خود روزگار کے ذریعہ خواتین بدل رہی ہے اپنی معاشی صورتحال

0
93

 

 

مونیکا
لنکرنسر، راجستھان

’’پہلے مجھے ہر چیز کے لیے اپنے شوہر پڑمنحصررہنا پڑتا تھا۔ چھوٹی سے چھوٹی ضرورتیں بھی پوری کرنے کے لیے ان سے پیسے مانگنے پڑتے تھے۔ اس سے میری عزت نفس مجروح ہوتی تھی۔ لیکن میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا جس سے میں اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکوں اور اپنا روزگار کر کے پیسے کما سکوں۔ لیکن آج میں خود روزگار کے ذریعے سالانہ 40 سے 50 ہزار روپے کماتی ہوں۔ اس کی وجہ سے آج میں نہ صرف خود انحصاری بن گئی ہوں بلکہ میرا خود اعتمادی بھی بڑھ گیا ہے۔‘‘یہ کہنا ہے گڈیسر گاؤں کی 30 سالہ خاتون پوجا کا۔ یہ گاؤں راجستھان کے بیکانیر ضلع کے لنکرنسر بلاک سے تقریباً 65 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ پنچایت میں درج اعداد و شمار کے مطابق اس گاؤں کی آبادی تقریباً 3900 ہے۔ یہاں مردوں کی شرح خواندگی 62.73 فیصد اور خواتین کی صرف 38.8 فیصد ہے۔ یہاں تمام ذاتوں کے لوگ رہتے ہیں لیکن راجپوت ذات کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔پوجا کہتی ہیں، ’’دو سال پہلے گاؤں کی ایک سماجی کارکن ہیرا شرما نے مجھے مقامی این جی او ’ارمول‘ کی طرف سے فراہم کردہ خود روزگار کے بارے میں بتایا۔ جہاں خواتین کروشیا کے ذریعے مصنوعات تیار کرکے آمدنی حاصل کرتی ہیں۔ پہلے میں اس میں شامل ہونے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھی کیونکہ میں نہیں جانتی تھا کہ اسے کیسے کرنا ہے ؟ لیکن پہلے مجھے تنظیم نے اس کی تربیت دی تھی۔ جہاں مجھے کروشیا کے ذریعے ٹوپی، جیکٹ، دستانے، موزے اور مفلر وغیرہ بنانا سکھایا گیا۔ تنظیم میں میرے ساتھ گاؤں کی 30 دیگر خواتین کو بھی کروشیا کے ذریعے مصنوعات بنانے کی تربیت دی گئی۔
اس کے بعد ہمیں تنظیم سے ہی سامان بنانے کے آرڈر ملنا شروع ہو گئے اور انہیں بنانے کے بعدرقم کی ادائیگیاں بھی ہونے لگیں۔ اب مجھے پیسوں کے لیے کسی پر انحصار نہیں کرنا پڑتا ہے۔وہ پورے اعتماد کے ساتھ کہتی ہیں کہ اب اس کے شوہر کو جب بھی ضرورت ہوتی ہے مجھ سے پیسے مانگتے ہیں۔ اس میں شامل ہونے کے بعد مجھے اپنے اندر موجود ٹیلنٹ کا احساس ہوا ہے۔ اب مجھے لگتا ہے کہ ہم خواتین بھی بہت کچھ کر سکتی ہیں۔ ہم گھر بیٹھے کام کرکے بھی پیسے کما سکتی ہیں۔ پوجا کہتی ہیں کہ تنظیم میں شامل ہونے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے حکومت کی جانب سے کئی اسکیمیں چلائی جارہی ہیں۔ لیکن بیداری کی کمی کے باعث ہم اس سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہیں۔درحقیقت موجودہ دور میں روزگار ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ خاص طور پر ان دیہی خواتین کے لیے جو تعلیم اور شعور سے محروم ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ گھر کی چار دیواری میں قید رہنے پر مجبور ہیں۔ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے ارمل تنظیم کی جانب سے خواتین کو جس طرح تربیت دی جا رہی ہے وہ انہیں بااختیار بنانے کی ایک اچھی مثال ہے ۔ گاؤں کی ایک خاتون، ودیا، جو کروشیا کے ذریعے موزے بُن رہی تھی، کہتی ہیں،’’چونکہ ہم ارمل تنظیم کے ذریعے خود روزگار سے منسلک ہوئے ہیں، ہمیں اپنی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اب کسی پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اب میں اور میرے شوہر گھر میں برابر رقم خرچ کرتے ہیں۔ پہلے میں صرف گھرکا کام کرتی تھی اور جانوروں کی دیکھ بھال کرتی تھے۔ ہمارے گھر والے بھی ہمیں گھر سے باہر نہیں نکلنے دیتے تھے۔ خواتین کے تئیں معاشرے کی سوچ بھی تنگ تھی۔ لیکن جب سے ہم اس تنظیم سے وابستہ ہوئے ہیں ہمیں گھر سے باہر جانے سے کوئی نہیں روکتا۔