جذبہ خلق خدمت سے سرشار نوجوان سماجی کارکن چودھری الطاف نظامی: ایک نظر میں

0
127

 

 

منظور الہٰی
ترال پلوامہ کشمیر

خدمت خلق سب سے بڑی عبادت ہے۔دنیا میں سچی خوشی حاصل کرنے اور خدا کو خوش کرنے کے لئے اس سے بڑا اور کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا۔انسان کو ’’اشرف الخلومات‘‘ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کے درد کو بھی بالکل ویسا ہی محسوس کرے جس طرح اپنی کسی تکلیف کو کر سکتا ہے۔دوسرں کے درد کو محسوس کرنے والے ہی درحقیقت انسانیت کے منصب پر فائز ہوسکتے ہیں۔وہ لوگ جن کا جینا مرنا دوسروں کے لیے ہو وہ عظمت کی بلندی کو چھو لیتے ہیں اگر ہم اپنے گرد و پیش میں نظردوڑائیں تو ہمیں ایسی شخصیات آج بھی مل جاتی ہیں۔جن کو دیکھ کر انسان رشک کرتا ہے ایسی ہی ایک شخصیت کا تذکرہ آج اس کالم کے ذریعے آپ تک پہنچا رہا ہوں جس کی محنت، محبت،ایمانداری اور سماجی خد مت گزاری کا ایک ثبوت دکھتا ہے جو شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ میری مراد کشمیر خطہ سے تعلق رکھنے والے مایہ ناز سماجی کارکن جناب چودھری الطاف نظامی? سے ہے۔ موصوف نہ صرف سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے سماجی خدمات انجام دے رہیں بلکہ زمینی سطح پر سماجی خدمت گزاری کا ایک جذبہ چلا رہے ہیں اور اپنی قوم کے دوسرے نوجوانوں میں بھی یہ جذبہ پیدا کر رہے ہیں الطاف سنہ 1995ئ￿ میں جموں کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے ایک گاؤں کھرم میں حاجی محمد رشید چودھری کے گھر پیدا ہوئے بنیادی تعلیم مقامی اسکول اور گھر پر ہوئی جس میں دینی تعلیم یعنی عربی، فارسی اور اردو سمیت ریاضی اور سائنس اپنے والد محترم جناب حاجی محمد رشید چودھری سے حاصل کی اور اخلائی تعلیم و تریب سے والدہ ماجدہ الفت بی بی سے سر فراز ہوئے گھریلو ماحول مکمل طور دینی ،مذہبی علمی اور ادبی تھا جس کی وجہ سے الطاف آج الطاف نظامی? بن سکا ہے۔اگر موصوف کی اعلی تعلیم کی بات کریں تو گریجویشن کی سند اعلٰی نمبرات کے ساتھ مکمل کی پھر پوسٹ گریجویشن اردو زبان و ادب میں یونیورسٹی آف کشمیر سے مکمل کی جس دوران قومی سطح کی مسابقی امتحانات NET اور SET کوالیفائی کئے اور اسی بنیاد پر دنیا کی اعلیٰ ترین سند یعنی پی۔ ایچ۔ ڈی کے لیے یونیورسٹی آف کشمیر میں داخلہ ملنے کا شرف حاصل ہوا اور اسی دوران تحقیق کے میدان میں اپنی قابلیت کا خوب لوہا منوا رہے ہیں۔ موصوف کی محنت، کاوش اور جہد مسلسل کا نتیجہ ہے کہ اردو زبان و ادب پر بقدر احسن مکمل دسترس اور عبور رکھے ہیں۔ دو کتابیں اشاعت پذیر ہو چکی ہیں جن میں ’’ تحریک آزادی ہند اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری ‘‘ جس کی رسم اجرائی کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ اردو کی جانب سے عمل میں آئی اور یہ کتاب جامعہ کشمیر کے وائس چانسلر پرفیسر نیلو فر خان صاحبہ اور ڈین آف آرٹس اور صدر شعبہ اردو پروفیسر عارفہ بشری ٰ صاحبہ سمیت درجنوں اعلیٰ ترین اشخاص کی موجودگی میں منظر عام پر آئی ہے۔دوسری کتاب اپنی ہی نوعیت کی ایک انفرادی کتاب ہے
’’ علامہ اقبال کے خطوط مشاہیر کشمیر کے نام ‘‘ جس پر کئی عظیم اردو دانوں کی تقریظیں اور پیش لفظ اور تاثرات لکھے ہوئے ملتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں موصوف نے ’’ جموں کشمیر گجر بکروال کی تاریخ ‘‘ پر مبنی کتاب کا گوجری میں ترجمہ کیا ہے جو ابھی زیر طباعت ہے اور یہی موصوف کی تحقیقی صلاحیتوں کا بین ثبوت ہے۔چودھری الطاف نظامی سماجی خدمات کے میدان میں کئی سالوں سے سرگرم عمل ہیں اور ہمیشہ سماج اور پسماندہ پچھڑے ہوئے طبقہ جات بالخصوص گجر بکروالوں کی بھلائی اور بہتری کے لیے پیش پیش رہے ہیں اور آج بھی اس قوم کی خدمات بحثیت سماجی کارکن ایک سپاہی کی طرح کر رہے ہیں اور باقی نوجوانوں کے لئے مشعل راہ بنتے جارہے ہیں اور واقعی قوم کے نوجوانوں کے لیے ایک مثال بن کر ابھر رہے ہیں۔ نظامی گجر بکروال قوم کی آواز عرصہ دراز سے بنے ہوئے ہیں جو مختلف پلیٹ فارم کے ذریعے سے اس قوم کی آواز کو بلند کر رہے ہیں۔ ابھی تک وہ سینکڑوں پروگرام منقعد کروا چکے ہیں اور اپنے ساتھ سینکڑوں لوگوں کو سماجی خدمات کے جذبے سے سرشار کر رہے ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری انجمنوں سے مل کر سماج کی خدمت کا کام انجام دیتے ہیں وہ بنا کسی مفاد اور بغیر کسی لالچ کے اس قوم اور سماج سے بے حد محبت رکھتے ہیں۔ نظامی ہر لحاظ سے اپنی گجر بکروال قوم کے ہمدرد رہے چاہے وہ انسانی ہمدری ہو یا سماجی پاسداری ہو بالخصوص تعلیم ، کھیل کود ،عوامی ہمدردی، سماجی بیداری تعلیم نسواں اور بچہ مزدوری جیسے موضوعات پر لوگوں کو باشعور کرنے کا کام ہمیشہ سے کرتے آرہے ہیں انہی کاموں کی بدولت اور سماج ی کارکن کی بحیثیت نمایاں کارکردی کا مظاہرہ کرنے پر اسی سال محترم چودھری الطاف نظامی کو جموں کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر جناب شری منوج سنہا صاحب کے ہاتھوں بچھڑے ہوئے سماج کے کام کاج کرنے کے سلسلے میں SKICC سرینگر میں ایوارڈ سے نوازا گیا جس دوران الطاف نظامی کی کئی سیاسی ،سماجی اور علمی و ادبی شخصیات نے بڑی پیمانے پر سراہنا کی۔ موصوف صحافت کے میدان کے بھی شہ سوار ہیں آل آنڈیا ریڈیو سرینگر کی نشریات بالخصوص گوجری پروگرام کے ساتھ گزشتہ 7 سالوں سے منسلک ہیں عوام اور سامعین کے دل کی دھڑکنوں کا کام کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے وہ مقبول عام بھی ہیں یہی نہیں بلکہ پروگرام کا معیار اور رتبہ بہتر کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ پروگراموں کو روایت سے ہٹا کر کئی موجودہ ضروریات سے جوڑتے ہیں اور اس میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اسی دوران وہ مسلسل دور درشن کے ’’ ڈی ڈی کاشر ‘‘ کے گوجری پروگرام ’’ کارواں‘‘ سے بھی پروگرام پیش کرتے ہیں اور ناظرین کا دل جیتتے ہیں وہاں بھی رنگا رنگ دلچسپ پروگرامز پیش کرتے ہیں اور کئی نامور شخصیات کو مدعو کرتے ہیں پروگرام کی زینت کو روح بخشتے ہیں اور ان اداروں میں وہ نئے نئے ٹیلنٹ Talent کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے ہیں۔ موصوف ایک نامور شاعر بھی ہے اور بیک وقت اردو ، گوجری اور پہاڑی میں شاعری کرتے ہیں اور اپنے خوبصورت کلام اور خوبصورت آواز سے سننے اور دیکھنے والوں کے دلوں کو محظوظ کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ موصوف کے کئی اخبارات ، عالمی اور قومی رسائل و جرائد میں متفرق موضومات پر درجنوں مضامین پبلش ہوچکے ہیں اور مقامی اخبارات بشمول کشمیر عظمیٰ، سرینگر ٹائمز،نیو سٹیٹ رپورٹرز، لازوال اور رداد قوم (گوجری) جیسے دیگر اخبارات میں مضامین اور کالم شائع ہوتے ہیں اس وقت موصوف ٹرائبل سٹوڈنٹ ایسوسییشن کشمیر (TSAK)کے چیف ایڈوائزر )اعلی صلاح کار ( بھی ہیں اور ٹرائبل سٹوڈنٹ ایسوسییشن کشمیر کے بینر تلے "تعلیمی ہنر اور ثقافت کے تحفظ میں انسانی وسائل کا کردار” کے عنوان سے کئی پروگرام کا انعقاد کررہے ہیں اور موصوف کی سرپرستی میں سینکڑوں نوجوان خطہ کشمیر میں ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہو کر اپنی قوم کی خدمت کا فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ اس نوجوان سے قوم کو بڑی امیدیں ہیں اس نوجوان نے سماج اور قوم کے لئے بے تہاشا کام کیے ہیں جن کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور انشاء اللہ تا آخر اس طرح کرتے رہیں گے صلاحیتوں سے بھرپور جنون اور ولولے سے سرشار اور عزم و ارادے والے اس نوجوان الطاف نظامیسے اس پسماندہ قوم و سماج کی امیدیں اور مستقبل وابستہ ہیں۔جناب نظامی کے اس شعر کے ساتھ اپنی بات مکمل کرتا ہوں۔ جھیل کنارے بیٹھا راہی سوچ رہا ہے کل اور آج
کس کے سر پر غم کی گٹھڑی کس کے سر پر ہوگا تاج

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا