’’تین طلاق‘‘ کے بعد ’’حلالہ‘‘ پرلگے گی پابندی؟

0
82

۰۰۰


غوث سیوانی
۰۰۰

 

’’طلاق بدعت‘‘ پرپابندی کا قانون مرکزی سرکار کے زیرغور ہے جو پارلیمنٹ کے آئندہ سرمائی اجلا س میں پیش ہوگا۔ اس قانون سے کسی کو اختلاف ہوسکتا ہے اور بعض لوگوں کو جزوی اختلاف ہوسکتا ہے مگر یہ سچ ہے کہ حکومت کو یہ موقع، خود مسلمانوں کے ناعاقبت اندیشانہ عمل نے دیا ہے۔ ایک مجلس کی ’’تین طلاق‘‘ نے بہت سے خاندانوں کو برباد کیا ہے۔ اسی طرح ’’حلالہ‘‘بھی اپنے آپ میں قابل اعتراض بات ہے، جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور احادیث میں اسے ’’زنا‘‘قرار دیا گیا ہے مگر بعض فقہی کتب اسے جائزقرار دیتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ’’تین طلاق‘‘ کے بعد اب’’ حلالہ‘‘ بھی حکومت کے نشانے پر ہے؟ کیا جس طرح سنگھ پریوار اوراس کے بھونپو میڈیا نے ’’طلاق بدعت‘‘ کے حوالے سے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کا کام کیا،اب ’’حلالہ‘‘ کے بہانے سے وہی سب کیا جائے گا اور پھر اس پر پابندی کا اعلان ہوگا؟ آل انڈیا مسلم خواتین پرسنل لاء بورڈ سمیت کئی تنظیمیں اس پر پابندی کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ بورڈکی صدر شائستہ عنبر نے کئی بار’’ حلالہ‘‘ پر پابندی کی مانگ کی ہے۔ادھر’’تین طلاق‘‘ پر پابندی کے مجوزہ قانون پر بحث کے دوران یہ رائے بھی آرہی ہے کہ تعددازواج اور حلالہ پر بھی پابندی،قانون میں شامل کی جائے۔ ’’طلاق بدعت‘‘ پرپابندی کا قانون مرکزی سرکار کے زیرغور ہے جو پارلیمنٹ کے آئندہ سرمائی اجلا س میں پیش ہوگا۔ اس قانون سے کسی کو اختلاف ہوسکتا ہے اور بعض لوگوں کو جزوی اختلاف ہوسکتا ہے مگر یہ سچ ہے کہ حکومت کو یہ موقع، خود مسلمانوں کے ناعاقبت اندیشانہ عمل نے دیا ہے۔ ایک مجلس کی ’’تین طلاق‘‘ نے بہت سے خاندانوں کو برباد کیا ہے۔ اسی طرح ’’حلالہ‘‘بھی اپنے آپ میں قابل اعتراض بات ہے، جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور احادیث میں اسے ’’زنا‘‘قرار دیا گیا ہے مگر بعض فقہی کتب اسے جائزقرار دیتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ’’تین طلاق‘‘ کے بعد اب’’ حلالہ‘‘ بھی حکومت کے نشانے پر ہے؟ کیا جس طرح سنگھ پریوار اوراس کے بھونپو میڈیا نے ’’طلاق بدعت‘‘ کے حوالے سے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کا کام کیا،اب ’’حلالہ‘‘ کے بہانے سے وہی سب کیا جائے گا اور پھر اس پر پابندی کا اعلان ہوگا؟ آل انڈیا مسلم خواتین پرسنل لاء بورڈ سمیت کئی تنظیمیں اس پر پابندی کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ بورڈکی صدر شائستہ عنبر نے کئی بار’’ حلالہ‘‘ پر پابندی کی مانگ کی ہے۔ادھر’’تین طلاق‘‘ پر پابندی کے مجوزہ قانون پر بحث کے دوران یہ رائے بھی آرہی ہے کہ تعددازواج اور حلالہ پر بھی پابندی،قانون میں شامل کی جائے۔حلالہ کے کچھ واقعات اتر پردیش کے باغپت ضلع کا ایک معاملہ کچھ دن پہلے میڈیا میں آیاتھا کہ ایک مسلم خاتون کو اس کے شوہرنے طلاق  دیدی، اس کے بعد حلالہ کے بہانے دیور سے نکاح کردیا گیا اور دیور نے اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا۔