ودیا کے ساتھ بیٹھی، سرسوتی دیوی جو کروشیا پر مفلر بُن رہی تھیں، ان کی بات کو آگے بڑھاتی ہیں اور کہتی ہیں،’’میں نے کروشیا سے اشیاء بنا کر تنظیم کو 25 سے 30 ہزار روپے کا کام دیا ہے۔ مجھے اس سے بہت فائدہ ہوا ہے۔ اب میں نے نہ صرف اپنے اندر موجود ٹیلنٹ کو پہچان لیا ہے بلکہ اس کی وجہ سے میں مالی طور پر بھی بااختیار ہو گئی ہوں۔ میں سارا دن اسی کام میں مصروف رہتی ہوں۔ اب میں نے اپنے بچوں کی تعلیم کا خرچ خود اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ ‘‘گاؤں کی ایک اور خاتون لکشمی کہتی ہیں، ’’کروشیا کے کام سے پیسے کمانے کے بعد، میں نے سلائی مشین بھی خریدی ہے۔ اب میں بُنائی کے ساتھ کپڑوں کی سلائی کا کام بھی کرتی ہوں۔ جس کی وجہ سے میری آمدنی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔‘‘
اس حوالے سے ارمول کی رکن اور سماجی کارکن ہیرا شرما کہتی ہیں، ’’جب ہم نے خواتین کو گھر میں رہتے ہوئے دیکھا تو ہم نے انہیں روزگار سے جوڑنے کی کوشش کی۔ جس میں تنظیم کے ذریعے انہیں کروسیا سے اونی کپڑے بنانے کی تربیت دی گئی۔ اس کے لیے گاؤں کی 30 خواتین کا ایک گروپ بنایا گیا تھا۔ جن میں سے 15 خواتین نے بہت اچھے طریقے سے کام سیکھا اور پھر ملازمت کا مطالبہ کیا۔ ہم نے ان خواتین کے لیے دیسی اون خریدا اور انہیں مصنوعات بنانے کے لیے دیا۔ جس کی وجہ سے ان کے اعتماد میں مزید اضافہ ہوا۔ اس ملازمت کے ملنے سے خواتین کی زندگیوں پر مثبت اثرات مرتب ہوئے۔وہ خواتین جن کے گھر والوں نے انہیں گھر سے باہر نہیں نکلنے دیا، وہ آج مرکز میں آکر کام کرتی ہیں۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ یہاں بہت سی خواتین ایسی ہیں جن کا خاندانی پس منظر اچھا نہیں ہے۔
اس کا شوہر شراب پینے کے بعد اس پر جسمانی تشدد کرتا تھا اور اسے گھریلو اخراجات کے لیے پیسے بھی نہیں دیتا تھا۔ آج وہ عورتیں اپنا پیسہ کما رہی ہیں۔ وہ اپنے بچوں کی پرورش کر رہی ہے اور ان کے سکول کی فیس بھی ادا کر رہی ہے۔‘‘تنظیم اور خواتین کے درمیان کام کے بارے میں، ہیرا کہتی ہیں،’’زیادہ تر خواتین اپنے گھریلو کام مکمل کر کے مرکز پہنچ جاتی ہیں، جہاں سب مل کر وقت پر آرڈر مکمل کرتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر کچھ خواتین اسے گھر لے جا کر آرڈر بھی مکمل کر لیتی ہیں۔ سامان خریدنے سے لے کر آرڈر پورا کرنے تک، آمدنی وغیرہ کے بارے میں معلومات تمام خواتین کے ساتھ یکساں طور پر شیئر کی جاتی ہیں۔ پروڈکٹ کی فروخت سے حاصل ہونے والی کچھ رقم اگلی پروڈکٹ کے لیے سامان خریدنے میں استعمال ہوتی ہے، باقی رقم خواتین میں ان کے کام کے مطابق تقسیم کردی جاتی ہے۔ یہ سب مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔‘‘ ہیرا کہتی ہیں کہ ’’خواتین کی تیار کردہ مصنوعات دہلی اور گجرات میں منعقد ہونے والی مختلف نمائشوں میں فروخت ہوتی ہیں۔
جہاں لوگ ان کے کام کو نہ صرف سراہتے ہیں بلکہ شوق سے خریدتے ہیں۔ سب سے پہلے دہلی کے تروینی کلا سنگم میں ان کی نمائش کا اہتمام کیا گیا جہاں ان کا سامان بیچ کر 96 ہزار روپے کا منافع ہوا تھا۔‘‘
گزشتہ سال پارلیمنٹ میں اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ 2017-18 کے مقابلے 2020-21 میں سیلف ایمپلائیڈ لوگوں کا حصہ بڑھ گیا ہے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں خواتین کے لیے روزگار بڑھ رہا ہے۔ یہ شرح 2018-19 میں 19.7 فیصد تھی جو 2020-21 میں بڑھ کر 27.7 فیصد ہوگئی ہے۔ 1.2 کروڑ سیلف ہیلپ گروپس میں سے 88 فیصد خواتین جڑی ہوئی ہیں، جو 14.2 کروڑ خاندانوں تک پہنچتی ہیں۔ یہ ایک مثبت علامت ہے۔ خود روزگار میں شامل ہونے سے خواتین نہ صرف خود انحصاری بنیں گی بلکہ ان کا خود اعتمادی بھی بڑھے گا۔ جو ترقی یافتہ ہندوستان کے خواب کو پورا کرنے کے لیے ایک اہم ستون ہے۔ (چرخہ فیچرس)
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا