محمد امین اللہ
خود غرضی انسانی جبلت کی وہ منفی پہلو ہے جو دنیا داری اور ہوس زر کے کوکھ سے پیدا ہوتی ہے۔ تاریخ میں یہ بات رقم ہے کہ
پتھر کے دور کا انسان تنہا جیتا تھا اور خود کیلئے جیتا تھا۔ اس کا نہ کوئی خاندان تھا نہ کوئی قبیلہ اور نہ ہی معاشرتی زندگی کا
کوئی نظام تھا۔ بس وہ تھا اور اس کی ذات تھی۔مگر اللہ تعالیٰ نے انسان کو انسانوں کی خدمت اور غم گساری کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس کے جسم میں اک دھڑکتا ہوا دل بنایا ہے جوخوشی اور غم کو محسوس کرتا ہے۔میر درد نے اسی درد کو محسوس کرتے ہوئے یہ شعر کہا ہے۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں۔
بانٹ ڈالے ہم نے ایسے دل کے ٹکڑے کاٹ کر۔
جنم دن پہ بانٹنے ہیں کیک جیسے کاٹ کر۔( انکت موریا)
خود غرضی انسان کو پتھر دل بنا دیتی ہے۔ خود غرض آدمی صرف اور صرف اپنے فائدے کی سوچتا ہے۔ اس کے سامنے اپنیرشتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ آج کے دور کو مادہ پرستی کا دور کہا جاتا ہے اور مادہ پرستی ہی خود غرضی کی ماں ہے۔آج جن ممالک کو ہم ترقی یافتہ ممالک شمار کرتے ہیں وہاں کا خاندانی نظام با لکل تہہ و بالا ہو چکا ہے۔ نیو یارک ٹائمز میں تصویرکے ساتھ اک اسٹوری چھپی تھی وہ یہ کہ اک نوجوان لڑکی اک اپارٹمنٹ کے نیچے رو رہی تھی اخبار کے رپورٹر نے رونے کاسبب پوچھا تو کہنے لگی میرے باپ نے مجھ کو گھر سے یہ کہہ کر نکال دیا ہے کہ دوسرا شخص تم سے زیادہ کرایہ دے رہا ہے۔آج ترقی یافتہ دنیا میں اولڈ ایج ہوم اسی خود غرضیوں کا تحفہ ہے۔ اب تو یہ بیماری ہندوستان ، پاکستان اور تیسری دنیا میں بھی پھی لچکی ہے۔ مادہ پرستی اور زر پرستی جو خود غرضی کی نرسری ہے اس نے والدین جیسی ہستیوں کو بھی بے سہارا کر دیا ہے۔جاپان کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ اک مقدس پہاڑ ہے جہاں معذور اور لا علاج ماں باپ کو پہاڑ کے نیچے لے جا کر پھینک دیتے ہیں۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں اگر سب مل کر نوکری نہ کریں تو گذارہ ہو نہیں سکتا کوئی کسی کی کفالت کرنے کا روادارنہیں ہے۔اگر اقوام متحدہ کے ادارے نہ ہوتے اور خدمت خلق کے فلاحی ادارے نہ ہوتے تو جنگوں اور قدرتی آفات سے متاثر ہونے والے لاکھوں انسانوں کی داد رسی ممکن نہیں ہوتی۔خود غرض آدمی میں انا کوٹ کوٹ کر بھری رہتی ہے۔ یہ متکبر بھی ہوتا ہے اور اپنے سے کمتر حیثیت والے سے نفرت کرتا ہے مگر اپنے سے برتر حیثیت والے سے حسد کرتا ہے۔ لہذا یہ فطرت اس کو سماجی اعتبار سے تنہا کر دیتی ہے۔اک خود غرض انسان جب ملک کے اداروں میں کسی منصب پر فائز ہوتا ہے تو عوامی مفادات کو شدید نقصان پہنچاتا ہے اور ہرطرح کے بد عنوانی کے ذریعے سے قومی خزانے کو لوٹ کر اپنی تجوریاں بھرتا ہے۔ اگر اتفاق سے ملک کا صدر ، وزیراعظماور سپہ سالار بن جائے تو الاماں الحفیظ۔ ہندوستان پر مسلمان حکمرانوں کا زوال اسی خود غرضانہ عیش پرستی کا نتیجہ تھا۔ترکی کی خلافت کے آخری ایام میں خلیفہ کی نا اہلی اور درباری چپقلش نے تین براعظموں پر قائم خلافت کا دھڑن تختہ کر دیا۔ جببرطانوی سامراج کا سورج نصف النہار پر تھا تو مسلم دنیا غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دی گئی اور لاکھوں انسانوں کو تہہ تیغ کردیا گیا۔آج بھی امریکی اور اشتراکی جارحیت نے گزشتہ نصف صدی میں 50 لاکھ سے زائد مسلمانوں کو ہلاک کرکے ان کے ملکوں پرقبضہ کیا ہے۔Men are being slaughtered for glory sake and to take over their national wealth.
انسان اپنی بالادستی کے لئے ذبح کئے جارہے ہیں اور انکے ملکی املاک اور وسائل پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ تازو مثال عراق، شام،لیبیا ، افغانستان ، فلسطین اور کشمیر ہے۔ یوکرین کی جنگ بھی روس اور پوٹن کی خود غرضانہ ہوس پرستی کا نتیجہ ہے۔سرمایہ دارانہ نظام اور دنیا بھر کے سرمایہ دار صرف اور صرف خود غرضیوں کی وجہ سے عوام کا استحصال کرتے ہیں۔
امریکہ اور آسٹریلیا اپنے زائد گندم کی پیداوار کو سمندر برد کر دیتے ہیں مگر غریب ممالک کو نہیں دیتے تاکہ وہ عوام کا استحصالکر سکیں۔یہ بات قابل غور ہے کہ جب اک اولاد خود غرضی کی وجہ سے اپنے بوڑھے والدین سے نظر پھیر لیتی ہے تو وہ کس طرح صاحب منصب اور صاحب اختیار ہو کر عوام بھلائی کرے گی۔یورپ کے بارے میں یہ بات حقائق بر مبنی ہے کہ عورتوں کی اک بڑی تعداد اپنے خوشگوار عائلی اور ازدواجی زندگی سے محروم ہیں۔ ان کی شادیاں چند ماہ یا سال دو سال کی ہوتی ہے۔ ہوس زر اور جنس نے پورے معاشرے کو اک بازار میں تبدیل کردیا ہے۔اس کے اثرات پاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں بھی نظر آرہے ہیں۔ عرب دنیا میں نکاح مسیار کو عملاً اجازت مل گئی ہے جس میں شوہر بیوی کی کفالت سے بری الزمہ ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش جو کہ کثیر مسلم ملک ہے وہاں زنان بازاری کو قانونی تحفظ مل
گئی ہے۔
پاکستان میں اک 72 سالہ بڑ بولے اور ہر دور میں وزارت کا مزہ لوٹنے والے سیاستدان سے اک صحافی نے جب یہ سوال کیا کہ آپ نے شادی کیوں نہیں کی تو اس نام نہاد قومی لیڈر نے بے شرمی کے ساتھ کہا کہ جب دودھ دکان سے مل جاتا ہے تو بھینس پالنے کی کیا ضرورت ہے۔باورچی ہانڈی کے چند دانوں کو ٹٹول کر دیکھتا ہے اور پتہ چلا لیتا ہے کہ گل گیا ہے کہ نہیں ٹھیک اسی طرح قومی مزاج اور فردکے رویئے مجموعی شناخت بن جاتے ہیں۔پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آتے ہیں۔خود غرضی نے مسلمانوں کے مشترکہ خاندانی نظام کو منتشر کر دیا ہے۔ دو بھائی بھی اک ساتھ اک چھت کے نیچے رہنے کے روادار نہیں ہیں۔ نصف صدی قبل تک اس طرح کا تصور بھی نہیں تھا۔ قبائلی معاشرے میں
بھی اب مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ شہروں میں رہنے والے اس سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ جو بچے والدین یااپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر نوکری کے لئے غیر ملکوں میں با لخصوص یورپ یا امریکہ بہتر معاش کی تلاش میں جاتے ہیں وہ چند سالوں میں وہیں کا ہو کر رہ جاتے ہیں۔ خال خال ہی اپنے خاندان والوں کی خبر گیری کرتے ہیں۔
ذوقِ ستم جنوں کی حدوں سے گذر گیا۔
کم ظرف زندہ رہ گئے انسان مرگیا۔
باہر میں کوئی دوست بھی مخلص نہیں رہا۔
کم ظرف کم نظر شناسائیاں ملیں۔خود غرضی جب سیاسی ، مذہبی جماعتوں یا کسی انقلابی تحریک کی قیادت میں پیدا ہو جاتی ہے توپہلا رد عمل اس کے تنظیمی ڈھانچے میں کمزوری اور ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور با لآخر وہ ٹکڑوں میں بٹنا شروع ہوجاتی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ سیاسی اور مذہبی جماعتیںاپنی بنا سے اب تک کئی کئی ٹکڑوں میں بٹ چکی ہیں جن کا نام لے کر تذکرہ کرنا مناسب نہیں۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں اورانقلابی تحریکوں کے پاس بے شمار وسائل اور اختیارات و ذرائع ہوتے ہیں اور اگر وہ بر سر اقتدار بھی ہو تو ان کی قیادت اگرمخلص ہے تو ان کے اندر استحکام در استحکام ہوتا جاتا ہے اور اگر قیادت خود غرض ہو تو وہ اپنی ذاتی مفادات اور شہرت کے لئے حاصل شدہ وسائل کو بے دریغ استعمال کرتی ہے اور نتیجہ تحریک اور جماعتیں اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہیں۔انا پرستی نفرت کے انداز ،اور خود غرضی کا شجر لگانے والے ظاہراً بڑے درویش صفت لوگ ہوتے ہیں۔کون رکھے گا ہمیں یاد اس دور خود غرضی میں۔
حالات ایسے ہیں کہ لوگوں کو خدا یاد نہیں۔
٭٭٭