ذرا سوچیے ہم نے اپنے بچوں کے ایمان کے تحفظ کیلئے کیا تربیت کی ہے

0
0

*
ذوالقرنین احمد
*
فلسطینی مسلمان مسجد اقصی کی حفاظت کیلئے ظالم یہودیوں سے مسلسل جدو جہد کر رہے ہیں اب یہودی ظلم کی حدیں پار کر رہے ہیں معصوم بچوں تک کا خیال نہیں رکھا جارہا ہے ہسپتال تک کو نشانہ بنایا گیا ان پر بنیادی انسانی ضروریات کو روک دیا گیا ہے، جس سے پھر ایک بار شعب ابی طالب کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جس میں نبی کریم ? اور خاندان بنی ہاشم کو قریش مکہ نے ایمان کی دعوت سے روکنے کیلیے سماجی بائیکاٹ کیا جو تقریباً تین سالوں تک جاری رہا جہاں پر نبی اور ان کے خاندان کو انتہائی مشکلات کا سامنا رہا بھوک کی وجہ سے درختوں کے پتے چبانے پڑے، کفار مکہ نے خرید و فروخت پر بھی پابندی عائد کردی تھی کھانے پینے کی اشیاء ان تک پہنچنے نہیں دیتے تھے۔ آج اسی طرح کے حالات فلسطینیوں کیلئے بنا دیے گئے ہیں کسی ممالک کو ان کی مدد کیلئے آگے آنے نہیں دیا جارہا ہے یہاں تک کہ انسانی بنیادی ضروریات ادویات تک کو پہچانے نہیں دیا جارہا ہے ،اسرائیلی حملوں میں کسی کا پورا خاندان شہید ہوگیا کسی کا باپ تو کسی کی ماں شہید ہوگئی یتیم زخمی بچوں کے ایمانی قوت اور اقصی کی آزادی کیلئے ان کے دلوں میں قربانی کا جذبہ برقرار ہے انہیں اس بات کا علم ہے کہ ہم آج ہے تھوڑی دیر کے بعد ہوگے یا نہیں کل صبح کا سورج دیکھیں گے یا نہیں وہاں کے بچے سے لے کر مرد و خواتین سبھی کے دلوں میں ایمان کے حلاوت موجود ہے۔
اور تمام تر پابندیوں اور اسرائیلی مظالم کے خلاف حالات جنگ میں اللہ پر توکل کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں وہ اپنی بے بسی کا مظاہرہ نہیں کر رہے نہ ظالم کے سامنے گھٹنے ٹیک رہے ہیں نا ہی کسی صلحہ کا ارادہ ہے وہ ہر حال میں اللہ کا شکر کر رہے ہیں ہم ایک کلمہ گو ہونے کی بنیاد پر ان سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں لیکن وہ احساس کمتری، کم ہمتی کا شکار نہیں ہے اور ناہی ہماری مدد کے محتاج ہے وہ اپنی مٹھی بھر قوت و طاقت کے ساتھ ظالموں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
اللہ پر کامل یقین کے ساتھ لڑ رہے ہیں کہ ایک دن ضرور مسجد اقصی آزاد ہوگی چاہیں ہماری جانیں چلی جائیں چاہیں ہم اپنی زندگی میں اس آزادی کو نہ دیکھ سکے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں کامیاب ہیں اور کل قیامت میں بھی سربلند ہوگے اور شہادت کا عظیم مرتبہ پانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کا اکرام کریں گا۔
لیکن ذرا سوچیے اگر آج فلسطینی یہودی مظالم کا شکار ہے تو کیا کل کو یہ یہود و نصاریٰ کفار و مشرکین ہمارے اوپر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنے لگ جائیں تو ہمارے پاس کیا اس قسم کا ایمان موجود ہے جو ظلم و جبر اسرائیلی فوج مظلوم معصوم فلسطینیوں پر کر رہی ہیں۔ کیا ہماے بچوں کے پاس وہ ایمانی شعور موجود ہے جو فلسطین کے بچوں کے اندر ان کی ماؤں نے پیدا کیا، کیا ہماری خواتین کے اندر صبر و ضبط کو وہ مادہ موجود ہے جو فلسطینی خواتین اپنا سب کچھ قربان ہوجانے کے باوجود صبر کا مظاہرہ کر رہی ہے ، کیا ہماری قوم کے پاس وہ شعور ہے جو شعور کا عملی نمونہ فلسطینی عوام پیش کر رہی ہیں۔ کیا ہمارے نوجوانوں میں اللہ تعالیٰ اور نبی ? کی شریعت کے تحفظ کیلئے وہ جذبہ موجود ہیں جو ان فلسطینی خواتین نے اپنے بچوں کی تربیت اس انداز میں کرتے ہوئے کی کہ مسجد اقصی کے تحفظ کیلئے تمہیں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنا ہے۔
کیا ہمارے بچے اور خواتین موجودہ دور کے فرعون کے خلاف کلمہ حق کو بلند کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، کیا ہم یزید وقت کے خلاف محاذ آرائی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیا ہمارے پاس وہ ایمانی غیرت و حمیت دلوں موجود ہے، کیا ظالم کے ظلم کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت کو نوش کرنے کا جذبہ ہم نے اپنے بچوں میں پیدا کیا ہے، کیا ہمارے بچے ہمارے بعد وقت کے یزید کے ساتھ صلاح تو نہیں کرلے گے۔ کہی ظلم و قتل کے ڈر سے وقت کے فرعون کی خدائی کو قبول تو نہیں کرلے گے۔ کہی پیاس کی شدت میں یزید وقت کے ہاتھ پر بیت تو نہیں کرلے گے، اگر آج فلسطینیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جارہا ہے تو کیا وہی حالات ہمارے ساتھ پیش نہیں آ سکتے اللہ نہ کریں کہ ہم ایسی آزمائش سے دو چار ہو لیکن ہمیں اپنی نسلوں کے ایمان کے تحفظ کی فکر کرنی کی ضرورت ہے اسلامی مقدس مقامات کے تحفظ کیلئے بچوں کے اندر ایمانی غیریت و حمیت کو پیدا کرناہوگا، کیونکہ حالات کب کس طرف موڑ جائیں گے ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں ہیں ہمیں اپنی اور اپنی نسلوں کی اپنی قوم اور پوری انسانیت کی فکر کرنے کی ضرورت ہیں۔ تاکہ وہ مستقبل قریب میں ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار رہے اور ایمان کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو یہی اصل کامیابی ہے۔
فنا فی اللہ کی تہ میں بقاء کا راز مضمر ہے
جنہیں مرنا نہیں آتا انہیں جینا نہیں آتا
٭٭٭

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا