پہاڑی لوگوں کے مطالبے پورا ہونا باقی
زبیر قریشی ولی وار لار گاندربل کشمیر 7006576629
جموں کشمیر کو جب سے یونین ٹریٹری کا درجہ ملا ہے تب سے خطے میں رہ رہے پہاڑی لوگوں کی یہ اُمنگ نئے ولولے کے ساتھ جاگنے لگی ہے کہ انکی دیرینہ مانگیں پوری کی جائیں گی۔جموں کشمیر کا خطہ جب تک ریاستی درجہ پر رہا تب تک پہاڑی قوم کو بارہا یقین دلایا جاتا رہا کہ ان کی مانگیں پورا کرنے کی خاطر ہر طرح کے اقدام کئے جائیں گے لیکن حقیقت کچھ اور بتاتی ہے سو اب جبکہ مرکز نے جموں کشمیر کا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لیا ہے پہاڑی قوم غیر معمولی شدت کے ساتھ اُمید کرنے لگی ہے کہ انکے کلچر، زبان، ادب، تمدن،اور دیگر کلیدی عناصر کو بہ درجہ اُتم تحفظ بخشنے کے لئے مرکزی حکومت ایسا لائحہ عمل اختیار کرے گی جو ان کی توقعات کے عین مطابق ہو گا اور یوں وہ تمام وعدے وفا ہوں گے جو اب تک کی سرکاریں ان سے کرتی آئی ہیں۔ جموں و کشمیر میں پہاڑی زبان بولنے والے لوگ عرصہ دراز سے شیڈیولڈ ٹرائب درجہ کا مطالبہ کررہے ہیںحالانکہ پہاڑوں میں ان کے ساتھ بسنے والے گوجر بکروالوں کو 1991سے شیڈیولڈ ٹرائب کا درجہ دیا گیا ہے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سابقہ ریاست میں ہر ادوار کی سرکاروںنے کئی بار پہاڑی لوگوں کو شیڈیول ٹرائب درجہ فراہم کرنے کی مرکز سے سفارش کی لیکن … آج تک اسے منظوری نہیں ملی سکی اور پہاڑی طبقے کی یہ دیرینہ مانگ تاحال منظوری کی منتظر ہے۔ اب چونکہ جموں کشمیر مرکز کے زیر انتظام آء چکا ہے ثو یہ لوگ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ انکے مطالبات کی جانب سنجیدگی سے غور کیا جائے گا ۔ یوں تو پہاڑی زبان سابقہ ریاست جموں وکشمیر کے آئین کے چھٹے شیڈیول میں بھی شامل تھی مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہر ادوار کی سرکاروں نے اس زبان کے بولنے والوں کی فلاح و بہبود کے لئے وہ اقدام نہیں کئے جو دوسرے قبائل مثلاً گجر بکروالوں کی بہتری اور ترقی کیلئے کئے جبکہ ان دونوں زبانوں کے بولنے والوں کا رہن سہن اور خطہ تقریباًا یک جیسا ہی ہے۔ ملک کے بٹوارے کا شکار ہوئی یہ قوم آج بھی اپنے وجود اور تشخص کے لئے جدوجہد کررہی ہے ۔ بٹوارے نے اس طاقتور ، نڈراور مستحکم قوم کو شدیدزک پہنچایا جس سے یہ با اثر و طاقتور قوم دو حصوں میں بٹ کر کمزور ہو گئی۔ اس قوم کو اپنے کھوئے ہوئے وقا ر اور تشخص کو بحال کرانے کے لئے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے ایک طویل جدوجہد کرنا پڑی۔ سال 1970 میں ’جموں اینڈ کشمیر پہاڑی کلچر اینڈ ویلفیئرفورم‘ کا قیام کرناہ کے ایک مایا ناز سپوت ایڈوکیٹ نوراللہ قریشی نے عمل میں لایا ۔ اس فورم کا باقاعدہ آئین بنا اور اس طرح جدوجہد کا آغاز ہوا۔ فورم کے بینر تلے جو کام ہوا وہ قابل ستائش ہے ۔ علاوہ ازیں متعدد سیاسی ، سماجی سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں اور شخصیات نے بھی اجتماعی اور انفرادی طور پر، قوم کے کھوئے ہوئے وجود کے لئے جدوجہد کی اور اقتدار میں آنے والی متعدد حکومتوں سے اپنے اس جائز مطالبہ کو منوانے کی بھر پور کوشش کی۔ سابقہ ریاستی کابینہ نے سال 1989کو کابینہ فیصلہ نمبر159کے تحت مرکزی سرکار سے پہاڑی قبیلہ سمیت 7قبائل کو ایس ٹی کادرجہ دینے کی سفارش کی۔ 1991میں جب مرکز نے اس وقت کی ریاست جموں وکشمیر کے 7قبائل بشمول گوجر بکروالوں کو ایس ٹی کا درجہ دیاتو پہاڑی قبیلہ کو نظر انداز کیاگیا جوکہ سفارش میں پہلے نمبر پرتھا ۔ 14اکتوبر 1991کو اس وقت کے جموں وکشمیر کے وزیر اعلی ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے مرکزی سرکاری سے پہاڑیوں کے ایس ٹی مطالبہ کو پورا کرنے کی سفارش کی۔ 26دسمبر1993کو جموں وکشمیر کے گورنر’کے وی کرشنا رائو نے سرکاری طور مرکزی وزیر برائے سماجی بہبود سیتا رام کیسری کو مکتوب لکھا جس میں پہاڑی طبقہ کو ایس ٹی زمرہ میں شامل کرنے کی پرزور سفارش کی۔ نہ صرف ریاستی سطح بلکہ ملکی سطح کے حکمرانوں نے بھی پہاڑی طبقہ کو جائز حق دلانے کا وعدہ کیا۔ سال 2005کو آئے بھیانک زلزلہ کے وقت جب، اس وقت کے صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام، وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور اس وقت کانگریس قیادت والی یوپی اے حکومت کی چیئرپرسن سونیا گاندھی نے اوڑی میں دورہ کیاتوزلزلہ متاثرین پہاڑیوں نے مالی امداد لینے سے انکار کرتے ہوئے مانگ کی کہ انہیں ایس ٹی کا درجہ دیاجائے۔ اس دوران مذکورہ تینوں شخصیات نے طبقہ سے وعدہ کیاتھا کہ ان کی مانگ کو پورا کیا جائے گا ۔ سابقہ وزیر اعظم ہند اٹل بہاری واجپئی کے دورہ کرناہ کے دوران بھی لوگوں نے یہی مطالبہ دوہرایا جس پر واجپئی نے یقین دلایاکہ ان کے مطالبہ کو پورا کیاجائے گا۔ اس ضمن میں واجپئی نے مرکزی وزارت سماجی بہبود کو مکتوب بھی لکھا۔ 29مئی 2001کو ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے بطور وزیر اعلیٰ دوبارہ مرکزی حکومت سے یہی سفارش کی ۔ سال 2004اور2005میں جموں وکشمیر کے وزیر اعلی مفتی محمد سعید کی قیاد ت والی ریاستی کابینہ نے مرکز سے ایک بار پھر اس مطالبہ کی منظوری کی سفارش کی۔ جموں وکشمیر اسمبلی میںمتفقہ طور قرار داد بھی پاس کی گئی جس میں مرکزی حکومت سے پرزور اپیل کی گئی کہ پہاڑیوں کو ایس ٹی کا درجہ دیاجائے۔ جسٹس صغیر کمیٹی رپورٹ میں بھی پہاڑی قبیلہ کو ایس ٹی درجہ دینے کی بات شامل تھی۔ مرکزی سرکار کی طرف سے مقرر کردہ تین مذاکراتکاروں نے بھی اس مطالبہ کی سفارش کی۔ سال2002میں ڈاکٹرسوشیل کمار اندورہ کی سربراہی والی لیبر اور ویلفیئر پر اسٹینڈنگ کمیٹی نے بھی حکومت سے اس کی سفارش کی اور کہاکہ جموں وکشمیر میں حدمتارکہ کے نزدیک رہنے والے پہاڑی طبقہ کا طرز زندگی گوجربکروالوں جیسا ہے اور انہیں بھی ایس ٹی درجہ دیاجانا چاہئے۔ سرینگر میں پہاڑی طبقہ کی طرف سے کئی مرتبہ للکار ریلیاں بھی نکالی گئیں جس میں پونچھ ،راجوری، اوڑی اور کرنا ہ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ سال 2007میں جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے بھی حکومت سے کہاتھاکہ طبقہ کے اس دیرینہ مطالبہ کو پورا کیاجائے۔ اکتوبر 2014میں جموں وکشمیر میں این سی۔ کانگریس مخلوط سرکار نے پہاڑیوں کو ایس ٹی کا درجہ ملنے تک پانچ فیصد ریزرویشن دینے کا بل پاس کیاجس کو گورنر کے پاس منظوری کے لئے بھیجا گیا۔ گورنر نے اس پر کچھ اعتراضات ظاہر کئے، جنہیں دور کیاگیا۔ ریاستی بیکورڈ کلاس کمیشن نے طبقہ کو3فیصد ریزرویشن دینے کی سفارش کی جس کو بنیاد بناکر سابقہ حکومت نے اسمبلی میں بل پاس کیا۔ سب سے پہلے 1989 میں کابینہ آرڈر زیر نمبر 159کے تحت اس وقت کے ریاستی وزیر اعلی ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے دیگر طبقوں کے ساتھ پہاڑی عوام کو بھی ایس ٹی درجہ دیئے جانے کی مرکز سے پہلی بار سفارش کی، جس کے بعد ہر گورنر نے اورپھر مفتی محمد سعید، غلام نبی آزاد ،عمر عبداللہ اور پھر محبوبہ مفتی نے بھی مرکز کو سفارشات بھیجیں ۔ اس کے علاوہ کئی وفود جن میں کل جماعتی وفد اور مذاکرات کاروں کی ٹیم قابل ذکر ہے، کے ساتھ جسٹس صغیر نے بھی پہاڑی عوام کو ایس ٹی درجہ دینے کی مرکز کو سفارش کی۔ مرکزی وزارت داخلہ نے پہاڑی طبقہ کی اقتصادی وسماجی صورتحال جاننے کے لئے Socio-Economic Surveyکروایا جس نے طبقہ کے حق میں اپنی مفصل رپورٹ پیش کی، اور اسی رپورٹ کو سابقہ پی ڈی پی۔ بی جے پی مخلوط حکومت نے اس وقت کی ریاستی کابینہ میں منظوری دیکر اپنی سفارش کے ساتھ مرکزی حکومت کو بھیجا البتہ ابھی تک یہ معاملہ التوا میں پڑا ہے۔ پی ڈی پی۔ بی جے پی کے بیچ طے پائے ایجنڈا آف الائنس میں بھی پہاڑیوں کو شیڈیولڈ ٹرائب کا درجہ دینے کی بات کہی گئی تھی لیکن انکی حکومت گرنے تک انہوں نے اس پر خاموشی اختیار کئے رکھی۔ دیکھا جائے تو پہاڑی لوگوں کو ایس ٹی کا درجہ دئے جانے کی بھر پور جوازیت موجود ہے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑی آبادی والے علاقوں میں نہ تو صنعتوں کا تعارف ہوا ہے اور نہ ہی فائدہ بخش روزگار کمانے کے کوئی دیگر وسیلے فراہم کئے جا سکے ہیں ۔ مالی کم مائیگی کے سبب پہاڑی لوگ اکثر اپنے بچوں کو معقول تعلیم دلانے میں پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ اور یوں یہ طبقہ معاشی سماجی، تعلیمی یہاں تک کہ سیاسی اعتبار سے بھی پستی کا شکار رہا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں چوں کہ موبائل سکولوں کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے لھذا اس طبقے سے وابسطہ بیشتر بچے شاز ہی سکول کا منہ دیکھ پاتے ہیں۔ یہ بھی ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے کہ گجر بکروال طبقے کو قبائل کا درجہ دئے جانے کے نتیجے میں اب پہاڑی لوگ نچلے زمروں میں بھی ملازمت حاصل کرنے سے محروم ہو رہے ہیں ۔ اور ایک ہی خطے میں ایک ہی طرزکا رہن سہن ہونے کے باوجود سوتیلے پن کا شکار یہ لوگ ذہنی کوفت سے بھی دو چار ہو تے نظر آء رہے ہیں ۔ سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ والی کابینہ نے پہاڑیوں کو 5فیصد ریزرویشن دینے کی سفارش گورنرکی طرف سے ردکئے جانے کے بعد پی ڈی پی ۔ بی جے پی مخلوط سرکار نے 3فیصد ریزرویشن بل کو قانون ساز اسمبلی اورکونسل میں پاس کرنے کے بعد سابق گورنر این این ووہرا کو منظوری کے لئے بھیجا جس کومنظوری نہیںملی سکی اور نا ہی نئے گورنراور ناہی لیفیٹنٹ گورنر نے اس پر نظر ثانی کی۔پہاڑی لوگ حیران ہیںاورپوچھتے ہیں کہ آخر کن وجوہات کی بنا پر انہیں3فیصد ریزرویشن بھی نہیں دیا جارہا ہے۔ اب جبکہ جموں کشمیر مرکز کے زیر انتظام آ چکا ہے اور جموں کشمیر کے سارے امور مرکز میں ہی طئے ہوتے ہیں تو پہاڑی لوگ یہ اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ مرکز انکے ان دیرنہ مطالبات کو سنجیدگی سے لے کر انہیں پورا کرے گی۔
پہاڑی کون ہیں : جموں و کشمیر کرہ ارض پر جس طرح اپنے قدرتی حسن و جمال اور رنگ برنگے مناظر کے اعتبار سے منفرد و یکتا حیثیت کا حامل ہے اسی طرح مختلف زبانوں اور بولیوں کے اعتبار سے بھی ایک خوبصورت اور منفرد گلدستہ ہے ۔ جس میں درجنوں زبانیں اور بولیاں اپنے مخصوص اور خیرت انگیز ادبی خصوصیات ،لوک ورثے،لوک روایات ، لوک عقائد اور لوک ادب کی وجہ سے پورے عالم کواپنی جانب متوجہ کراتی ہیں ۔ وادی کے اطراف و اقناف میں بولے جانے والی انہی زبانوںمیں ایک زبان ہے ’پہاڑی‘۔ پہاڑی زبان اور اس کے بولنے والوں کو پہاڑوں کی نسبت سے ہی پہاڑی کہا جاتا ہے ۔ پہاڑی کے لفظی معنی ’پہاڑوں کی‘ یا’ پہاڑوں سے ‘متعلق کے ہین۔ لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں لیا جا سکتا کہ صرف پہاڑوں کے بسنیکوں کو ہی پہاڑی کہا جائے۔ دراصل ’پہاڑی ‘سے مراد وہ مخصوص طبقہ ہے جو پہاڑی زبان بولتا ہے جن کی اپنی تہذیب و تمدن،ثقافت، رسم و رواج، لباس اور رہن سہن ہے ۔ اس طبقہ کی سب سے بڑی اور مخصوص شناخت یہی ہے کہ یہ پہاڑی زبان بولتے ہیں، جیسے کشمیری زبان بولنے والوں کو کشمیری ، ڈوگری بولنے والوں کو ڈوگری، اور لداخی بولنے والوں کو لداخی کے نام سے جانا جاتا ہے ٹھیک اسی طرح پہاڑی زبان بولنے والوں کو پہاڑی کہا جاتا ہے ۔ پہاڑی زبان ہندوستان کے کئی خطوں میں بولے جاتی ہے جیسے ہماچل پردیش کے علاقے گڑھوال ، شملہ کے پہاڑی خطے ، جموں و کشمیر میں کرناہ کپواڑہ ، کیرن، اوڑی بارہمولہ، پونچھ‘راجوری‘ کلگام‘شوپیان‘ اننت ناگ، گاندربل اور دیگربستیاں، جبکہ پاکستان زیر انتظام کشمیر میں ، مظفرآباداور میر پور کے کئی علاقاجات میں اس زبان کے لاکھوں بولنے والے موجود ہیں۔ گریرسن اورمتاَخرین ماہرین لسانیات نے پہاڑی زبان کو زبانوں کے ہند آریائی خاندان کے’ پشاچہ ‘یا’ دردی‘ گروہ کا ایک ذیلی گروہ شمار کیا ہے جسے مزید تین گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر چھوٹے گروہ میں کئی زبانیں اور بولیاں شامل ہیں ۔ اس سے یہ بات عیاں ہوئی کہ پہاڑی صرف ایک زبان نہیں بلکہ زبانوں کا ایک گروہ ہے جس میں جموں و کشمیر میں بولی جانے والی پہاڑی بھی شامل ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ برصغیر ہند وپاک کی زبانوں پر ابتدائی کام مشہور ماہر لسانیات گریرسن نے کیا ہے۔ بعض خامیوں کے باوجود تمام متاخرین لسانیات نے اپنے تحقیقی کام کی بنیادیں اسی پر رکھتے ہوئے اسے بطور سند تسلیم کر لیا ہے۔ گریر سن کی تقسیم کے مطابق ہند آریائی خاندان کے پشاچہ گروہ کے اس ذیلی گروہ یعنی پہاڑی زبانوں کے گروہ اور اس کی حدود کی تفصیل یہ ہے کہ انتہائی مشرق میں کھس کورا (Khas-Khora ) یا مشرقی پہاڑی بولی جاتی ہے جسے عام طور پر ’نیپالی ‘کہا جاتا ہے ۔گڑھوال کے علاقہ میں بولے جانے والی پہاڑی جسے گڑھوالی یا کماونی بھی کہا جاتا ہے کو سینٹرل یا وسطی پہاڑی کا نام دیا گیا ہے جبکہ جانسر، باور، شملہ کی پہاڑی ریاستوں کلو منڈی، سکت، چمبہ اور مغربی کشمیر میں بولے جانے والی پہاڑی کو مغربی پہاڑی زبانوں کے گروہ میں شامل کیا گیا ہے۔ پہاڑی زبان کا تعلق کھکھہ قبائل سے ہے جنہیں گریرسن اور اس کے ہم خیال ماہرینِ لسانیات نے کھاشہ قبائل کہا ہے۔ جب کہ بعض محققین کے مطابق کھاشہ قبائل کو تاریخ کی کتب میں’ کشان ‘ اور ’ اخشان‘ بھی کہا گیا ہے ۔ کھاشہ قبائل بر صغیر ہند و پاک میں وارد ہونے والے آریا ئوں کا وہ گروہ ہے جو اپنے اصل وطن مشرقی یورپ اور وسط ایشیا سے ہجرت کر نے کے بعد صدیوں مشرقی ایران میں قیام پزیر رہا اور 1500 قبل مسیح میں گلگت بلتستاں ( دردستان) اور پھرکشمیر میں آ بسا ۔گریرسن نے کھاشہ قبائل کی زبان کو سنسکرت سے قریب اور ایرانی سے ہم آہنگ بتایا ہے ۔ لیکن پہاڑی زبان کے اس وسیع العریض گروہوں میں جب گریرسن اُلجھ گیا تو اس نے اپنی جان چھڑانے کی خاطر پہاڑی کو Unspecifide لکھ دیا۔ پہاڑی زبان کے مشہور و معروف سکالر اور ماہر لسانیات میاں کریم اللہ قریشی کرنائی اس گتھی کو سُلجھاتے ہوئے لکھتے ہیں ’’گریرسن نے پہاڑی گروہ کی زبانوں کو تین گروہوں یعنی مشرقی، وسطی، اور مغربی میں تقسیم کرکے انکا مطالعہ آسان بنانے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن وہ ہند آریائی زبانوں کے پہاڑی گروہ کے بہتے دریا جیسے بے مثال تسلسل کے باعث تذبب کا شکار ہو کراس وقت کی ریاست جموں و کشمیر کی پہاڑی زبان کو بے تصریح کہنے پر مجبوہو گیا اور اس کا بین ثبوت ہے کہ وہ نہ صرف جموں و کشمیر میںپہاڑی زبان کی حدود ہی، جو جموں کشمیر کے باہر تک ہیں، متعین نہیں کرسکا بلکہ خطے کی اس زبان سے متعلق بھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا ۔‘‘ گریرسن کے تحقیقی کام میں اس کمزوری کے باعث جموں و کشمیر میں پہاڑی زبان بولنے والوں کو ستر کی دہائی کے اوائل میں ریاستی کلچرل اکیڈمی، ریڈیو کشمیر اور ٹیلی ویژن پہ اس کا وجود تسلیم کرانے میں تلخ اور طویل مراحل سے گزرنا پڑا ۔ پہاڑی زبان کا قدیم ادب جو بودھ دور میں شاردا کے مقام پر ’ شاردا رسم الخط ‘یا ’شاردا لپی‘ میں تخلیق ہوا تھا وہ اپنے اس رسم الخط سمیت حادثات زمانہ کی نذر ہو کر معدوم ہو گیا ہے۔ پہاڑی کے جس موجود دستاب ادب کو ہم قدیم یا کلاسیکی ادب کا نام دیتے ہیں وہ فارسی رسم الخط میں ہے جو بیسویں صدی کے پہلے ربع کے بعدتخلیق ہوا ہے۔ اس قدیم پہاڑی ادب میں میاں محمد بخشـــؒؒ کی تصانیف بالخصوص مثنوی ’سیف الملوک‘ جس کے رسم الخط کو کلچرل اکادمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز سرینگر کے شعبہ پہاڑی نے رسم الخط کے طور اپنایا ہے کے علاوہ مولوی دلپذیرؔ، مولوی عبدالعزیزؔ، اور مولوی عبدالستار کی نظم کردہ کتب بعنوان’’ قصص المحسینین‘‘، سی حرفی محمد بوٹا ؔ، سی حرفی مولوی موکھڑ ؔوالے ،سی حرفی میاں ھدایت اللہؔ، سی حرفی بردؔ، سی حرفی بابا جی لارویؒ، سی حرفی میاں نظام الدین لارویؒ وغیرہ کی کتب کو شامل کیا جا سکتا ہے ۔ ان کتب میں پہاڑی لہجے کے بھر پور استعمال کے ساتھ ساتھ ساٹھ سے ستر فیصد پہاڑی الفاظ و اصطلاحات اور ضرب الا مثال استعمال کی گئی ہیں گو کہ بیچ بیچ میں پو ٹھوہاری رنگ بھی نظر آتا ہے لیکن محققین یا قارئین کے لئے یہ حقیقت مد نظر رکھنا اشد ضروری ہے کہ زبان کی حدود بندی کا حتمی تصور ممکن نہیں۔ پہاڑی لوک ادب میں حمد ،نعت، سوہلے، منقبت، گیت، کہانیاں، داستانیں، ضرب الامثال ،چٹکلے اور پہیلیاں کثیر تعداد میں موجود ہیں ۔ لوک گیتوں میں مختلف رسوم و رواج بالخصوص شادی بیاہ کے سینکڑوں گیتوں کے علاوہ ہجر وفراق، سماجی ناہمواری، دنیا کی ناپائداری اور کئی دوسرے سماجی موضوعات ست متعلق سینکڑوں کی تعداد میں لوک گیت شامل ہیں ۔ پہاڑی زبان میں جدید ادب کی تخلیق بیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں شروع ہوئی ۔اس کی کئی اور وجوہات بھی ہو سکتی ہیں لیکن محققین اس حقیقت سے بھی صرف نظر نہیں کر سکیں گے کہ پہاڑی جموں و کشمیر کی دوسری علاقائی زبانوں میں تخلیق کا آغاز جموں کشمیر سر زمیں کی طرح اس کے مکینوں کے دو حصوں میں بٹنے کے باعث ہوا۔ اپنوں سے بچھڑنے کا رنج داستانوں ،کہانیوں اور پر سوز گیتوں کی شکل میں ظہور پزیر ہوا اور اس طرح تخلیق کا ایک سلسلہ چل نکلا ۔پہاڑی زبان میں 1950 کے بعد جنگ بندی لائن کے آر پار تخلیق ہونے والے اس ادب میں خواہ وہ نظم ہے یا نثر ہجر و فراق کا ہی رونا رویا گیا ہے اور تمام اصناف ادب میں سوز و گداز کا رنگ نمایاں ہے گو کہ 1947 کے بعد اکا دُکا ادباء و شعراء نے پہاڑی زبان میں لکھنا شروع کر دیا تھا لیکن جموں کشمیر میں اس کا باضابطہ آغاز 1978میں جموں وکشمیر اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگو یجز سرینگر میں پہاڑی شعبہ کے قیام کے بعد ہوا جو پہاڑی زبان کے نامور دانشور اور فائونڈر اینڈ چیئرمین آف آل جموں اینڈ کشمیر پہاڑی ویلفئر فورم ایڈوکیٹ نور اللہ قریشی اور ان کے ساتھیوں کی انتھک کوششوں سے قائم ہوا ۔ یہاں اپنے قارئین کی دلچسپی کے لئے عرض کرتا چلوں کہ پہاڑی زبان کا پہلا سٹیج ڈرامہ ’کریما‘ وادی کرناہ کے مایہ ناز موسیقار، گلوکار اور محقق جناب عبدالرشید قریشی نے لکھا جو کرناہ اور اوڑی کے طول و عرض میں1974سے1978 تک بیسوں مرتبہ سٹیج ہوا۔
پہاڑی زبان کا پہلا افسانہ ’’ مٹھو بیہا بیہاپاس اے‘‘ اور پہلا ناول ’’ چٹک ‘‘(غیر مطبوعہ) پہاڑی زبان کے نامور ادیب،دانشور، سکالر، شاعر اور محقق جناب میاں کریم اللہ قریشی کرنائی نے 1977میں تخلیق کیا۔ پہاڑی نثریات کا آغاز2اکتوبر 1982 کو مہاتما گاندھی کے جنم دن کے موقعے پر ہوا۔ پہاڑی میں ناول ایک آدھ ہی لکھا گیا ہے لیکن اب ناول لکھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے جبکہ انشائے بھی لکھے گئے ہیں۔ پہاڑی زبان میں پہلا انشائیہ ’’ کھوتا‘‘ محمد سرور ریحان کی تخلیق ہے۔ شعر و سخن کے میدان میں پہاڑی شاعری کی بعض مخصوص اصناف مثلاً سی حرفی، بارہ ماہ، چار بیتہ کے علاوہ حمد نعت، منقبت، مرثیہ، قصیدہ، نظم، غزل،قطعہ، رباعی، مسدس، اور گیت کثرت سے تخلیق ہو رہے ہیں۔
پہاڑیوں کی منفرد تہذیب ،ثقافت ،تمدن، رسم و رواج، لباس، رہن سہن ، عقائد اور اس زبان کا قدیم اثاثہ اس کے شاندار، عظیم ماضی کامنہ بولتا ثبوت بھی ہے اور دلیل بھی۔ یوں تو پہاڑی زبان سابق ریاست جموں وکشمیر کے آئین کے چھٹے شیڈیول میں شامل تھی مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ دور کی سرکاروں نے اس زبان کو وسعت دینے اور اس کی ترویج اور ترقی کے لئے وہ اقدام نہیںکئے جو اس کی ہمعصر زبانوںکیلئے کئے گئے۔اس طرح یہ زبان سوتیلے سلوک کا شکار ہوتی نظر آرہی ہے۔ ہر دور میں اس زبان کی بہتری ، اس کے اثاثے کو تحفظ دینے ، پہاڑی زبان کو تدریسی عمل میں شامل کرنے ، یونیورسٹی میں پہاڑی شعبے کا قیام عمل میں لانے اور پہاڑی ڈکشنری کو تکمیل تک پہنچانے کے وعدے تو دئے گئے مگر ان وعدوں کو وفا کون کرے۔
زبیر قریشیولی وار لار گاندربل کشمیر
7006576629Zubi.rock26@gmail.com