جموں کشمیر میں کانگریس کی ہار کئی وجوہات 

0
0
از قلم
بلال بھلیسی 8492022013
ملک ہندوستان میں سال 2024 کا انتخابی مہم سے لیکر آخری نتائج تک کا ایک اہم حصہ مانا جاتا ہے اگر پورے ملک کے انتخاانتخابات کی بات کی جائے تو پر امن اور سکون دہ رہا لیکن مزہب کے نام پر سیاست نہ ہو تو الیکشن میں مہیم چلانا اب مشکل سا ہو گیا ہے جس میں بی جے پی اول نمبر میں آتی ہے چاہئے انکے وزیراعظم کے امیدوار ہو یا کوئی اور جن کی سیاست سال 2014 سے مزہب کے م سے شروع ہوئی تھی جس مسلمانوں کو بچہ زیادہ کرنے کی مشین بھی بتایا گیا اور مسجد کو مندر بنانے کا بتایا گیا وہی دوسری طرف جموں وکشمیر کے نام سے ملک بھر میں بے ہدہ الفاظ کا استعمال کیا گیا 370.  کی منسوخی کے نام سے ووٹ لیا گیا لیکن جس کشمیر کے نام سے ووٹ لیا گیا وہی سسے بی جے پی چناوی میدان سے دور رہی دراصل انہیں اندرونی معاملات اور معلومات فراہم کی جاتی تھی کہ کشمیر سے آپ کی جیت کبھی بھی نہیں ہو سکتی ہے جبکہ جموں خطے سے دو پارلیمانی نشستتوں سے جیت پکی پکڑ میں تھی کیونکہ جموں خطے میں ایک تو ہندو دھرم کی آبادی کشمیر سے زیادہ ہے اور جموں خطے میں ہندو مسلم کے نام سے سیاست کرنا کافی کامیاب رہتا ہے اور جموں خطے کے ہندو دھرم نے دفعہ 370 کی منسوخی پر خیر مقدم بھی کیا گیا تھا
لیکن اس بات کا لکھنا بھی ضروری ہے کہ کانگریس کے امیدوار بھی کسی مسلم گھر آنے سے نہیں تھا اس کے باوجود کیوں ہار گئے دراصل کانگریس پارٹی میں کچھ کمی پائی جاتی ہیں جو اس مضمون میں اول حصہ میں ذکر کیا ہے
کانگرس جماعت جو ملک بھر میں ہے اس گانگرس سے جموں و کشمیر کی کانگرس الگ حال میں ہے چناوی مہم میں کچھ کمیا پائی گئی جو منظر عام اور ان پر زیر غور کرنا پارٹی کی اول ترجیح ہو گی جن کانگرس صدر سے لیکر ایک ایک ورکرز کو خیال میں لانا لازماً ہے کہ کانگرس ورکروں سے لیکر امیدوار تک یہ سوچیں کہ ہار کیوں ہوئی جن میں زیر فہرست غلطیاں ہیں
1 ضروری نہیں ہے کہ ہر فرد کے گھر تک دروازہ پیسہ دیا جائے لیکن بڑے بڑے دفاتر جا کر لوگوں کے رکے ہوئے مسائل کو حل کیا جائے اور دفاتر میں کام کرنے والے عملہ کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں اور ہر دفتر میں پوچھیں عوام کیلئے اسکیمیں جو آتی ہیں کیا اس کا فائدہ زمینی سطح تک مل رہا کہ نہیں لیکن انہیں نوجوان کہا جاتا ہے لیکن سوچ بچپن کی ہی ہے
2 کانگرس میں ورکران اور امیدوار جب لوگوں سے ملنے جاتے ہیں وہ صرف اپنی جیت کا ذکر کرتے ہیں ووٹ مانگنے کا اصل طریقہ دریافت نہیں اور 2 منٹ وقفہ کے بعد ہی گمشدہ ہو جاتے ہیں
3 جہاں ملک بھر میں سوشل میڈیا نے بی جے پی کو ناک میں دم کرکے رکھا تھا وہاں جموں خطے میں کانگرس کے ساتھ مرکزی میڈیا تو دور سوشل میڈیا بھی ساتھ نہ تھی جبکہ انکا رویہ انکے ساتھ بھی اچھا نہیں ہے جبکہ اس کارآمد چیز سے بھی انہیں تعلقات اچھے نہیں
4 امیدوار کی فہرست جمع کی نماز کی طرح آتی ہے جبکہ اس کام کو ایک سال پہلے کیا جانا ضروری ہے اور امیدوار کو ایک ترازو میں تول کر دیکھنے کے بعد میدان میں لانا لازمی ہے امیدواروں کے پاس زہینی طور پر سیاسی مولومات ہونا لازمی ہے( آنے والے اسمبلی انتخاب کیلئے )
5 گانگرس کی دور حکومت سے لیکر آج تک اندرونی جنگ نے جموں وکشمیر میں اپنی زمینی صطح پر اس نقصان اٹھا رہی ہے جبکہ ورکران بھی جلسوں کی طرف آنے میں کمی کرتے ہیں جلسوں میں حصہ لینا ایک اہم اور رنگارنگ شان ہوتی ہے لیکن اس کی طرف کوئی فیصلہ نہیں لیا جاتا ہے
6 گانگرس میں نوجوانوں نے جہاں ہر ممکن کوششیں کی ہیں انکو پھر بھی نظر انداز کیا جاتا ہے اور انہیں صفعہ اول میں جگہ نہیں دی جاتی ہے اور انہیں بولنے کا موقع نہیں ملتا ہے جس سے نوجوانوں میں روش پیدا ہوتی ہے
7 جو خاص ورکر پارٹی میں مانے جاتے ہیں وہ اعلیٰ سطح کے ورکروں اور امیدواروں سے ووٹ کی قیمت حاصل تو کرتے ہیں لیکن وہ انکے جیب کو ہی گرم کرنے میں بھلائی سمجھتے ہیں جبکہ نعرہ دینے واالے کو کم عقل سمجھ کر کھا جاتے ہیں لیکن اگر اس لئے گئے رقم کو ورکر کے ہاتھوں میں تما دیتے تو ورکر ایک کے بدلے دو ورکر بنانے میں مصروفیت رکھنے میں پہل کرتا
8 کانگرس پارٹی ہر ووٹر سے ملاقات کرنے کے بجائے اپنے بلاک کے عہدہ سنبھالنے والو کو جب پوچھتے ہیں کہ گاؤں یا پنچایت کا ماحول کیا ہے تو جواب میں کہا جاتا ہے کہ یہ سارا علاقہ اپنے جیب میں ہے اور اسے امیدوار کو کافی نقصانات ہوتے ہیں جبکہ حقیقت میں وہ ان کے سامنے اپنے جاتے تک نہیں ہیں
9 جموں کشمیر پردیش کانگرس کمیٹی کام کرتی ہے وہاں پر جہاں پر بھاجپا کمزور ہوتی ہے اور جہاں پر بی جے پی اصل اقدار میں ہوتی ہے وہاں سے خطاب کرنے میں ڈر کیوں لگتا ہے اور اپنے حلقوں کے نزدیکی علاقوں میں وہ اپنا ووٹ سمجھتے سمجھتے ان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں دراصل وہی سے ہار کا سبب اس پارلیمانی انتخاب میں ہوا
10 اور آخری وجہ جس وقت بھی کوئی اہم بات کرنی ہوتی ہے اس وقت کوئی بھی بات باتیں نہیں کی جاتی ہے جیسے کسی نئی بات پر عمل ہو یا کسی کو تنز کرنا ہو یا کسی سیاسی جماعتوں نے کوئی مسئلہ کہا ہو اس کے جواب ہو کوئی بھی بات نہیں کی جاتی ہے
*اب جموں کشمیر میں آنے والے اسمبلی انتخاب کا اگر اعلان ہو تو گانگس کی جیت یا ہار*
ہندوستان کے چیف الیکشن کمیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ پارلیمانی انتخاب کے بعد جموں و کشمیر میں اسمبلی الیکشن کرائے جائیں گے لیکن کا اس کے لئے کانگریس پارٹی اپنی جیت کتنے حلقوں سے لے سکھتی ہے جس میں چناپ ویلی پر سب سے زیادہ نظر بنائے ہیں کیوں اس بار کانگرس پارٹی سے کافی وہ لیڈر جو خطہ چناب سے جیت لیا کرتے تھے لیکن اب وہ دوسری جماعت کے ساتھ اور کچھ نے اپنی پارٹی بنائی ہے جیسے غلام نبی آزاد ۔ جی ایم سروڑی.  مجید وانی کے ساتھ ساتھ وہ بلاک صدر جو کانگرس سے وابستہ تھے اور کانگرس کو کافی اقتدار ملتا تھا لیکن اس بار کانگرس چناب ویلی سے صرف دو یا تین حلقوں سے جیت کر سکھتی ہے جن میں بانہال کا حلقہ سے وقار رسول وانی حلقہ رامبن سے اگر پرانے امیدوار کی اگر لوگوں میں انکا رجحان اچھا رہا تو ورنہ آنے والے وقت ہی طہ کرے گا کیا حالات و واقعات ہونگے
اب ڈوڈہ ضلع سے بھدرواہ سے ہار کا سامنا ہوگا کیونکہ اس حلقہ میں کانگرس زمینی سطح سے کافی دور ہے اور پہلا الیکشن کانگرس کو ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے اب ڈوڈہ ٹھاٹھری والا حلقہ سے جس امیدوار کا نام ہے اس کی کافی کمیاں دیکھنے کو ملتی ہیں لیکن تا ہم انکی کوششیں جو جاری ہیں انکی تعریف کرنا لازمی ہے کیونکہ انہوں نے ہر کسی کو مالی امداد کرنے میں پہل کرتے نظر آتے ہیں اور پارلیمانی انتخاب کے دوران کافی محنت کی اس کا پھل بھی مل سکھتا ہے لیکن جہاں خوبیاں پائی جاتی ہیں وہاں کمیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں جیسے لیڈر کے پاس سیاسی اعتبار سے بول کا ہونا لازمی ہے لیکن امیدوار میں اس کی سب سے بڑی کمی ہے جسے دیکھ کر یہ بولنا لازمی ہے کہ اب اس حلقہ میں امیدوار کتنا اس راستے کو کامیاب بناتا ہے آنے والے وقت میں بتا دیں گے امیدوار کا نام جموں و کشمیر کانگرس کے صدر وقار رسول وانی نے ریاض احمد شیخ جو گھٹ سے تعلق رکھنے والے ہیں اب یہ بھی ضروری ہے کہ کیا امیدوار کو قائم رکھا جائے گا یا نہیں دوسری نشست جسے جیت حاصل ہو سکتی ہے ۔۔ہو سکتی ہے نہ کہ جیت پکی ہے۔۔ اب کشتواڑ حلقے سے ابھی تک گانگرس پارٹی کا کوئی بھی امیدوار کا نام سامنے نہیں آیا ہے نہ ہی کوئی ذکر ہے اسلئے اس ضلع کی بات کرنا لازمی نہیں ہے اور نہ اس ضلع سے جیت حاصل ہو گی
اب جموں کے چار ضلع کا کہنا کوئی ممکن بھی نہیں ہے کیونکہ اس حصہ میں کانگرس کیا ردعمل پیش لاتی ہے اور کس چیز کو لے کر الیکشن میں آئے گی اسے حساب سے کہا جائے گا
لیکن ان تمام باتوں کو مد نظر رکھنا لازمی ہے کہ کانگرس کس منظر عام پر الکیشن میں ہے اسی حساب سے وہ قدم آگے بڑھا پائے گی.  وسلام
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا