بیت صحیح ڈھنگ سے نہیں کر پا رہے ہیں ، اچھے بُرے کی تمیز بتانا بھول گئے ہیں ، یہی وجہہ ہے کہ مل جُل کر رہنا اب بچوں کو پسند نہیں ، خود سری کا بھوت سر چڑھ کر بو لنے لگا ہے ۔ تو قعات اور خواہشات بڑھ گئیں ہیں ، بہرحال وجوہات تو سب کے سامنے ہیں مگر کوئی بھی انکا سدِباب کر نا نہیں چاہتا ۔ آخر کیوں ؟
6291697668

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا