بہار میں روزگار کی سیاست کیا گل کھلائے گی

0
0

پروفیسر مشتاق احمد
:9431414586

اقوامِ متحدہ کی ذیلی تنظیم انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن(آئی ایل او)نے خلاصہ کیا ہے کہ پوری دنیا میں بیروزگار ی کی شرح میں اضافہ ہوگا اور بالخصوص ترقی پذیر ممالک جو جی۔20میں شامل ہیں ان ممالک میں شرح بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوگا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی طرف سنجیدگی سے لائحہ عمل طے نہیں کئے جا رہے ہیں ۔ اس تنظیم نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ پوری دنیا میں گذشتہ سال 5.3فی صد بیروزگاری ہے لیکن ایشیائی ممالک میں اس سے کہیں زیادہ سنگین صورتحال ہے۔ واضح ہو کہ کوویڈ ۔19 کے بعد پوری دنیا میں یہ مسئلہ پیداہوا ہے اور اس کے لئے ترقی یافتہ ممالک نے خصوصی کوششیں شروع کی ہیں ۔جہاں تک جی۔20ممالک کا سوال ہے تواس کے بیشتر ممالک میں سیاسی بحران کی وجہ سے اس بڑھتی بیروزگاری پر قابو پانے کے لئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھائے جا رہے ہیں ۔ اگرچہ ہندوستان میں حکومت کی طرف سے طرح طرح کے اقدام اٹھانے کی خبریں آتی رہتی ہیں اور بیروزگاری کو دور کرنے کا دعویٰ بھی کیا جا رہاہے مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں دنوں دن بیروزگاری سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ان میں اکثریت اعلیٰ ڈگری رکھنے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ہے جو بیروزگاری سے جوجھ رہے ہیں۔گذشتہ دنوں مدھیہ پردیش سے ایک خبر عام ہوئی تھی ، اگرچہ قومی میڈیا نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی مگر ان دنوں سوشل میڈیا کا دور ہے ، لاکھ چھپانے کے باوجود اس طرح کی خبریں باہر آہی جاتی ہیں اور عوام الناس تک پہنچ جاتی ہیں ۔مدھیہ پردیش ریاستی حکومت کی طرف سے سرکاری ڈرائیوروں کی اسامیاں نکالی گئی تھیں ڈرائیور کے محض پندرہ عہدوں کے لئے انٹرویو ہونا تھا ان میں اکثریت امیدوار پوسٹ گریجویٹ، انجنئیر، ایم بی اے اور قانون کی ڈگری رکھنے والے تھے۔ ان میں ایک امیدوار جتیندر موریہ بھی تھے جو جج بننے کے لئے جوڈیشیل سروس کی تیاری کر رہے تھے ۔ انہو ںنے جو اپنی روداد سنائی وہ نہ صرف فردِ واحدکی روداد ہے بلکہ ان جیسے لاکھوں اعلیٰ تعلیم یافتہ بیروزگاروں کی دردناک کہانی ہے۔موریہ نے ایک نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ان کی مالی حالت اتنی کمزور ہے کہ وہ مقابلہ جاتی امتحانات کی کتابیں بھی نہیں خرید سکتے ۔ ظاہر ہے کہ ملک میں شدید بیروزگار ی کی عکاسی موریہ کی زبانی ہوئی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دیگر ترقی پذیر ممالک کے مقابلے ہماری معیشت بہتر ہو رہی ہے اور ترقیاتی منصوبے بھی بنائے جا رہے ہیں لیکن بیروزگاری میں دنوں دن اضافہ ہمارے لئے فکر مندی کا باعث ہے۔حال ہی میں ملک کی ایک آزاد تنظیم سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکونومی(سی آئی ایم آئی) نے اپنی رپورٹ میں یہ تلخ سچائی عام کی ہے کہ ہمارے ملک میں بیروزگاری کی شرح 8فیصد تک ہوگئی ہے اور اس لئے عالمی بینک کے سابق چیف اکانومسٹ کوشک باسو نے بھی فکر مندی ظاہر کی ہے کہ ملک میں بڑھتی بیروزگاری بہت سے سنگین مسائل پیدا کریں گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے حکومت کون سا قدم اٹھاتی ہے ۔ کیو ںکہ معاشی بحران اور پھر ملک کے نوجوانوں کے ہاتھوں کو روزگار نہ ملنا بہت سی سماجی برائیوں کو جنم دیتی ہیں اور جس کی وجہ سے ملک میں طرح طرح کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔دنیا کے جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں اس کی معیشت پر نگاہ ڈالئے تو یہ حقیقت خود بخود عیاں ہوتی ہے کہ ان ممالک میں بیروزگاری دور کرنے اور افرادی معاشی قوت کو مستحکم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے گئے ہیں اس لئے اپنے ملک کے اندر بھی روزگار بڑھانے کی طرف سنجیدہ کوشش کرنی ہوگی تاکہ ملک کے نوجوان ذہنی پریشانیوں سے نجات پا سکیں۔
بہر کیف! یہ قومی مسئلہ ہے اور اس پر تمام تر سیاسی تعصبات وتحفظات سے اوپر اٹھ کر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے اور مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ ریاستی حکومت کو بھی روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہوں گے۔ ریاست بہار کی نتیش کمار کی قیادت والی حکومت قدرے سنجیدہ نظر آرہی ہے کہ اس حکومت نے گذشتہ تین مہینوں کے اندر دو لاکھ سے زیادہ اسکولی اساتذہ بحال کئے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ بہار میں صرف اور صرف بہار کے باشندوں کو ہی اسکولی اساتذہ کی ملازمت نہیں ملی ہے بلکہ اعداد وشمار کے مطابق بیس فیصد سے زائددیگر ریاستوں کے بیروزگاروں کو روزگار حاصل ہوا ہے۔ ان میں اتر پردیش، مغربی بنگال، جھارکھنڈ، راجستھان اور دہلی کے امیدوار کثیر تعداد میں شامل ہیں۔ ریاست بہار میں موجودہ عظیم اتحاد یعنی جنتا دل متحدہ ، راشٹریہ جنتا دل ، کانگریس اور بایاں محاذ کی حکومت ہے اور اس کی قیادت نتیش کمار کے ہاتھوں میں ہے ۔ حالیہ دو مرحلوں میں دو لاکھ سے زائد اساتذہ کی بحالی بلا شبہ ایک قابلِ تحسین قدم ہے کہ ایک طرف ایک ساتھ کثیر تعداد میں بیروزگاروں کو روزگار ملا ہے تو دوسری طرف ریاست میں اسکولی تعلیم کے ماحول بھی سازگار ہوئے ہیں مگر ایک جمہوری ملک میں خواہ کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو وہ انتخابی فائدے کو پیشِ نظر رکھتی ہے ۔ بہار میں بھی حالیہ اساتذہ بحالی کی سیاست پروان چڑھ رہی ہے اور ریاست کی راجدھانی کے تاریخی گاندھی میدان میں اجتماعی جلسوں میں اسکولی اساتذہ کو ملازمت کے پروانے دئے جا رہے ہیں اور جنتا دل متحدہ یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ریاست بہار میں نتیش کمار کی قیادت والی حکومت لاکھوں بیروزگاروں کو روزگار دینے میں کامیاب ہوئی ہے اور آئندہ دنوں میں دس لاکھ روزگار دینے کے نشانے کو پورا کرے گی۔ اگرچہ جنتا دل متحدہ اتحاد کے دعوے پر حزب اختلاف سوال بھی اٹھا رہے ہیں اور نکتہ چینی بھی ہورہی ہے کہ حکومت بیروزگار وں کو روزگار دینے کے نام پر سیاست کر رہی ہے لیکن اس حقیقت کا تو اعتراف کرنا ہی ہوگا کہ آج جب پوری دنیا میں بیروزگاری کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے اور بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے ایسے وقت میں اپنے وطنِ عزیز ہندوستان کی صورتحال بھی باعثِ فکر مندی ہے اس لئے روزگار بڑھانے کے مواقع پر سیاست سے زیادہ ملک کی بہتری اور سا لمیت کو مدنظر رکھنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔اس لئے ملک کی تمام ریاستوں کو بہار کی نظیر سامنے رکھ کر ریاست کے مختلف محکموں میں برسوں سے خالی اسامیوں کو پُر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے بھی بارہا یہ اشارہ کیا جاتا رہاہے ۔ میرے خیال میں بہار نے نہ صرف تعلیمی شعبے میں برسوں سے خالی اسامیوں کو پُر کرنے کی مہم چلا رکھی ہے بلکہ دیگر محکموں میں بھی اسامیاں آرہی ہیں اور جس کی بدولت بیروزگاروں کو روزگار مل رہا ہے۔ بالخصوص اعلیٰ تعلیم یافتہ بیروزگاروں کو روزگار حاصل ہورہا ہے جس سے بہار میں سماجی تانے بانے بھی مستحکم ہو رہے ہیں اور یہ پہل ملک وقوم کے مفاد میں ہے اس لئے دیگر ریاستوں کو بھی اس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور مرکزی حکومت کو بھی اس سنگین مسئلے پر کوئی حتمی فیصلہ کرنا ہی ہوگا اور کوئی ٹھوس پہل بھی کرنی ہوگی کہ ہمارا ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور شرح آبادی کے لحاظ سے بھی دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا