اس مقصد کو تیار کرنے کا بہترین ذریعہ روزہ ہے
ترتیب: عبدالعزیز
9831439068
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیئے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیاءکے پیرو¿ں پر فرض کئے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔ چند مقرر دنوں کے روزے ہیں۔ اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے۔ اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں) تو وہ فدیہ دیں۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے، تو یہ اسی کے لئے بہتر ہے۔ لیکن اگر تم سمجھو، تو تمہارے حق میں اچھا یہی ہے کہ روزہ رکھو۔ ”رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کیلئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر دکھ دینے والی ہیں، لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے ۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لئے یہ طریقہ تمہیں بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو“۔
(سورہ بقرہ: آیت نمبر 183- 185)
تشریح و تفسیر:
(1 اسلام کے اکثر احکام کی طرح روزے کی فرضیت بھی بتدریج عائد کی گئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں مسلمانوں کو صرف ہر مہینے کے تین دن کے روزے رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی مگر یہ روزے فرض نہ تھے۔ پھر ۲ ہجری میں رمضان کے روزوں کا یہ حکم قرآن میں نازل ہوا، مگر اس میں اتنی رعایت رکھی گئی کہ جو لوگ روزے برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہوں اور پھر بھی روزہ نہ رکھیں، وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا دیا کریں۔ بعد میں دوسرا حکم نازل ہوا اور یہ عام رعایت منسوخ کر دی گئی، لیکن مریض اور مسافر اور حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت اور ایسے بڈھے لوگوں کیلئے جن میں روزے کی طاقت نہ ہو، اس رعایت کو بدستور باقی رہنے دیا گیا اور انھیں حکم دیا گیا کہ بعد میں جب عذر باقی نہ رہے تو قضا کے اتنے روزے رکھ لیں جتنے رمضان میں ان سے چھوٹ گئے ہیں۔
(2 یعنی ایک سے زیادہ آدمیوں کو کھانے کھلائے، یا یہ کہ روزہ بھی رکھے اور مسکین کو کھانا بھی کھلائے۔
(3 یہاں تک وہ ابتدائی حکم ہے، جو رمضان کے روزوں کے متعلق ۲ ہجری میں جنگ بدر سے پہلے نازل ہوا تھا۔ اس کے بعد کی آیات اس کے ایک سال بعد نازل ہوئیں اور مناسبت مضمون کی وجہ سے اسی سلسلہ¿ بیان میں شامل کر دی گئیں۔
(4 سفر کی حالت میں روزہ رکھنا یا نہ رکھنا آدمی کے اختیارِ تمیزی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو صحابہ سفر میں جایا کرتے تھے، ان میں سے کوئی روزہ رکھتا تھا اور کوئی نہ رکھتا تھا اور دونوں گروہوں میں سے کوئی دوسرے پر اعتراض نہ کرتا تھا۔ خود آنحضرت نے بھی کبھی سفر میں روزہ رکھا ہے اور کبھی نہیں رکھا ہے۔ ایک سفر کے موقع پر ایک شخص بدحال ہوکر گر گیا اور اس کے گرد لوگ جمع ہوگئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حال دیکھ کر دریافت فرمایا: کیا معاملہ ہے؟ عرض کیا گیا روزہ سے ہے۔ فرمایا: یہ نیکی نہیں ہے۔ جنگ کے موقع پر تو آپ حکماً روزے سے روک دیا کرتے تھے تاکہ دشمن سے لڑنے میں کمزوری لاحق نہ ہو۔ حضرت عمرؓ کی روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو مرتبہ رمضان میں جنگ پر گئے۔ پہلی مرتبہ جنگ بدر میں اور آخری مرتبہ فتح مکہ کے موقع پر، اور دونوں مرتبہ ہم نے روزے چھوڑ دیئے۔ ابن عمرؓ کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر حضور نے فرما دیا تھا کہ انہ یوم قتال فافطروا۔ دوسری روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ انکم قد دنوتو من عدوکم فافطروا اقوی لکم۔ یعنی دشمن سے مقابلہ در پیش ہے، روزے چھوڑ دو تاکہ تمہیں لڑنے کی قوت حاصل ہو۔
عام سفر کے معاملے میں یہ بات کہ کتنی مسافر کے سفر پر روزہ چھوڑا جاسکتا ہے، حضور کے کسی ارشاد سے واضح نہیں ہوتا اور صحابہؓ کرام کا عمل اس باب میں مختلف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ جس مسافت پر عرف عام میں سفر کا اطلاق ہوتا ہے اور جس میں مسافرانہ حالت انسان پر طاری ہوتی ہے، وہ افطار کیلئے کافی ہے۔
یہ امر متفق علیہ ہے کہ جس روز آدمی سفر کی ابتدا کر رہا ہو، اس دن کا روزہ افطار کرلینے کا اسے اختیار ہے۔ چاہے تو گھر سے گھر کھانا کھا کر چلے اور چاہے تو گھر سے نکلتے ہی کھالے۔ دونوں عمل صحابہؓ سے ثابت ہیں۔
یہ امر کہ اگر کسی شہر پر دشمن کا حملہ ہو، تو کیا لوگ مقیم ہونے کے باوجود جہاد کی خاطر روزہ چھوڑ سکتے ہیں، علماءکے درمیان مختلف فیہ ہے۔ بعض علماءاس کی اجازت نہیں دیتے مگر علامہ ابن تیمیہؒ نے نہایت قوی دلائل کے ساتھ فتویٰ دیا تھا کہ ایسا کرنا بالکل جائز ہے۔
(5 یعنی اللہ نے صرف رمضان ہی کے دنوں کو روزوں کےلئے مخصوص نہیں کر دیا ہے بلکہ جو لوگ رمضان میں کسی عذرِ شرعی کی بنا پر روزے نہ رکھ سکیں، ان کیلئے دوسرے دنوں میں اس کی قضا کرلینے کا راستہ بھی کھول دیا ہے تاکہ قرآن کی جو نعمت اس نے تم کو دی ہے، اس کا شکر ادا کرنے کے قیمتی موقع سے تم محروم نہ رہ جاو¿۔
یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ رمضان کے روزوں کو صرف عبادت اور صرف تقویٰ کی تربیت ہی نہیں قرار دیا گیا ہے بلکہ انھیں مزید براں اس عظیم الشان نعمت ہدایت پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ بھی ٹھیرایا گیا ہے، جو قرآن کی شکل میں اس نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک دانشمند انسان کیلئے کسی نعمت کی شکر گزاری اور کسی احسان کے اعتراف کی بہترین صورت اگر ہوسکتی ہے، تو وہ صرف یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس مقصد کی تکمیل کیلئے زیادہ سے زیادہ تیار کرے، جس کیلئے عطا کرنے والے نے وہ نعمت عطا کی ہو۔ قرآن ہم کو اس لئے عطا فرمایا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کا راستہ جان کر خود اس پر چلیں اور دنیا کو اس پر چلائیں۔ اس مقصد کیلئے ہم کو تیار کرنے کا بہترین ذریعہ روزہ ہے۔ لہٰذا نزول قرآن کے مہینے میں ہماری روزہ داری صرف عبادت ہی نہیں اور صرف اخلاقی تربیت بھی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ خود اس نعمت قرآن کی بھی صحیح اور موزوں شکر گزاری ہے۔ (تفہیم القرآن)
azizabdul03@gmail.com