عمرارشدملک
سرنکوٹ:قصبہ سرنکوٹ کو میونسپل کمیٹی کا درجہ حاصل ہوئے تقریباً دس سال ہوگے لیکن آج بھی قصبہ کسی گاﺅں سے کم نہیں ہے کیونکہ میونسپل کمیٹی کا مطلب ہوتا ہے کہ اب علاقہ شہر میں تبدیل ہوگیا ہے لیکن اگر سرنکوٹ قصبہ کی زمینی سطح پر حالت کا جائزہ لگایا جائے تو دس سال میں دس فیصد ترقیاتی کام بھی نہیں ہوئے تو پھر میونسپل کمیٹی کا درجہ کیوں ۔سیاسی لیڈروں کی بات کی جائے تو ان کے گھروں اور محلوں میں کسی حد تک کام بھی ہوتے ہیں اور صفائی ستھرائی بھی کی جاتی ہے لیکن قصبہ سرنکوٹ میں ہرانسانی سیاسی لیڈر نہیں ہے ایک بڑی تعداد ایسی ہے جن کو سرکاری اسکیموں کی جانکاری بھی نہیں ہوتی ان کے نام پر بھی فنڈس کا غلط استعمال کرتے ہیں لیکن ان لوگوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا جن کے لئے فنڈس آتے ہیں ۔ سرنکوٹ میونسپلٹی کو قصبہ کی صفائی ستھرئی اور گلیوں کی مرامت کے لئے سال بھر میں لاکھوں کے فنڈس دستیاب ہوتے ہیں لیکن ان کا خرچ کہا اور کیسے کیا جاتا ہے کسی کو معلوم نہیں ۔ آج بھی سرنکوٹ قصبہ میں زمینی سطح پر ٹوٹی گلیاں اور نالیوں کی بڑی تعداد موجود ہے اور بازاروں اور چوکوں میں گندگی کے بڑے بڑے ڈھیر بھی لگے رہتے ہیں جنہیں دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ یہ قصبہ آج بھی بیدار نہیں ہے اور نہ ہی یہ علاقہ میونسپلٹی کے دئرے میں آتا ہے ۔ قصبہ سرنکوٹ کے بس اڈا ، تھصیل گلی ، اہسپتال والا علاقہ ، اقبال نگر، ڈاک بنگلہ والا محلہ آج بھی تعمیر وترقی کے منتظر ہے کیونکہ ان علاقوں میں گنڈگی کے ڈھیر لگے رہتے ہیں اور یہاں کے راستے بھی ٹوٹے ہوئے ہیں جن کی مرامت ہونی لازمی ہے لیکن محکمہ کہتا ہے کہ فنڈس نہیں ہیں لیکن ڈائریکٹر لوکل باڈی دفتر سے لاکھوں روپے سال بھر میں سرنکوٹ قصبہ کی ڈیولپمنٹ کے لئے آتے ہیں اس کے علاوہ شہری علاقوں میں ایس بی ایم کے تحت بیت الخلاءکی تعمیر کاکام بھی چل رہا ہے جس کے لئے لاکھوں کروڑوں کے فنڈس رلیز ہورہے ہیں تاکہ لوگوں کو بیت الخلاءتعمیر کر کے دئے جائے لیکن زمینی سطح پر سرنکوٹ میں فنڈس کا غلط استعمال کیا جارہا ہے اور میونسپل کمیٹی سرنکوٹ سے لیکر ڈائر یکٹر آفیس تک سب ملوث ہیں اور اس پر انکوئری ہونی چاہیے کیونکہ عوام کے کام نہیں ہورہے بلکہ ذاتی کام ہوتے ہیں ۔