سیزن میں دو مرتبہ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی انشو جمسینپا دنیا کی پہلی خاتون کوہ پیما

0
221

نئی دہلی، //دنیا میں آج بھی بہت سے ایسے لوگ موجود ہوں گے جن کا خواب ہوگا کہ وہ اپنی زندگی میں صرف ایک مرتبہ ماؤنٹ ایوریسٹ کی چوٹی پر چڑھیں، لیکن ایسے خواب ہر کسی کے پورا نہیں ہوا کرتے۔اروناچل پردیش کی رہنے والی انشو جمسنپاشاید ان خوش نصیب لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اس طرح کا خواب دیکھا اور ان کے خواب کی تعبیر بھی پوری ہوئی۔ جی ہاں ، حیرت کی بات یہ ہےکہ یہ ہندستانی کوہ پیما خاتون ایک نہیں دو نہیں بلکہ پانچ مرتبہ ماؤنٹ ایورسٹ سر کر چکی ہیں۔ انشو ایک ہی سیزن میں دو بار ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی پہلی خاتون کوہ پیما بھی ہیں۔ انشو کو اس کامیابی کے لیے یوم جمہوریہ کےموقع پر پدم شری ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔
انشو جمسنپا 31 دسمبر 1979 بومڈیلا، مغربی کامینگ ڈسٹرکٹ، اروناچل پردیش، میں پیدا ہوئیں۔وہ ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ انشو کے والد ہند- تبت سرحد پر ایک پولیس افسر ہیں اور ان کی ماں ایک نرس ہے۔ انشو دو بچوں کی ماں بھی ہیں ۔ ان کی ابتدائی تعلیم اروناچل پردیش کے ایک پرائیوٹ اسکول میں ہوئی۔ بہت چھوٹی عمر میں ہی انشو جمسیمپا کی شادی ہوگئی تھی اس وقت وہ زیر تعلیم تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر سچی لگن ہو تو ہر مشکل کام آسان ہو جاتا ہے اور ان مشکل کاموں کو انشو نے کردکھایاہے۔
انشو بچپن سے ہی کچھ مختلف کرنا چاہتی تھیں۔ وہ اپنے گھر میں شوقیہ طور پر شوٹنگ اور مارشل آرٹ کی مشق کیاکرتی تھی۔ انشو نے بہت چھوٹی عمر سے ہی ٹریکنگ شروع کردی تھی اور پہاڑوں پر چڑھنے کی عادت بنالی تھی۔انشو نے کم عمری میں ہی صبح جلدی اٹھ کر کم از کم دس کلو میٹر دوڑنا، صبح و شام دو گھنٹے مشق کرنا اپنا معمول بنا لیا تھا۔

سال 2008 میں اروناچل پردیش میں ایک کیمپ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس کیمپ میں بہت سے کوہ پیماؤں نے شرکت کی ۔انشو بھی اس کیمپ میں شامل ہوئیں اور بہت سی سرگرمیوں میں حصہ لیا ۔ اس کیمپ سے ان کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ تب ہی انشو نے فیصلہ کیا کہ وہ کوہ پیما بننا چاہتی ہیں۔ آنے والے کوہ پیماؤں نے انشو کی فٹنس اور سرگرمی کو دیکھا اور ان سے کہا کہ ان کو بھی کوہ پیمائی کرنا چاہیے۔
انشو شادی کے بعد کچھ کرنا چاہتی تھیں ،جو انہیں پسند تھا، لیکن وہ پوری طرح سے فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ کیا کرنا چاہئے۔ شروع میں انشو نے گیم پارلر شروع کیا۔ وہ اس کام کو بین ریاستی سطح تک لے جانے میں کامیاب ہوئیں اور کئی مقابلوں کا انعقاد بھی کیا۔ اس کے بعد انہوں نے بومڈیلا ماڈلنگ اور بیوٹی پیجینٹ کا نیا کام شروع کیا۔ اس کے بعد وہ اپنے شوہر کی ٹور اینڈ ٹریول کمپنی میں شامل ہوگئیں۔
راک کلائمبنگ اور ایڈونچر اسپورٹس میں بہت زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ،اسی دوران انہیں احساس ہونے لگا کہ پہاڑوں کی زندگی کتنی خوبصور ت ہے۔ کچھ عرصے کے بعد انہیں پہاڑوں میں رہنا پسند آنے لگا اور اس دوران ان کے ذہن میں ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کا خواب آیا۔ انشو نے ایک بار فیصلہ کیا تو پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔جس وقت انشو نے فیصلہ کیا کہ وہ کوہ پیما بننا چاہتی ہیں ، اس وقت ان کی دوچھوٹی بیٹیاں تھیں۔ شوہرکام کے سلسلہ میں اکثر باہر ہوتے تھے۔ ایسے میں بیٹیوں کی دیکھ بھال کی ساری ذمہ داری ان ہی پر تھی۔ اپنی دونوں بیٹیوں کو بورڈنگ اسکول بھیجا تاکہ وہ بہتر تعلیم حاصل کر سکیں اور اچھی پرورش ہوسکے۔

سال 2009 میں انہوں نے کوہ پیمائی کی پیشہ ورانہ تربیت شروع کی۔ پہلے بنیادی کورس کیا۔ پھر ایڈوانس کورس کیا۔کورس کے لئے بڑی رقم درکار تھی۔ تقریباً 25 لاکھ روپے درکار تھے۔ حکومت کی طرف سے بھی کچھ مدد ملی، لیکن باقی رقم کا خود بندوبست کرنا پڑا۔ کورس کی فیس ادا کرنے کے لئے آبائی زمین بیچ دینی پڑی۔ ان تمام کوششوں اور جدوجہد کے بعد آخر کار انشو نے اپنی پہلی کوشش میں ایورسٹ فتح کر لیا۔
انشو کو سال 2012 میں فیڈریشن آف انڈین چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی طرف سے وومن اچیور آف دی ایئر سے نوازا گیا۔ سال2017 میں، انشو جمسینپا کو پریوار پردیش حکومت نے سال کے بہترین سیاحتی ایوارڈ سے نوازا تھا۔انشو جمسینپا کو اروناچل یونیورسٹی آف اسٹڈیز نے ایڈونچر اسپورٹس کے میدان میں ان کی غیر معمولی کامیابیوں اور میدان کو نئی بلندیوں تک لے جانے کے اعتراف میں پی ایچ ڈی سے نوازا۔ ان تمام کارناموں اور کامیابیوں کے بعد انشو کو سال 2021 میں حکومت ہند کے ذریعہ پدم شری ایوارڈ، جو ہندوستان کا چوتھا سب سے بڑا شہری اعزاز ہے، سے نوازا گیا.۔آج ان کا شمار دنیا کے معروف کوہ پیماؤں میں ہوتا ہے اور ان کے نام بہت سے ریکارڈ اور اعزازات ہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا