ادھیررنجن چودھری چھٹی مرتبہ پارلیمنٹ پہنچنے کیلئے سب سے مشکل جنگ میں مصروف

0
59

کلکتہ //کبھی بہرام پور ہی نہیں بلکہ مرشدآباد ضلع ادھیررنجن چودھری کا گڑھ کہا جاتا تھا ۔گزشتہ تین دہائوں سے ادھیر رنجن چودھری یہاں سے منتخب ہوتے رہے ۔تاہم بنگال میں گزشتہ ایک دہائی میں بی جے پی کا عروج ادھیررنجن چودھری کی سیاست پر اثر انداز ہو ا ۔تاہم 2019کے لوک سبھا انتخابات میں پانچویں مرتبہ بھی ادھیر رنجن چودھری یہ سیٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
ادھیر رنجن چودھری نے اپنی حکمت عملی کے ذریعہ ہی ملک کے سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کو جنگی پور سے امیدوار بنایا اور بائیں محاذ کے امیدوار کو شکست سے دوچار کردیا ۔1999سے لگاتا ر ادھیررنجن چودھری یہاں سے کامیاب ہورہے ہیں اور چھٹی مرتبہ پارلیمنٹ پہنچنے کیلئے کوشش کررہے ہیں ۔ادھیررنجن چودھری کی وہ گرفت اس ضلع میں باقی نہیں ہے جو ایک زمانے میں تھی ۔
بہرام پور حلقہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ ادھیر سے پہلے کانگریس صرف ایک مرتبہ اس سیٹ سے جیت حاصل کی تھی ۔ آر ایس پی لیڈر تردیب چودھری نے آزادی کے بعد سے مسلسل سات مرتبہ آر ایس پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے ۔ 1984 میں اندرا گاندھی کی موت کے بعد کانگریس نے بنگال میں 16 سیٹیں جیتیں۔ اس وقت بہرام پور میں کانگریس کے آتش چندر سنگھ جیت گئے تھے۔ لیکن 1989 میںبہرام پور دوبارہ آر ایس پی کے ہاتھ میں چلا گیا۔ لیکن 10 سال بعد 1999 میں ادھیر نے آر ایس پی کے ممبر پارلیمنٹ پرمتھیش مکوپادھیائے کو تقریباً ایک لاکھ ووٹوں سے شکست دی۔اس کے بعد اس سیٹ میں دوسرے اور تیسرے نمبر پر کئی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ تاہم پہلے نمبر پر ادھیر رنجن چودھری ہی برقرار رہے ۔
ادھیررنجن چودھری سے قبل 1998 میں ترنمول کانگریس کے حمایت یافتہ بی جے پی امیدوار کرنل سبیاساچی باگچی 2.5لاکھ ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھے۔ تاہم، 1999 کے انتخابات میں، ادھیر نے پہلی بار کانگریس امیدوار کے طور پر آر ایس پی کو شکست دی۔ سبیاساچی اس مرتبہ تیسرے نمبر پر آئے۔
2014 میںادھیررنجن چودھری کے سامنے ترنمول کانگریس کے گلوکار امیدوار اور موجودہ ریاستی وزیر اندرنیل سین امیدوار تھے اور وہ دوسرے نمبر رہے ۔ادھیررنجن چودھری نے 2019 کے انتخابات میں جیت حاصل کی اور اس مرتبہ ترنمول کانگریس نے ان کے قریبی رہے ابوروا سرکار کو امیدوار بنایا ۔ابوروا 39.26فیصد ووٹ ملے ۔اپوروا سرکار کو مرشدآباد کی سیاست میں ادھیر کے وفادار کے طور پر جاناجاتاتھا۔مگر وہ ترنمول کانگریس میں چلے گئے اور اپنے گروپ کے خلاف ہی میدان میں آگئے۔۔ بی جے پی تیسرے نمبر پر رہی ۔بائیں محاذ نے یہاں سے کوئی امیدوار نہیں دیا تھا۔تاہم آر ایس پی نے بائیں محاذکے اعلان کے باوجود ادھیرکے خلاف امیدوار تھا اور اس کے امیدوار کو صرف 13,262ووٹ ملے ۔2014میں ادھیر رنجن چودھری نے 350,000سے زیادہ ووٹوں سے کامیابی حاصل کی، لیکن 2019 میں، ان کی جیت کا مارجن80,000تک پہنچ گیا ۔
ادھیر رنجن چودھری گزشتہ پانچ مرتبہ جو انتخاب لڑے ہیں اس میں ان کے خلاف کبھی بھی مسلم امیدوار نہیں رہا ہے۔تاہم اس مرتبہ ترنمول کانگریس نے سابق کرکٹر یوسف پٹھان کو امیدوار بنایا ہے۔دوسری طرف بی جے پی نے ہندو ووٹ پر اپنی پکڑ مضبوط کی ہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے بہرام پور سیٹ پر ہی قبضہ کر لیا تھا۔ بہرام پور لوک سبھا کی کئی دیگر اسمبلیوں میں بھی بی جے پی مضبوط پوزیشن میں تھی۔یہی وجہ ہے کہ ادھیررنجن چودھری اس مرتبہ سب سے مشکل انتخاب لڑرہے ہیں ۔
2021 کے اسمبلی انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے معاملے میں ترنمول پہلے نمبر پر تھی۔ دوسری پوزیشن پر بی جے پی۔ کانگریس ادھیررنجن چودھری کی موجودگی کے باوجود تیسری پوزیشن پر تھی۔ اس نتیجے کی بنیاد پر ترنمول کانگریس بہرام پور پر قبضہ کرنے کے لیے پر امید ہے۔ اسی لیے روایتی سیاست سے ہٹ کر یوسف پٹھان کو نامزد کیا گیا ہے۔ تاہم ایک اور وجہ مرشدآباد پارٹی کی آپس کی لڑائی ہے۔ ترنمول کا مقصد گجرات کے پٹھان اور کرکٹر کو سامنے رکھ کر مسلم ووٹوں پر قبضہ کرنا ہے۔
بی جے پی نے ان کے خلاف مقامی ڈاکٹر نرمل ساہا کو امیدوار بنایا ہے۔ڈاکٹر نرمل کی شبیہ صاف ستھری رہی ہے ۔وہ دیہی علاقوں میں مفت علاج کی وجہ سے تمام طبقات میں مقبول رہے ہیں ۔بی جے پی کو امید ہے کہ انہیں ہندو ووٹ کے سا تھ ساتھ مسلم ووٹ ملیں گے اس لیے وہ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں میںمقبول ہے ہیں کورونا وائرس کے دوران بھی ان کا کام متاثر ہوا تھا۔
ادھیر رنجن چودھری کیلئے اپنے ووٹ کو باقی رکھنا اور تمام طبقات سے ووٹ حاصل کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔مگر ادھیررنجن چودھری سب سے تجربہ کارامیدوار ہیں ۔یوسٹ پٹھان باہری ہیں ۔ادھیر یہ پیغام دینے کی کوشش کررہے ہیں وہ انتخاب جیتنے کے بعد بھی یہی رہتے ہیں مگر یوسف پٹھا ن کیا دوبارہ آئیں گے۔اس حلقے میں 40فیصد سے زائد مسلم رائے دہندگان ہے۔یواین آئی۔نور

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا