تو خود میں کچھ تو خلق سید ابرار پیدا کر

0
0

قرطاس و قلم
مقصوداحمدضیائی
9682327107

روا داری مروت جذبہ ایثار پیدا کر
تو خود میں کچھ تو خلق سید ابرار پیدا کر
محمد عربی نور سرمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب سب سے پہلی وحی نازل ہوئی اور اس غیر معمولی واقعے نے آپ پر خوف و کپکپی طاری کر دی تو حضور کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جو تاریخی کلمات ارشاد فرمائے ان کا مفہوم یہ تھا کہ آپ بلند اخلاق والے ہیں رشتے نبھاتے ہیں صداقت کے علمبردار ہیں کمزوروں کا بوجھ اٹھا تے ہیں ناداروں کو کما کر دیتے ہیں مہمانوں کی خاطر تواضع کرتے ہیں لوگوں کو پیش آنے والی مصیبتوں میں ان کی مدد کرتے ہیں اللہ پاک آپ کی مدد فرمائیں گے اور پھر پیغمبراسلام نے اللہ کے رسول کی حیثیت سے سب سے پہلے فاران کی بلندی سے دنیائے انسانیت کے سامنے جب اپنا موقف پیش کیا تو آپ نے اپنی گفتگو کا آغاز اس جملے سے فرمایا ھل وجدتمونی صادقا او کاذبا مکہ والو ! میں نے اپنی زندگی کی چالیس بہاریں آپ کے درمیان بتائی ہیں آج آپ کے ضمیر کو جج بنا کر پوچھتا ہوں کہ مجھے سچا پایا یا اس کے برعکس چنانچہ صنادید عرب نے بیک زبان ہو کر جواب دیا ، جربنا لک مرارا ماریئنا فیک الاصدقا عبداللہ کے یتیم ! فرش زمیں پر عرش بریں کے نیچے ہم نے جب بھی صداقت دیانت اور امانت کو چلتا پھرتا دیکھنا چاہا تو آپ کو دیکھ لیا آپ صادق و امین ہیں غرضکیہ دین اسلام میں مومنوں کی باہمی محبت اور شفقت کی مثال ایک جسم کی سی بتائی گئی ہے کہ جب اس کا کوئی حصہ تکلیف میں مبتلا ہو تو اس کی وجہ سے سارا بدن بے اطمینانی اور بخار محسوس کرتاہے لہذا سب مومنوں کے درمیان ایک دوسرے سے محبت و ہمدردی اور رحمت کا ایسا ہی تعلق ہونا چاہئے کہ اگر کسی ایک مومن بھائی کو کوئی تکلیف ہو تو باقی سب اس کی تکلیف اور دکھ میں اس کے شریک ہوں پیغمبراسلام جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ متبعین جماعت مومنین سے بے انتہا محبت کرتے تھے ان کے دکھ درد کو محسوس فرمایا کرتے تھے ان کی تکلیفوں کے خیال سے بے چین و بیقرار اور مضطرب ہو جایا کرتے تھے سلام ہو اس محسن انسانیت اور پیغمبراسلام جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جن کی سیرت طیبہ کے ہر پہلو میں کائنات انسانی کےلیے ایک عظیم پیغام ہے
چنانچہ ارشاد خداوندی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ تمہارے پاس تمہیں میں سے ایک رسول آیا ہے تمہارا تکلیف میں پڑنا اس پر شاق گزرتا ہے اور وہ مومنوں کے لئے بے حد مہربان ہے واقعہ یہ ہے کہ انسان کو تنہا رہنے کے لیے نہیں بنایا گیا ایک دوسرے سے اخلاق و محبت سے پیش آنا اس کی فطرت کا جزو ہے پھر فقط اخلاق و محبت ہی کافی نہیں بلکہ اس کا عملی مظاہرہ بھی اہم ہے ہر انسان کا دل آئینہ ہے جس میں دوسروں کے مسکراتے چہرے کا عکس پڑتا ہے شگفتہ مزاجی کے اظہار اور برتاو میں فائدے بہت ہیں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کس طرح زندگی بسر کرتا ہے ذمہ داریوں کا بوجھ اور جب زندگی میں طرح طرح کے جھمیلوں سے سابقہ پڑتا ہے تناو سے اعصاب کی طنابیں تک کھنچ جاتی ہیں تو بعض اوقات انسان سوچنے لگتا ہے کہ ساری دنیا اس کی مخالف ہے ایسے وقت میں جب کوئی انسیت کا مظاہرہ کرتا ہے تب اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی وہ صرف اتنے سے عمل سے اپنے کو زندوں میں سمجھنے لگتا ہے جن لوگوں سے آپ کا بےتکلفانہ تعلق ہے ان سے آپ چاہے جیسا بھی چاہیں برتاو کریں چونکہ ان سے برتاو کے پیچھے عوامل کا ایک طویل سلسلہ ہوتا ہے لیکن اس انسان سے جس سے آپ کی شناسائی نہیں ہے اور وہ آپ سے ملاقات کرتا ہے تو آپ اس سے انسیت اور لطف کا برتاو کریں معلوم ہونا چاہیئے کہ آپ کا یہ سلوک اس کی ذات تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ آپ کی اس خوبی کو وہ مخلوق خدا میں بکھیرتا چلا جائے گا نیز اگر وہ علم دوست ہے قلم دوست ہے تو آپ کی اس خوبی کو وہ زیب قرطاس کر کے اخلاقیات کے باب میں اضافہ کر دے گا جس سے آنے والی نسلیں روشنی حاصل کرکے زندگی گزارنے کا طریقہ اور جینے کا سلیقہ سیکھتی ر ہیں گی اس طرح آپ کا یہ حسن عمل تاریخ میں ایک مثال بن جائے گا جس طرح انسان کے منہ سے نکلی ہوئی بات کبھی فنا نہیں ہوتی بعینہ انسان کے ہونٹوں کا تبسم بھی کبھی فنا نہیں ہوتا انسانوں کو مغموم و مسرور کرنا آپ کے اختیار میں ہے اہم بات یہ کہ آپ انسیت کا اظہار فرماتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ہرگز نہ بھولیں کہ آپ کی یہ مسکراہٹ مخاطب کے لیے خوشی کا پیش خیمہ ہے یا تکلیف کا سبب ! اگر آپ کی یہ مسکراہٹ دوسرے انسان کے لیے تکلیف کا باعث بن رہی ہے تو پھر آپ کا یہ عمل با اخلاق اور منکسرالمزاج شخصیت ہونے کا تعارف نہیں ہوسکتا بلکہ ایسے انسان کو مہذب معاشرے کا مہذب بدتمیز انسان کے نام سے جانا جاتا ہے انسانوں کے ناپنے کا ایک سچا پیمانہ یہ بھی ہے کہ بڑا وہی ہے جس کی سوچ بڑی ہو جس کا دل بڑا ہو جس کا دل چھوٹا ہو وہ خود چھوٹا ہوتا ہے یاد رکھیں ! کہ یہ دور اقدامیت کا دور ہے آگے وہی بڑھتے ہیں جو پہل کرتے ہیں لہذا لوگوں کی پزیرائی میں پہل کی جئے نکتے کی ایک بات یہ بھی کہ جو اجنبیوں کو متواضع نگاہ سے دیکھے گا وہ اپنوں سے منحرف نہیں رہ سکتا پہچاننا مسکرانا احترام کرنا الفت و محبت بانٹنا خوشیاں بکھیرنا ایسی تخم ریزی کرنے کے مترادف ہے جو خوشیوں اور ہمدردیوں کے برگ و بار لاتے ہیں اس کے برعکس غصہ غرور کینہ بغض حسد جلن ترش روئی آڑ بازی غیبت بہتان بازی وہ خبیث اعمال ہیں جن کا صدور انسانی معاشرہ کو جہنم زار بنا دیتا ہے بربنائے تذکرہ بات میں بات آگئی وہ یہ کہ جن لوگوں کو قدرت نے اس عظیم کائنات میں تھوڑا سا اختیار دے دیا ہے جو آزمائش کے سوا کچھ بھی نہیں رہنا تو زیادہ دیر اس اختیار طاقت و غرور اور پاور نے بھی نہیں و تلک الایام نداولھا بین الناس لیکن ایسے لوگ اپنے ماتحتوں کو جب ذرا ذرا سی بات پر خود ساختہ قوانین و اقدامات کر کے تختہ مشق بناتے رہتے ہیں اور بیچارے ماتحتوں کو گھٹ گھٹ کر حیات مستعار بتانے پر مجبور کر دیتے ہیں ان کے اس افسوسناک رویے کی وجہ سے ماتحتوں کا عرصہ حیات تنگ ہو کر رہ جاتا ہے ان کا یہ عمل انسانیت اور آدمیت کے سراسر منافی ہے یاد رکھنا چاہیے کہ ایسے مجرمین خدائے قہار و جبار کی پکڑ سے ہرگز بچ نہ پائیں گے یقینا یہ روش زیادہ دیر تک روا نہیں رکھی جا سکتی اگر آپ کسی ایسے معاشرے کے باشندے ہیں کہ جہاں جہالت کا چلن ہے چاہتے ہوئے بھی آپ اس برتاو کی تبدیلی پر قادر ہی نہیں غرضیکہ اس ہنستی اور مسکراتی کائنات میں وہی زندگی سج دھج سکتی ہے جو مسکرا کر اپنے وجود کا احساس دلائے کہ وہ قدرت کے اس کارخانہ کا ایک کار آمد پرزہ ہےََ
آخری بات : – اللہ رب العزت نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اعلیٰ اخلاق سے نوازا تھا آپ کے چہرہ انور پر بشاشت اور دوسروں کے لیے مسکراہٹ ہوتی تھی آپ انتہائی نرم مزاج تھے کبھی بازاروں میں اونچی آواز نہ لگاتے تھے غصے میں سب سے دور اور رضا میں سب سے آگے آگے ہوتے سامنے جب دو کام کرنے ہوتے تو سب سے آسان کام کا انتخاب فرماتے آپ نے اپنی ذات کے لیے کبھی نہ انتقام لیا اور نہ ہی کوشش کی مگر جب اللہ رب العزت کی حرمت پامال ہوتی تو اس کا انتقام لیتے آپ سب سے زیادہ سخی بہادر محبت کرنے والے اور امن پسند تھے اور یہی وجہ تھی کہ آپ امن اور انسانیت کو قائم رکھنے کے لیے جہاد کرتے تھے تاکہ زمین کو کسی بڑے فساد سے بچایا جاسکے آپ سب سے زیادہ باوقار اور حیادار تھے جب بھی آپ کو کوئی عمل یا چیز پسند نہ ہوتا تو اس کے آثار آپ کے چہرہ انور پر ظاہر ہوتے تھے اور جب خوش ہوتے تو وہ بھی چہرہ مبارک سے پتہ چل جاتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ملاقات یا گفتگو کے دوران اپنی نظر کسی پر جماتے نہ تھے اور نہ ہی کسی سے ناپسندیدگی سے پیش آتے آپ پاکدامن عادل حیادار امانت دار اور سچے تھے یہی وجہ تھی کہ آپ کو کفار اور مشرکین بھی صادق اور امین کہا کرتے تھے سب سے زیادہ عہد کے پاسدار صلہ رحم اور شفقت کرنے والے تھے آپ ہمیشہ سے بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت فرماتے تھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پہ شفقت نہ کرے عموما یہ کہا جاتا ہے کہ پیغمبراسلام اعلان رسالت کے بعد اپنی زندگی کو معیار بنا کر پیش کرتے ہیں جب کہ درست بات یہ ہے کہ آپ کی پیدائش سے لے کر عالم جاودانی کی روانگی تک کا ایک ایک لمحہ اسوہ حسنہ ہے قصہ مختصر بڑا ہی خوش نصیب ہے وہ انسان کہ جس کی عملی زندگی میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا کچھ بھی نقشہ نظر آجائے آمدم برسرمطلب ! اسوہ رسول اپنائیں اور جنت پائیں دعا ہے کہ رب کریم پوری امت محمدیہ کو اسوہ حسنہ کو اپنانے کی توفیق بخشے آمین ثم آمین یارب ذوالمنن
E.mail ahmedmaqsood645@gmil.com

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا