زندگی کے دائرے

0
0

ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی
موبائل:8825051001
نریش کمار کادادا ایک مانا ہوا جوتشی اوردست شناس تھا ۔ داداکی عمر اب چونکہ بہت ہوچکی تھی اور اکثر بیمار رہتے تھے اس لئے دادا اب یہ علم میرے باپ یعنی اپنے بیٹے کوسکھانا چاہتے تھے ۔ پتاجی اکثر زمینداری اور دوسرے کاموں میں مصروف رہتے تھے اس لئے دادا جی کی نظریں مجھ پر تھیں۔ ایک دن دادا جی نے اس تعلق سے میرے ساتھ تفصیل کے ساتھ بات کی اور میں دادا جی کی ہاں کونا نہیں کرسکا ۔ اب دادا جی روز ہی اس علم کے بارے میں کچھ نہ کچھ بتاتے رہتے تھے ۔ دھیرے دھیرے نئی نئی باتیں سن کر میرا شوق بھی بڑھتا گیا میرا شوق اور میری دلچسپی دیکھ کر داداجی نے مجھے جنم کنڈلی سے یہ علم سکھانا شروع کیا ۔ اب میں خود ہی لوگوں کی کنڈلیاں بنانے لگا ۔ مجھے مختلف لوگوں کی حالات زندگی بتاتے ہوئے کافی خوشی محسوس ہوتی تھی!
ایک سال تک یہ علم سیکھنے کے بعد میں اس فن میں اچھا خاصا ماہر ہوگیا ، اس کے نتیجے میں داداجی اب زیادہ کام مجھ سے ہی کروانے لگے …… اور لوگ مجھے چھوٹا پنڈت کہنے لگے ۔ حالانکہ میں ان دنوں کالج میں پڑھتاتھا ۔
ایک دن داد ا جی کے پاس ایک باپ اپنی بیٹی کو لے کر آئے اور اس کی جنم کنڈلی بنانے کی استدعا کی۔ اس کی بیوی بھی ساتھ تھی دادا جی نے ان تینوں کو میرے سپرد کردیا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی انہوں نے دادا جی کی بات مان لی۔
میںنے اس لڑکی کی کنڈلی بنائی اورہاتھ کی ریکھائیں بھی پڑھ لیں۔
’’لڑکی کی قسمت چمک دار ہے خوب تعلیم حاصل کرے گی اوراس کی شادی بھی کسی بڑے گھر میں ہوگی اور تو اور اس کا پتی اس کی ہر بات مانے گا اوراس کی قدر بھی کرے گا ۔
میں نے محسوس کیا کہ میری باتیں سن کر لڑکی شرمارہی ہے لیکن اندر اندر سے خوش بھی ہورہی ہے ۔
لڑکی نے جب ۲۵؍ برس کی عمر میں قدم رکھا تو سرکاری محکمہ میں اکاؤنٹنٹ بن گئی اورپتاجی کو اس کی شادی کی فکر لاحق ہوگئی۔ اس دوران میری عمر بھی ستائس برس کو چھو چکی تھی اور میں ایم ۔ بی۔ بی ایس کی ڈگری حاصل کرکے ڈاکٹر بن چکا تھا اور ملازمت بھی کرنے لگاتھا ۔
جنم کنڈلی کا رنگ نکھر آیا اور رشتے آنے لگے ۔ ان رشتوں کے بارے میں بات کرنے کے لئے لڑکی کے باپ کو میرے دادا جی یاد آئے لیکن دادا جی تو اس دھرتی سے سدھار گئے تھے اور چھوٹے پنڈت یعنی میرا کوئی اتہ پتہ نہ تھا۔
اورپھر اوشا کے باپ کو اپنے کسی دوست نے کہا …’’ہمارے شہر میں ایک نیا ڈاکٹر آیا ہے قابل اورنیک سیرت بھی ہے …… اس کو تلاش کرتے ہیں کہ رہتا کہاں ہے …‘‘
تلاش کرتے کرتے وہ مجھ تک پہنچ گئے ۔ مجھے دو تین بار لڑکی سے ملنے کا موقع بھی ملا ۔ باتوں باتوں میں ایک دن اوشا اپنی شادی کے تعلق سے کہنے لگی ۔
’’میرے ماں باپ ایک دن مجھے ایک پنڈت کے پاس لے گئے ۔‘‘
’’پنڈت جی کے پاس ۔ کس لئے ۔ میں نے پوچھا
’’میرا بھوش کے بارے میں جاننے کے لئے ‘‘
’’اورپنڈت نے کیا کہا تھا‘‘
’’میرا منگیتر ایسا ہوگا ۔ ویسا ہوگا ۔ مجھے ہمیشہ خوش رکھے گا ۔
لڑکا چونک پڑا……
’’یہ سب بکواس ہے ۔ میں ان چیزوں پر یقین نہیں رکھتا ۔ میں ایک ڈاکٹر ہوں اور لوگوں کی نفسیات کو اچھی طرح سے جانتا ہوں اور میں حیران ہورہا ہوں کہ لوگ کہاں کہاں تک بھٹکتے ہیں اور اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ ویسے ایک بات بتا دوں۔
’’ہاں ہاں……‘‘
’’مجھے بھی ایک جوتشی نے کہاتھا کہ میں فوج میں ایک بڑا آفیسر بنوں گا اور میری بیوی ایک ڈاکٹر ہوگی۔ اب دیکھو فوجی آفسر کی بجائے میں ڈاکٹر بن گیا اور بیوی ……!
ہاں ایک اوربات بتاؤں‘‘
وہ کیا
’’میرے ایک دوست ہیں ڈاکٹر نجیب ۔ وہ بھی میرے ساتھ اسی ہاسپٹل میں کام کررہے ہیں اس کی بیوی بھی ڈاکٹر ہے ۔ وہ بھی ایک جوتشی کی باتیں سن کر کچھ وقت کے لئے پریشان ہوگئی تھی لیکن وہ بہت خوش ہے ان کی زندگی پرُ سکون ہے !
وقت کا دریا بہتا گیا
ڈاکٹر اور اوشا کی شادی ہوگئی… وقت ہنسی خوشی گذرنے لگا لیکن جانے کیا ہوا وقت کا بہاؤ کہا رک گیا۔ دونوں ایک دوسرے سے بات بات پر لڑنے لگے ……یہاں تک کہ بات طلاق تک جاپہنچی……!
تمہارے دماغ کو اس جوتشی نے خراب کردیاہے کون تھا ۔وہ جوتشی جس نے تمہاری کنڈلی بنائی تھی اورتمہارے دماغ میں زہر بھردیا تھا……؟‘‘
اوشا خاموش رہی جانے کیا سوچتی رہی……؟
’’کیا سوچتی ہو…!‘‘
’’ہا اس جوتشی کی عمر زیادہ نہ تھی۔ میرا ہی ہم عمر تھا دو چار سال مجھ سے بڑا ہوگا۔ پھراس کا داد ا بھی ایک جوتشی تھا……
’’وہ … وہ جوتشی میں تھا اوشا……
اوشا کا ماتھا ٹھنکا…
’’ہاں وہ جوتشی میں ہی تھا۔ اور اگر ہمیں اس روز روز کی مصیبت سے نکلنا ہے تو ہمیں ہر روز ڈاکٹر نجیب کے گھر جانا پڑے گا اور زندگی جینے کا ڈھنگ ان سے سیکھنا چاہئے
اوشا خاموش رہی
وہ ڈاکٹر نجیب کے گھرجانے لگے !
یہاں سکون تھا شانتی تھی۔ زندگی خوشی خوشی جینے کے راہیں ہموار تھیں۔ اورپھر ڈاکٹرنریش اور اوشا کی زندگی میں روشنی کے چراغ بجھتے بجھتے جل اٹھے اور چاروں سمت روشنی پھیل گئی۔
اب وہ زندگی کے ان……
دائروں سے باہر آگئے تھے ۔‘‘

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا