سُراورتال بدل گئے!

0
33

یہاںدفعہ370ہے،روہنگایہاں نہیں رہ سکتے:بھاجپا
یواین آئی

  • جموں؍؍سپریم کورٹ کی جانب سے دفعہ370کی منسوخی سے انکارکے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کے سراورتال بدلتے نظرآئے ہیں،پارٹی کیجموں وکشمیر یونٹ کے ترجمان اعلیٰ سنیل سیٹھی نے ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (جموں) کے روہنگیا پناہ گزینوں کو جموں بدر کرنے کے مطالبے کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئین ہند کی دفعہ 370 کے ہوتے ہوئے باہر سے آنے والا کوئی شخص اس ریاست میں سکونت اختیار نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ جموں میں مقیم روہنگیا پناہ گزین ریاست کے لئے ممکنہ خطرہ ہیں اور ان کا بہ آسانی غلط استعمال ہوسکتا ہے۔ بتادیں کہ جموں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے روہنگیا پناہ گزینوں کو جموں بدر کرنے اور آصفہ عصمت دری و قتل کیس کی تحقیقات مرکزی جانچ ایجنسی سی بی آئی کے حوالے کرنے کے مطالبات کو لیکر 4 سے 7 اپریل تک چار روزہ کام چھوڑ ہڑتال کیا۔ بار ایسوسی ایشن سے وابستہ وکلاء نے اس دوران اپنے مطالبات منوانے کے لئے احتجاجی دھرنے دیے اور شہر میں ایک ترنگا بردار جلوس بھی نکالا۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق جموں کے مختلف حصوں میںمقیم میانمار کے تارکین وطن کی تعداد محض 5 ہزار 700 ہے۔ یہ تارکین وطن جموں میں گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے مقیم ہیں۔ جموں میں اگرچہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے قریب تین لاکھ رفیوجی بھی رہائش پذیر ہیں، تاہم بی جے پی اور پنتھرس پارٹی انہیں ہر ایک سہولیت فراہم کئے جانے کے حق میں ہیں۔ بی جے پی ترجمان اعلیٰ نے ہفتہ کو یہاں ترکوٹہ نگر میں واقع بی جے پی دفتر میں نامہ نگاروں سے گفتگو کے دوران بار ایسوسی ایشن سے کہا کہ وہ بی جے پی کو ان مطالبات کو پورا کرنے کے لئے تھوڑا وقت دیں۔ انہوں نے کہا ’روہنگیا پناہ گزینوں کا جموں میں رہنا صرف مرکز کا نہیں بلکہ ریاست کا بھی مسئلہ ہے۔ اگر کسی ملک کا کوئی شہری ریاست جموں وکشمیر میں آکر بستا ہے تو وہ پاسپورٹ ایکٹ کے مطابق جرم ہے۔ جو روہنگیا اور بنگلہ دیشی جموں آکر بسے ہیں، آپ (حکومت) ان کو یہاں سے باہر نکالیں۔ اس سٹیٹ میں کوئی کیسے آسکتا ہے؟ آپ خود ہی کہتے ہو کہ یہاں ہمارے پاس دفعہ 370 ہے۔ آپ پنجابی ، مراٹھی اور مدراسی کو آنے نہیں دو گے لیکن دوسرے ملک کے لوگوں کو رہنے کی اجازت دی گئی۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ ‘۔ انہوں نے کہا ’روہنگیا پناہ گزینوں کے بارے میں جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں ایک مفاد عامہ کی عرضی دائر کی گئی تھی ، اس پر حکومت ہندوستان کا موقف تھا کہ ان کو یہاں نہیں رہنا چاہیے۔ اس کے بعد روہنگیا پناہ گزینوں کی طرف سے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر گئی جس پر سپریم کورٹ نے عبوری ہدایت جاری کی کہ ان کو اگلے احکامات تک ملک سے باہر نہ نکالا جائے۔ لیکن ان کو اس سٹیٹ میں کیوں رکھا گیا ہے۔ یہ ایک سرحدی ریاست ہے۔ یہ ریاست میانمار سے قریب تین ہزار کلو میٹر دور ہے۔ روہنگیا پناہ گزینوں کو اڑیسہ، جھارکھنڈ یا ملک کی دوسری کسی ریاست میں رکنا چاہیے تھا‘۔ سنیل سیٹھی نے روہنگیا پناہ گزینوں کو ممکنہ خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا ’وہ جموں میں ایک ایسے جگہ پر آکر کیوں بس گئے ہیں جہاں سے جنگجوؤں کی دراندازی ہوتی ہے۔ سنجوان ملٹری اسٹیشن پر جو حالیہ حملہ ہوا، اطلاعات ہیں کہ اس میں روہنگیا پناہ گزین ملوث ہوسکتے ہیں۔ ہم نہیں کہیں گے کہ سارے روہنگیا جنگجو ہیں، لیکن وہ ممکنہ خطرہ ہیں۔ ان کا غلط استعمال ہوسکتا ہے۔ آپ کے پاس روہنگیا پناہ گزینوں کی پوری انفارمیشن اور تفصیلات نہیں ہیں۔ پاکستانی بھی آکر ان کے بیچ رہ سکتے ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی نے ہی جموں میں روہنگیا پناہ گزینوں کی موجودگی کو ایک ایشو بنایا۔ انہوں نے کہا ’روہنگیا پناہ گزینوں کو جموں میں کانگریس کے دور حکومت میں تین لوگوں نے بسایا۔ وہ تب بسائے گئے جب ریاست میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس کی مخلوط حکومت تھی۔ انہوں نے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ بی جے پی نے ہی ان کی جموں میں موجودگی کو ایشو بنایا ۔ یہ ایشو کابینہ کی میٹنگ میں بھی بحث ہوا۔ اس پر چار کابینہ وزراء پر مشتمل ایک گروپ بنا ۔ اس گروپ کی قیادت ڈپٹی چیف منسٹر (ڈاکٹر نرمل سنگھ) کررہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ گروپ آف منسٹرس اپنی رپورٹ جلد از جلد پیش کریں گے تاکہ ان لوگوں کو یہاں سے باہر نکالا جاسکے۔ شہر کے امن کو بنائے رکھنا بہت ضروری ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر بی جے پی روہنگیا پناہ گزینوں کی جموں میں موجودگی کو ایشو نہیں بنایا تو کوئی اس پر بات نہیں کرتا‘۔ بی جے پی ترجمان نے کہا کہ وہ روہنگیا پناہ گزینوں کی موجودگی کے مسئلے کو مذہب کی عینک سے نہیں دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’روہنگیا پناہ گزینوں کا مذہب مت دیکھئے۔ ہم مذہبی خطوط پر کسی کے خلاف نہیں جائیں گے۔ اگر پاکستان سے کوئی ہندو یہاں غیرقانونی طور پر ٹھہرنے لگے گا تو ہم اس کو بھی نکالیں گے‘۔ سنیل سیٹھی نے بار ایسوسی ایشن سے کہا کہ وہ بی جے پی کو ان مطالبات کو تھوڑا وقت دیں۔ انہوں نے کہا ’بار ایسوسی ایشن نے چار دنوں سے عدالتوں میں کام بند رکھا ہے۔ انہوں نے کل ریلی بھی نکالی۔ وہ سول سوسائٹی کو بھی اپنے ساتھ جوڑنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے اٹھائے گئے بیشتر ایشو حق بجانب ہیں۔ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے پارٹی (بی جے پی) کو وقت دیا جانا چاہیے تاکہ ان مسئلوں کو حل کیا جاسکے‘۔ قابل ذکر ہے کہ بی جے پی ، پنتھرس پارٹی، وی ایچ پی اور آر ایس ایس پہلے سے ہی جموں میں روہنگیائی پناہ گزینوں کی موجودگی کے خلاف ہیں۔ 10 فروری کو جب جموں کے سنجوان ملٹری اسٹیشن ( 36 بریگیڈ فرسٹ جموں وکشمیر لائٹ انفینٹری) پر فدائین حملہ ہوا تو بی جے پی کے مختلف لیڈران بشمول اسمبلی اسپیکر کویندر گپتا نے اس کے لئے علاقہ میں مقیم روہنگیا پناہ گزینوں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ ملٹری اسٹیشن پر حملے میں 6 فوجی ، ایک عام شہری اور تین حملہ آور مارے گئے تھے۔ فدائین حملے کے تناظر میں کویندر گپتا نے اسمبلی کے اندر کہا تھا کہ یہ حملہ علاقہ میں روہنگیا مسلمانوں کی موجودگی کی وجہ سے پیش آیا ۔ ان کا کہنا تھا ’علاقہ میں روہنگیا پناہ گزینوں کی موجودگی ایک سیکورٹی خطرہ بن گیا ہے۔ حملے میں ان پناہ گزینوں کا بھی ہاتھ ہوسکتا ہے‘۔ انہیں اس بیان پر اپوزیشن نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے اراکین کی شدید برہمی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اسمبلی میں اپنے متنازع بیان سے قبل اسپیکر گپتا نے ملٹری اسٹیشن کے باہر نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ روہنگیا مسلمان پہلے سے ہی شک کے دائرے میں تھے۔ انہوں نے کہا تھا ’اس میں کوئی دو رائے نہیں کہیں کہیں سیکورٹی میں چوک ہوئی ہے۔ یہاں رہنے والے لوگ (روہنگیا مسلمانوں) پہلے سے ہی شک کے دائرے میں تھے۔ انتظامیہ نے پہلے ہی ان کے خلاف کاروائی کی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ جلد ہی ان پر کوئی فیصلہ لیا جائے گا‘۔ سنجوان ملٹری اسٹیشن پر فدائین حملہ اور اسمبلی کے اندر و باہر بی جے پی کے اراکین کی روہنگیا مسلمانوں سے متعلق متنازعہ بیان بازی کے پس منظر میں جموں کے مضافاتی علاقہ گاندھی نگر کے چھنی راما علاقہ میں 10 فروری کی رات کو کچھ شرارتی عناصر نے روہنگیا پناہ گزینوں کی جھگی جھونپڑیوں کو مبینہ طور پر آگ کے شعلوں کی نذر کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ ان شرارتی عناصر نے جھونپڑیوں کی طرف کچھ پوسٹر بھی پھینکے تھے جن پر لکھا تھا کہ روہنگیا پناہ گزینوں کو واپس بھیجا جائے۔ پی ڈی پی ترجمان اعلیٰ محمد رفیع کا کہنا ہے کہ روہنگیا پناہ گزینوں کے خلاف چلائی جارہی نفرت آمیز مہمات پریشان کن اور قابل مذمت ہیں۔ رواں برس مارچ کے اوائل میں جموں کی ایک تنظیم ’ٹیم جموں‘ اور جموں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے شہر میں مقیم روہنگیا پناہ گزینوں کے خلاف اشتہاری مہم چلائی۔ شہر کے چند روزناموں میں صفحہ اول پر ایک صفحے کے اشتہار شائع کرائے گئے جن میں شہر میں مقیم روہنگیا پناہ گزینوں کو اہلیان جموں کے لئے خطرہ قرار دیا گیا۔ گذشتہ برس فروری کے اوائل میں جموں شہر میں چند ہورڈنگز نمودار ہوئیں جن کے ذریعے پنتھرس پارٹی کے لیڈروں نے روہنگیائی اور بنگلہ دیشی مسلمانوں کو جموں چھوڑنے کے لئے کہا تھا۔ مرکزی سرکار کی جانب سے گذشتہ برس سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ دائر کیا گیا جس میں روہنگیا مسلمانوں کو ملک کی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ قرار دیا گیا۔ تاہم نیشنل کانفرنس کے کارگذار صدر اور ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر میں یہ خطرہ مابعد 2014 ء پیش رفت کا پیدا کردہ ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا