۰۰۰
ریاض فردوسی
9968012976
۰۰۰
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو کہ کہیں تم کسی گروہ کو لاعلمی سے کوئی نقصان (نہ) پہنچا دو پھر جو کچھ تم نے کیا ہو اُس پر پشیمان ہو جاؤ(سورہ الحجرات۔آیت۔6۔پارہ۔26)
اسلام دشمنوں کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے دو عظیم دوستوں کو جو دو جسم ایک جان ہیں،جھوٹی اور غلط تاریخ کے ذریعے ایک دوسرے کا دشمن بنادیا۔ایک محترم دوست کو اس حد تک بدنام کیا کہ معاذاللہ صد بار معاذ اللہ مقدس پیغمبر ﷺ کی پاک و طاہرہ،منور و مجلی بیٹی سے بدتمیزی کرنے والا قرار دے دیا۔اگرچہ یہ شخص ذلیل اور گھٹیا لوگوں کی جھوٹی کہانی سے بالاتر اسلامی تاریخ میں میل کی پتھر کی حیثیت کا حامل ہے۔دو دوستوں کی زندگی ایک طرح،اگرچہ دوسرے دوست نے دور خلافت میں زیادہ مشکلات کاسامنا کیا،دونوں دوستوں کی شہادت ایک طرح سے،دونوں دوستوں کو بزدلی سے شہید کیاگیا،قاتلوں کی اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ ان مقدس دوستوں کو سامنے سے وار کر سکے،جب یہ دونوں دوست اللہ سے گفتگو کرنے میں محو تھے،تب ظالموں نے ان پر حملہ کیا۔آقا ﷺ بارہا دونوں دوست کو ایک ساتھ روانہ کرتے تھے اور انشاء اللہ قیامت میں بھی یہ دونوں دوست شانہ بہ شانہ ہی ہوں گے(آمین یارب العالمین)
جس طرح امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے والد مولیٰ علی کرم اللہ وجہ کی محبت میں اپنے بیٹوں کا نام مولی علی کرم اللہ وجہ کے نام پر علی اکبر،علی اوسط(مشہور۔سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ)اور علی اصغر رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین رکھے ہیں اسی طرح مولیٰ علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہ نے کمالِ محبت سے اپنے تین بیٹوں کا نام خلفائے ثلاثہؓ کے نام پر رکھا:ابوبکر بن علیؓ،عمر بن علیؓ،عثمان بن علیؓ اور یہ تینوں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کربلا میں شہید ہوئے۔ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے والد محترم کی طرح اپنے صاحبزادوں کے نام حضرات شیخین کریمین رضی اللہ عنہما کے نام پر ابوبکر بن حسنؓ اور عمر بن حسنؓ رکھا،اسی طرح سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے ایک صاحبزادے کانام عمر بن حسین بن علیؓ رکھا۔سیدنا علی بن حسینؓ زین العابدین نے بھی اپنے نورِ چشم کا نام سیدنا عمر بن علی بن حسینؓ اور بیٹی کا نام عائشہ بنت علی بن حسین بن علیؓ رکھا۔
سیدنا امام موسیٰ بن جعفر صادقؒ نے بھی مولیٰ علی کرم اللہ وجہ کی محبت میں اپنے بیٹے کانام عمر اور بیٹی کا نام عائشہ رکھا(کشف الغمۃ،ج۔3،ص۔92۔تاریخ یعقوبی،ج۔2،ص۔212)
سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کئی مرتبہ اپنا قائم مقام خلیفہ مولیٰ علی کرم اللہ وجہ کو بنایا عمرو ابن العاص کے خط پر جب فلسطین تشریف لے گئے تو قائم مقامی کا قرعہ مولیٰ علی کرم اللہ وجہ کے نام نکلا اسی طرح جب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی کا آخری حج کیا ازواج مطہرات ہمراہ تھیں۔دار الخلافۃ مولیٰ علی کرم اللہ وجہ کے ہی سپرد کر آئے(ال منتظم بحوالہ سید نا علی رضی اللہ عنہ از ڈاکٹر علی محمد الصلابی)
ابو السفر روایت کرتے ہیں کہ سیدنا مولی علی کرم اللہ وجہ اپنے دور خلافت میں اکثر ایک ہی چادر زیب تن فرمائے رکھتے کسی نے کہا! امیر المومنین اکثر آپ اسی چادر کو ہی کیوں پہنتے ہیں،مولی علی کرم اللہ وجہ اس سوال پر رو پڑے اور فرمایا یہ چادر مجھے میرے مخلص دوست عمر بن الخطاب نے پہنائی تھی۔(المصنف لابن ابی شیبۃ حدیث نمبر۔12047)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس جس کا میں مولا و سرپرست ہوں، علی بھی اس اس کے مولا و سرپرست ہیں۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کے بعد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بھیڑ سے جلدی سے آگے بڑھ کر علی کرم اللہ وجہ کو اس طرح مبارک باد دی!
مبارک ہو، مبارک ہو، اے ابو الحسن کہ، اب آپ میرے اور سب مسلمانوں کے مولا و راہبر بن گئے ہو۔
فاروق اعظم سیدنا عمر کے یہ الفاظ ان کے آپ ﷺ کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور علی کے اس امت کے امام و راہبر بننے پر راضی ہونے پر دلالت کرتی ہے۔(من کنت مولاہ۔از حوالہ۔فضائل الصحابۃ لابن حنبل ج 2، ص.596
إبن أبی شیبۃ الکوفی، ابوبکر عبد اللہ بن محمد (متوفی235 ہ)، الکتاب المصنف فی الأحادیث والآثار، ج 6، ص 372، ح32118، تحقیق: کمال یوسف الحوت، ناشر: مکتبۃ الرشد – الریاض، الطبعۃ: الأولی، 1409ہ
تاریخ مدینۃ دمشق وذکر فضلہا وتسمیۃ من حلہا من الأماثل، ج 42، ص.221
الذہبی الشافعی، شمس الدین ابوعبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان (متوفی 748 ہ)، تاریخ الإسلام ووفیات المشاہیر والأعلام، ج 3، ص.631
السیوطی، جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر (متوفی911ہ)، الحاوی للفتاوی فی الفقہ وعلوم التفسیر والحدیث والاصول والنحو والاعراب وسائر الفنون، ج 1، ص 78، تحقیق: عبد اللطیف حسن عبد الرحمن، ناشر: دار الکتب العلمیۃ – بیروت، الطبعۃ: الأولی، 1421ہ – 2000م
ملا علی القاری نے اس روایت اور اسکی شرح کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ
(رواہ أحمد) أی فی مسندہ، وأقل مرتبتہ أن یکون حسنا فلا التفات لمن قدح فی ثبوت ہذا الحدیث
اس روایت کو احمد نے اپنی کتاب مسند احمد میں نقل کیا ہے، راویوں کے مرتبے کے لحاظ سے، اس روایت کا کم ترین مرتبہ یہ ہے کہ، یہ روایت (علم حدیث کی زبان میں) حسن ہے، پس جو بھی اس روایت کے بارے میں اشکال کرے گا، اسکی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جائے گی)
امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک پاگل عورت کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور ایک عورت کہ جس کے ہاں حاملہ ہونے کے 6 مہینے بعد بچہ پیدا ہوا تھا، اس کو بھی سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ اسکو سنگسار کر دیا جائے۔اس پر مولیٰ علی کرم اللہ وجہ نے اپنے دوست سیدنا عمر سے کہا کہ بے شک اللہ تعالی نے قرآن میں حمل اور دودھ پلانے کی مدت تیس مہینے ذکر کی ہے،اور اسی طرح سیدنا عمر سے کہا کہ: بے شک اللہ نے پاگل انسانوں سے رفع قلم کیا ہے، اور انکے لیے کوئی شئی حلال و حرام و واجب نہیں ہے،یہ سب سن کر فاروق اعظم قاتل منافقین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:میں ایسے علمی مسئلے سے پناہ مانگتا ہوں کہ جس کے حل کرنے کے لیے ابو الحسن علی نہ ہوں،اگر علی نہ ہوتے تو میں عمر ہلاک ہو جاتا(استیعاب ابن عبدالبر ج 3 ص 1103)
بارہا مولیٰ علی کرم اللہ وجہ نے اپنے عزیز دوست حضرت عمر کو شریعت اسلامیہ کی روشنی میں ٹوکا،واضح رہے کہ فاروق اعظم کے سامنے آپ ﷺ اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بعد صرف مولیٰ علی کرم اللہ وجہ ہی تھے جو بلا کسی تمہید کے حضرت عمر کو ٹوکتے رہتے تھے،صرف جان سے پیارا دوست کو ہی یہ حق حاصل ہوتا ہے۔عمر اور علی ایک ہی کردار ہیں،دو مقدس پاکیزہ روحوں کو علی کہے یا عمر ایک ہی بات ہے۔ان دونوں دوست پر اللہ کی سلامتی ہو۔
رومیوں کے خلاف حضرت عمر نے بذات خود میدان کارزار میں اترنے کا فیصلہ کیا تو مولیٰ علی کرم اللہ وجہ سامنے آگئے اور فرمایا کہ اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو اہل اسلام کو کوئی پناہ گاہ نہیں ملے گی۔(نہج البلاغۃ،196)
خود شیعہ عالم ”بحار الانوار’’میں رقمطراز ہے: حضرت عمر جب شہید کر دیے گئے اور آپ کی میت غسل و تکفین کے بعد لا کر رکھی گئی تو حضرت علی فرمانے لگے کہ میرے نزدیک اس چادر میں لپٹے شخص سے زیادہ محبوب کوئی نہیں (بحار الانوار، ج.28، ص.117)
مورخ احمد بن ابی یعقوب نے لکھا ہے کہ حضرت عمر نے حضرت علی سے ان کی بیٹی ام کلثوم کا رشتہ مانگا ام کلثوم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی تھیں، تو حضرت علی نے فرمایا: وہ ابھی چھوٹی ہے۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا جس طرف آپ کا دھیان گیا میرا وہ مقصد نہیں (یعنی میں صرف رسول اللہ ﷺ کے خانوادے سے نسبت قائم کرنا چاہتا ہوں) تو حضرت علی نے ام کلثوم کا نکاح ان سے کر دیا حضرت عمر نے دس ہزار دینا بطور مہر ادا کیے۔ (تاریخ الیعقوبی، ج۔2، ص۔149۔150)
فاروق اعظم کے دور خلافت میں ایک عورت نے اپنی شادی کے 6 ماہ بعد ایک بچے کو جنم دیا۔امیر المومنین حضرت عمر کو اس بات کا پتا چلا تو انہوں نے حکم دیا کہ اس عورت نے زنا کیا ہے، لہذا اسکو سنگسار کیا جائے۔ جب مولی علی کرم اللہ وجہ کو اس فتوے کا علم ہوا تو آپ نے کہا امیر المومنین آپ کو ایسا حکم صادر کرنے کی کوئی اجازت نہیں ہے، پھر مولیٰ علیؓ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی کہ:
بے شک اللہ نے قرآن میں حمل اور دودھ پلانے کی کل مدت تیس مہینے ذکر کی ہے۔(سورہ احقاف آیت 15)
یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: اگر علی نہ ہوتے تو میں عمر ہلاک ہو جاتا۔(مواقف ایجی ج 3 ص 636، تفسیر سمعانی ج 5 ص 154)
خوارزمی نے اسی واقعے کو نقل کرنے کے بعد عمر کے الفاظ کو مکمل طور پر اس طرح سے بیان کیا ہے کہ:
عجزت النساء أن تلدن مثل علی بن أبی طالب، لولا علی لہلک عمر۔(عرب کی عورتیں اس سے عاجز ہیں کہ اب کوئی علی ابن ابی طالب جیسے انسان کو دوبارہ جنم دیں سکیں، اگر علی نہ ہوتے تو میں عمر ہلاک ہو جاتا)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کے جسم اقدس کے پاس کھڑا تھا کہ ایک صاحب نے میرے پیچھے سے آکر میرے کندھے پر اپنی کہنی رکھی اور فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے، بے شک مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں دوستوں (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) کا ساتھ عطا کرے گا، کیونکہ میں نے بارہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا تھا: ’’میں تھا اور ابوبکر و عمر،میں نے یہ کہا اور ابوبکر و عمر نے،میں چلا اور ابوبکر و عمر، میں داخل ہوا اور ابوبکر وعمر،میں نکلا اور ابوبکر و عمر‘‘ (رضی اللہ عنہم) میں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو وہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تھے۔(بخاری،باب المناقب۔ مسلم، کتاب الفضائل)
حضرت امام محمد باقر رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں طبقات ابن سعد، ج۔5،ص۔321 میں لکھا ہے کہ ابن سعد رحمۃ اللہ علیہ نے حسام صیرفی سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے ابو جعفر سے ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نے اپنے گھر والوں میں سے ہر ایک کو ان دونوں سے محبت کرتے ہوئے دیکھا ہے(آلِ رسول اور اصحابِ رسول،ص۔37)
البدایہ والنہایہ، ج۔9۔ص۔211میں تحریر ہے کہ جابر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مجھ سے محمد باقر بن علیؒ نے کہا: جابر! مجھے معلوم ہوا ہے کہ عراق میں بعض لوگ ہماری محبت کا دعویٰ کرتے ہیں اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو گالیاں دیتے ہیں، ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ میں نے ان کو اس کا حکم دیا ہے،میری طرف سے ان کو یہ بات پہنچا دو کہ میں اللہ کے یہاں ان سے بری ہوں،اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر مجھے ذمہ دار بنایا جائے تو میں ان کا خون کرکے اللہ کا تقرب حاصل کروں گا۔ اگر ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا نہ کروں تو مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش نہ ہو۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ: ’’جس نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت نہیں جانی وہ سنت سے ناواقف ہے(آلِ رسول اور اصحابِ رسول،ص۔38)
آخر میں!
اہل تشیعہ بھائیوں سے گزارش ہے کہ اپنی آخرت کو سیدنا ابوبکر صدیق،سیدنا عمر فاروق،سیدنا عثمان غنی اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کی شان میں گستاخی کرکے برباد نہ کرے۔اگر کسی صحابہ نے مولیٰ علی کرم اللہ وجہ کا دل دکھایا ہے تو قیامت کے دن اللہ ان سب کا انصاف کردے گا،ہو سکتا ہے مولیٰ علی کرم اللہ وجہ ان سب کو معاف کردے،پھر آخرت میں آپ کا کیا انجام ہوگا؟
کیا معاذ اللہ مولیٰ علی کرم اللہ وجہ نے آپ کو گالی بکنے کی وصیت کی ہے؟
کیا سیدہ خاتون جنت سلام اللہ علیھا نے معاذ اللہ توبہ استغفراللہ ایسی کوئی وصیت کی ہے؟
کیا تمام ائمہ معصومین علیھم السلام نے معاذ اللہ توبہ استغفراللہ ایسی کوئی وصیت کی ہے؟
پھر آپ اہل بیت کے عاشقین اپنی آخرت کیوں تباہ و برباد کر رہے ہو؟
ذرا سوچیں کہ مولیٰ علی کرم اللہ وجہ کی طاقت وقوت سے ہر کوئی واقف تھا تو پھر ان کے سامنے ان کی بی بی سے بے حرمتی کس طرح ہو سکتی تھی؟
علیؓ کے سامنے مرحب نہیں،عمر ابن عبدود نہیں،علی خیبر شکن ہیں۔جناتوں سے علی ؓنے جنگ کی،اور بری طرح شکست دی،جب لوگ علی سے جنگ ہارنے لگتے،نیزے پر قرآن اٹھا کر علی سے جنگ روکنے کی فریاد کرتے تھے،پھر تم نے جھوٹی جھوٹی کہانی پڑھ کر میرے مولیٰ علی کرم اللہ وجہ کو کمزور کیسے سمجھ لیا؟
تم تو میرے مولیٰ علی کرم اللہ وجہ کو معاذ اللہ بزدل قرار دینے پر تلے ہو،کیا تمہیں یاد نہیں کہ جنگ صفین سے پہلے مولیٰ علی کرم اللہ وجہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ امیر معاویہ مسلمانوں کا خون نا بہایا جائے
اور آئیے ہم اور ذاتی مقابلہ کر کے فیصلہ کر لیں،جو جیتے گا اس کی بات مانی جائے گی۔اس پر سیدنا مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امیر معاویہ،علیؓ کا سہی مشورہ ہے،جائیے آپ مقابلہ کر لیجیے،تب امیر معاویہ نے کہا تم مجھے ہلاکت میں جانے کا راستہ بتاتے ہو،مغیرہ ؓ علی ؓسے کوئی جیت سکتا ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بارے میں خوب فرمایا ہے کہ’’میرے بارے میں دو (قسم کے) شخص ہلاک ہو جائیں گے:
1. ۔غالی (اور محبت میں ناجائز) افراط کرنے والا، اور
2. ۔بغض کرنے والا حجت باز‘‘
(فضائل الصحابۃ للامام احمد۔571/2 ح۔964 واسنادہ حسن، ماہنامہ الحدیث۔4ص۔15)
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں!
روافض کا ایک گروہ اہل بیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دم بھرتا ہے، درحقیقت یہ ملحد و زندیق ہیں یا دین سے کورے اور نفس پرست۔ایک گروہ ناصبی ہے، جو (سیدنا امیر معاویہ اور سیدہ عائشہ کے خلاف ہونے والی)جنگوں کی وجہ سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں سے بغض رکھتا ہے۔”(الفتاوی الکبریٰ۔195/1،مجموع الفتاویٰ۔301/25)
(دراصل یہ دونوں ہی گمراہ فرقہ ہے اور اپنی کم علمی اور غلط تواریخ کا مطالعہ کرکے جہنم کی طرف پل بنا رہا ہے)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا!
اگر کوئی شخص حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان نماز پڑھتا ہو، روزہ رکھتا ہو، لیکن مرتے وقت دل میں اہل بیت سے بغض ہوا، تو جہنم میں جائے گا۔”
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم۔148/3۔149،وسندہ، حسنٌ)
مولیٰ علی کرم اللہ وجہ ارشاد فرماتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ نے مجھ کو فرمایا تم میں عیسیٰ (علیہ السلام) سے ایک طرح کی مشابہت ہے یہودیوں نے ان (عیسیٰ (علیہ السلام) سے بغض رکھا تو اتنا زیادہ رکھا کہ ان کی ماں (مریم (علیہ السلام) پر (زنا کا) بہتان باندھا اور عیسائیوں نے ان سے محبت و وابستگی قائم کی تو اتنی (زیادہ اور غلو کے ساتھ قائم کی) کہ ان کو اس مرتبہ ومقام پر پہنچا دیا جو ان کے لئے ثابت نہیں ہے (یعنی ان کو اللہ یا ابن اللہ قرار دے ڈالا) یہ حدیث بیان کرنے کے بعد حضرت علیؓ نے کہا (مجھے یقین ہے کہ اس ارشاد نبوی ﷺ کے مطابق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح میرے بارے میں بھی) دو شخص یعنی دو گروہ اس طرح ہلاک (یعنی گمراہ) ہوں گے کہ ان میں سے ایک تو جو مجھ سے محبت رکھنے والا ہوگا اور اس محبت میں حد سے متجاوز ہوگا، مجھ کو ان خوبیوں اور بڑائیوں کا حامل قرار دے گا جو مجھ میں نہیں ہونگی اور ایک جو مجھ سے بغض وعناد رکھنے والا ہوگا، میری دشمنی سے مغلوب ہو کر مجھ پر بہتان باندھے گا(احمد)