خاتون نے اس کے خلاف پولس میں شکایت کی اور پھر بھی کارروائی نہیں ہوئی تو ضلع مجسٹریٹ اور ایس پی کے پاس پہنچ کر اپنی فریاد سنائی۔ واضح ہوکہ اس خاتون کی شادی تین سال پہلے دہلی کے نند نگری تھانہ علاقہ کے سمیع نامی نوجوان سے ہوئی تھی، شادی کے بعد وہ بیوی کو تشدد کا نشانہ بنانے لگا اور مخالفت کرنے پر شوہر نے 11 نومبر 2016 کو اسے فون پر ہی طلاق دے دی۔مبینہ طور پر کچھ دن بعد شوہر نے اسے کال کر کہاکہ اس نے فتوی لیا ہے، وہ سسرال آ جائے۔ اس کے بعد’’حلالہ‘‘ کے نام پر دیور نے اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا۔ اسی درمیان خاتون کو پتہ چلا کہ اس کے شوہر کے دوسری عورت کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں۔ جب اس نے مخالفت کی تو شوہر نے پھر کھڑے کھڑے فروری 2017 میں طلاق دے ڈالی۔حلالہ کا یہ کھیل صرف یوپی کے ایک گائوں تک محدود نہیں ہے بلکہ بی بی سی (لندن)کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انٹرنیٹ پر متعدد ادارے مطلقہ مسلم خواتین سے ’’حلالہ ‘‘کے نام پر ہزاروں پاؤنڈ وصول کر رہے ہیں۔ یہ خواتین ایک اجنبی سے شادی کرنے اور جنسی تعلقات استوار کرنے کے بعد طلاق لے کر واپس اپنے پہلے شوہر سے شادی کرنے کے لیے یہ رقم ادا کر رہی ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق فرح (فرضی نام) جب 20 سال کی تھی تو خاندانی دوستوں کے ذریعے اس کی شادی ہوئی تھی۔ دونوں کے بچے بھی ہوئے، لیکن فرح کا کہنا ہے کہ اس کے بعد اس کے ساتھ بدسلوکی شروع ہوئی۔ برطانیہ میں رہنے والی فرح کا کہنا تھاکہ شوہر اس کے ساتھ تشدد کرتا تھا اور بالوں سے گھسیٹ کر مارتا تھا۔ فرح نے بتایا کہ پھر ایک دن اسکے شوہر نے ٹیکسٹ میسیج کے ذریعہ طلاق دے دی۔ فرح بتاتی ہے کہ میں گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ تھی اور وہ کام پر تھا۔ ایک شدید بحث کے بعد اس نے مجھے ایک ٹیکسٹ میسج بھیجا- طلاق، طلاق، طلاق۔ کچھ وقت گزرنے کے بعدفرح کے سابق شوہر کو افسوس ہوا، اور دوبارہ نکاح کے لئے فرح نے’’ حلالہ‘‘ کی جانب قدم بڑھایا۔حالانکہ بعد میں فرح نے حلالہ کا ارادہ ترک کردیا اور پہلے شوہر سے شادی کا خیال بھی چھوڑدیا۔رپورٹ کے مطابق بی بی سی کی ایک انڈر کور رپورٹر نے ایک مطلقہ مسلم خاتون کے طور پر’’حلالہ‘‘ کرنے والے ایک شخص سے ملاقات کی۔ اس شخص نے کہا کہ ڈھائی ہزار پاؤنڈ کے عوض وہ اس سے شادی کر سکتا ہے اور پھر ہم بستری کے بعد اسے طلاق دے دے گا تاکہ وہ اپنے پہلے خاوند سے دوبارہ شادی کر سکے۔ لیکن مشرقی لندن میں اسلامی شریعہ کونسل جو خواتین کو طلاق کے مسئلے پر مشورے دیتی ہے ، سختی کے ساتھ’’ حلالہ‘‘ کی مخالف ہے۔ اس تنظیم کی خولہ حسن نے کہا کہ یہ جھوٹی شادی ہے۔ یہ پیسہ کمانے کا ذریعہ ہے اور مجبور خواتین کا استحصال ہے۔انھوں نے مزید کہاکہ یہ مکمل طور پر حرام ہے۔ اس کے لیے اس سے سخت لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ایک بڑی غلط فہمی کانتیجہ ’’حلالہ ‘‘ عام لوگوں میں ’’حلالہ‘‘کے تعلق سے غلط فہمی ہے اور اسلامی تعلیمات کی کمی کے سبب اس کا غلط مطلب نکالا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ طلاق شدہ عورت کو اس کے پہلے شوہر کے لئے حلال کرنے کے واسطے حلالہ کا طریقہ رکھا گیا ہے۔ان کی نظر میں تین بار طلاق کہنے سے جو مشکل پیدا ہوگئی ہے، اس بڑی مشکل کا علاج ہے’’ حلالہ‘‘۔ حالانکہ اس عمل کو شریعت اسلامی نے صریحا حرام قرار دیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی حدیثیں ہیں جن میں فرمایا گیا کہ ’’اللہ کی لعنت ہو اس مرد پر جو اپنی بیوی کو حلال کرنے کے لیے بھیجے اور اس مرد پر جو دوسرے کی بیوی کو اس طرح حلال کرے‘‘۔’’حلالہ‘‘ کا مطلب؟ ’’ حلالہ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو جب تین طلاق دے دی جائے، اس کے بعد اس کی طرف رجوع نہیں کیا جا سکتا مگر جب وہ عورت اپنی مرضی سے کسی دوسرے مرد سے شادی کرلے اور اس کے بعد اس کے ساتھ  ہمبسترہو اور یہ شوہر اتفاقی طور پر اپنی مرضی سے بغیر کسی کے دبائو کے اس عورت کو طلاق دے دے یا وہ عورت اپنے اختیار سے طلاق لے لے یا پھر شوہر کی موت ہوجائے، اس کے بعد سابقہ شوہر سے وہ عورت دوبارہ نکاح کر سکتی ہے۔ جیسا کہ سورہ بقرہ میں فرمایا گیا کہ : ’’ اگر شوہر نے عورت کو تین طلاق دے دئے تو اسکے بعد وہ عورت اس مرد کے لیے حلال نہیں ہو گی جب تک کہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کر لے پس اگر وہ اس کو طلاق دے دے تو اس صورت میں پہلے شوہر کی طرف رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘کرایے کا سانڈ تین طلاقوں کی صورت میں پہلے سے طے شدہ حلالہ کا مروجہ طریق کار یا حیلہ ،شریعت کی نظر میں ناجائز،گناہ اور نکاح باطل ہے کیونکہ یہ وقتی نکاح ہے اور وقتی نکاح اسلام میں جائز نہیں ہے۔ سنن ابن ماجہ میں عقبہ ا بن عامر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں کرائے کے سانڈ کے بارے میںخبر نہ دوں۔ صحابہ نے کہا : کیوں نہیں اے اللہ کے رسول  ! آپ نے فرمایا : وہ حلالہ کرنے والا ہے۔ اللہ تعالی ،حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے، دونوں پر لعنت فرمائے۔‘‘ حضر ت عمررضی اللہ عنہ نے کہا’’ اگر میرے پاس حلالہ کرنے والے اور کروانے والے کو لایا گیا تو میں انہیںسنگسار کر دوں گا۔‘‘اس قول سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمر حلالہ کو زنا تصور کرتے تھے اسی لئے اس کے لئے وہی سزا مقرر کی جو زانی کی ہے۔فقہاء کیا کہتے ہیں؟               صحابی رسول سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ حلالہ کرنے والے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ حلالہ کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہے۔ حسن بصری، ابراہیم نخعی، قتادہ دور تابعین کے بڑے فقہاء تھے جن کا کہنا تھا کہ اگر نکاح کرنے والا اور منکوحہ میں سے کسی نے بھی حلالہ کی نیت سے نکاح کیا تو یہ نکاح ہی درست نہیں ہوااور دونوں کے درمیان تفریق کر دی جائے گی۔  سعید بن المسیب اور امام طاوس اور امام مالک نکاح حلالہ کو نکاح فاسد مانتے تھے اور ایسانکاح کرنے والے مردوعورت کے بیچ جدائی کرانے کا حکم دیا کرتے تھے۔ امام لیث بن سعد، امام سفیان ثوری، امام احمد بن حنبل سب کا یہی مذہب ہے۔ (المحلی لابن حزم) حنفیوں کے نزدیک بھی حرام ہے حلالہ مگر۔۔۔ حنفی علماء کرام بھی حلالہ کو حرام قرار دیتے ہیں اور ایسے کسی نکاح کو درست نہیں مانتے۔ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’ہدایہ ‘کے ’کتاب الطلاق‘ میں ایسے نکاح کو فاسد قرار دیا گیا ہے اور اس نکاح کے بعد بھی عورت پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں ہوتی۔  فقہ حنفی کی مشہور کتب کنز الدقائق بحر الرائق، شرح وقایہ میں اسے حرام قرار دیا گیا ہے۔ امام ابن الہمام حنفی کا فتوی ہے کہ یہ نکاح، نکاح متعہ ہی ہے اور اس کا کرنے والا کرانے والا ملعون ہے، کیونکہ صحابہ کرام اس کو رسول اللہ کے زمانہ میں زنا شمار کرتے تھے۔ اس بات کو مشہور فقیہہ ملا علی قاری نے اپنی کتاب مرقات میں لکھا ہے۔ ماضی قریب کے مشہور عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی کا فتوی ہے کہ حلالہ کی شرط پر کئے ہوئے نکاح کاکوئی اعتبار نہیں۔ بلکہ اس شرط کے ساتھ نکاح کرنا بہت بڑا گناہ وحرام ہے ،اللہ کی طرف سے لعنت ہوتی ہے ۔(بہشتی زیورحصہ چہارم ص 20) البتہ دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر ایک فتویٰ ہے کہ’’ حلالہ کی شرط پر نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے اگرچہ اس کی وجہ سے وہ شوہر اول کے لیے حلال ہوجائے گی۔‘‘ اسی فتوے کے الفاظ ہیں ’’لیکن اگر حلالہ کی شرط نہ کرے بلکہ اس کو چھپائے رکھے تو یہ مکروہ نہیں۔‘‘ کچھ ایسا ہی مضمون فقہ کی کتاب بہار شریعت حصہ 6،حلالہ کا بیان (مصنف مولانا امجد علی اعظمی) میں بھی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ مصنف بہار شریعت نے حلالہ میں ثواب کا بھی ایک پہلو جوڑ دیا ہے۔ درمختار کے حوالہ سے عبارت یوں ہے: ’’نکاح بشرط التحلیل جس کے بارے میں حدیث میں لعنت آئی ہے وہ یہ ہے کہ عقد نکاح یعنی ایجاب وقبول میں حلالہ کی شرط لگائی جائے اور یہ نکاح مکروہ تحریمی ہے۔ زوج اول وثانی اور عورت تینوں گنہگار ہونگے مگر عورت اس نکاح سے بھی بشرط حلالہ شوہر اول کے لئے حلال ہوجائے گی اور شرط باطل ہے اور شوہر ثانی طلاق دینے پر مجبور نہیں اور اگر عقد میں شرط نہ ہو اگرچہ نیت میں ہو تو کراہت اصلاً نہیں بلکہ اگر نیت خیرہوتو مستحق اجر ہے۔‘‘ جہاں ایک طرف حلالہ کے خلاف صریح احادیث ہیں وہیں دوسری طرف بہار شریعت میں نہ صرف حلالہ کے مسائل بیان کئے گئے ہیں بلکہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر یہ اندیشہ ہو کہ نکاح کرنے والا حلالہ کے بعد طلاق نہیں دے گا تو اس کیلئے پیشگی طریقہ کیا اپنایا جائے۔ ایسی عبارتیں کچھ دوسری کتب میں بھی مل جائینگی۔اب اگر اس قسم کی عبارتوں کو میڈیا اسلام او ر مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے تو اسے ہم میڈیا کی غلطی کہیں یا اپنے علماء کی؟

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا