ملک میں دوسری آئرن لیڈی کا جنم

0
39
  • ۰۰۰
    مطیع الرحمن عزیز
    9911853902
    ۰۰۰

  • مضمون کے لکھنے کی خا ص وجہ یہ ہوئی کہ سماج کے مشہور کارکن جناب صلاح الدین صاحب کو مہیلا امپاورمنٹ پارٹی کا ایک پوسٹ ٹیگ کیا گیا تھا ، جس پر انہوں نے ناراضگی کا اظہار کیا ۔ اور بات وہیں سے شروع ہوئی ۔بات اتنی تفصیلی اور عام تھی کہ ایک مضمون تیار ہوگیا۔ چونکہ عام لوگوں کی معلومات اور غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکتا ہے اسی لئے مضمون کی شکل میں جاری کیا جا رہا ہے۔ مضمون کی ہیڈنگ دینے کا مقصد ہفت روزہ عوامی سالار۔ 28نومبر 2017 میں شائع ایک مضمون تھا جس میں شائع مضمون کی ہیڈنگ تو منفی اثرات محسوس کرا رہے تھے لیکن مضمون کے اندر جو کچھ لکھا گیا تھا اسے کافی پسند کیا گیا۔ جو غیر جانبداری سے لکھا گیا مضمون تھا اور اصل صحافت کی پہچان ایسے ہی مضامین ہوا کرتے ہیں۔ مضمون میں شفافیت اور اردو ادب کی جان تھی۔ در اصل صحافت کا پیشہ بہت منفی ہو تو بلیک میلنگ کہلاتا ہے اور بہت مثبت ہو تو بھی شک کے دائرے میں لاتا ہے۔ مہیلا امپاورمنٹ پارٹی کی بنیاد جس دن رکھی گئی اس دن شرکت کیلئے میں للت ہوٹل پہنچا ، تمام میڈیا برادری کے ساتھ میری بھی انٹری ہوئی۔ دوسرے دن یعنی 14تاریخ کو ہیرا گروپ کی سی ای او اور ایم ای پی کی صدر محترمہ ڈاکٹر نوہرہ شیخ نے آپسی بات چیت کے لئے دہلی کے ٹاپ ٹین اخبارات کو چائے پر بات چیت کیلئے مدعو کیا۔ جس میں میں بھی ایک تھا۔ اس کے علاوہ 16تاریخ کو کانسٹی ٹیوشن کلب میں پریس کانفرنس میں بھی شرکت کا موقعہ میسر ہوا۔ ہیرا گروپ کے منیجر جناب اسماعیل شیخ ایم ای پی صدر ڈاکٹر نوہرہ شیخ اور ایم ای پی دہلی پردیس صدر جناب محمد عاقل نے پریس کانفرنس کو خطاب کیا اور پارٹی کے عزائم ومقاصد کے تفصیلی سوالات کے جواب بھی دئے۔ جناب سہیل انجم صاحب کے مضمون کے مطابق چیپو میڈیا ملازمین کے الٹے ٹیڑھے سوالات کے جواب جس طرح سے پارٹی صدر محترمہ نوہرہ شیخ نے دیا وہ لائق تعریف اور جہاندیدہ تجربے سے مزین تھے۔ میرا بھی مشاہدہ پارٹی کے لئے بہت حد تک ویسے ہی تھے جیسے میں نے سالہا سال ڈاکٹر نوہرہ شیخ کے تعلق سے سنا اور پڑھا تھا۔ تنازعات کا نا ختم ہونے والا سلسلہ جسے ڈاکٹر نوہرہ شیخ نے لمبے عرصے تک براداشت کیا ہے ان کے لئے ایک نئی پارٹی کو جنم دینا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ اور شہرت ومقبولیت اور دولت و سروت کے جس منزل پر ڈاکٹرنوہرہ شیخ قدم رکھتی ہیں ان کے لئے اگلا قدم سیاست ہی تھا۔ تعلیم پھر تجارت اور بعد میں سیاست نے ڈاکٹرہ نوہرہ شیخ کو مکمل آئرن لیڈی اور آندھرا پردیش کی سرزمین سے چل کر پوری دنیا اور پھر بعد میں دہلی میں قدم رکھنے والی شیرنی اپنی مثال آپ ہے۔ جس کی مثال کم از کم اس ملک میں نہیں ملتی ۔ اور موجودہ سیاست کا مطالعہ کیا جائے تو کوئی خاتون جسے کلی ملکہ حاصل ہو ایسا نہیں ہے۔ مضامین میں ڈاکٹر نوہرہ شیخ کو آئرن لیڈی یعنی آنجہانی محترمہ اندرا گاندھی کے مثل تشبیہ دیا جاتاہے۔ پارٹی کی مقبولیت دن بہ دن ایسی حالت میں بڑھتی جا رہی جب نہ تو پارٹی کی طرف سے کسی کمپین کی شروعات کی گئی ہے اور نہ ہی پارٹی کے کارکنان ملک کے زیادہ حصوں میں منتخب کئے گئے ہیں۔ جناب محمد عاقل صاحب پارٹی کی مقبولیت سے خوش ہوکر کہا کرتے ہیں کہ ۔ میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر۔۔ لوگ ساتھ آتے گئے قافلہ بنتا گیا۔ملک میں مسلم قیادت کے خاتمے کے وقت وجود میں آنی والی سیکولر اور تمام ملک بھر کی آبادی کو ساتھ لے کر چلنے والی ایم ای پی پارٹی آنے والے دنوں میں کیا کچھ تاریخ رقم کرپائے گی وقت سے پہلے کچھ کہنا تھوڑا جلد بازی ضرور ہوگا ۔ لیکن اپنے مطالعہ اور معلومات کے ذریعہ جناب صلاح الدین صاحب سے کیا گیا مباحثہ تمام ہم وطنوں کیلئے پیش خدمت ہے۔
    سر صلاح الدین بھائی۔۔آپ کی دانشمندی کا تذکرہ سنا ہی کرتا تھا ،آج دیکھ بھی لیا۔ بلکہ بڑے پن اور قلبی وسعت کا مظاہرہ ہے آپ کی تحریر وںمیں۔ سب سے پہلے میں تمام دوستوں کو بتا دوں کہ ایک فرینڈ لسٹ میں یعنی دوستانہ کنبہ میں شریک ہونے کے ساتھ یہ عہد بندی بھی قرار پاتی ہے کہ ٹیگ کرنا کوئی حرج کی بات نہیںہوتی۔ کئی بات آپ کی پسند بھی ہو سکتی ہے اور کئی دفعہ پوسٹ آپ کے خیالات کے مخالف ہو سکتا ہے۔اس کے لئے کوئی بھائی برا نہیں مانتے۔ آپ کی تحریر بلا شبہ فصاحت وبلاغت کو چھو رہی ہے۔ دل چھوٹا نہ کریں۔ اللہ سے دعا ہے کہ آپ کے اس لکھنے کے سلسلے کو جاری رکھے۔ اور آپ کی دانشمندی سے سونیا بہار کے علاوہ پوری دہلی پورا ملک اور پوری دنیا مستفیض ہو۔ میں ایسی دعا کرتا ہوں۔ اور آپ اس لائق ہیں۔ اللہ نے آپ کو وہ ہنر اور قلبی ، دلی ، ذہنی اور مالی وسعت بھی عنایت کر رکھی ہے۔ 12نومبر سے قبل میں بھی آپ کا ہی ہم خیال تھا۔ یعنی ایم ای پی کے لانچ ہونے سے قبل ۔ یعنی ابو الکلام آزاد کا قول کہ انہی سیاسی پارٹیوں میں اپنا مستقبل اور حق تلاش کرو۔ یہاں وقت کی قلت کی وجہ سے آپ سے دو باتیں چھوٹ رہی ہیں ۔ اول ملک کی تقسیم میں اپنا ڈنڈ اپنا جھنڈا وغیرہ والی بات ۔ میں مؤدبانہ آپ کو بتا دوں کہ وہاں ایک خا ص مذہب کی سیاست تھی۔ جو نہ اس وقت بہتر تھی اور نہ آج کے لحاظ سے وہ فیصلہ یعنی ہندستان پاکستان کی تقسیم بہتر تھا اور نہ قیامت تک اس کی بھرپائی کرنے میں کامیابی مل سکتی ہے۔ رہی بات ڈاکٹر ایوب صاحب نے ریاستی سطح پر کوشش کی لیکن جو غلط پالیسی اور پیسے کی سیاست نے مقبولیت حاصل نہیں ہونے دی۔ اور ڈاکٹر ایوب صاحب کی کامیابی پر کچھ پانی ان کے بے وفا کارکنان نے پھیر دیا۔ اور بہت حد تک ریاست کے باشندوں کو خود سے جوڑ نہ سکے اور کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ڈاکٹر ایوب صاحب نے برادری اور ذات کی سیاست لے کر چلے تھے۔ اور کچھ حضرات نے تو یہاں تک کہا ہے کہ وہ غلط پالیسی کے شکار ہو گئے ہیں۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔ پھر بھی ڈاکٹر ایوب صاحب کو کامیاب کرنے کی ہم نے اور ملک کے باشندگان نے بھر پورکوشش کی۔ میں واضح کر دوں کہ میرے نظریات آپ سے الگ نہیں ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ کانگریس ، سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی تعریف پسند حضرات کو زیادہ توجہ دیتی ہیں۔ اور کچھ ایسی پارٹیاں بھی ہیں جو محنت لگن اور ہنر کو پسند کرتی ہیں۔ لہذا جہاں ہماری قدر ہوتی ہے وہیں کے مناظر زیادہ نظر آئیں گے۔ اس کا مطلب نظریات کا ملنا یااختلاف نہیں ہے ۔
    اب آئیں ڈاکٹر نوہرہ شیخ کی دور اندیشی اور حب الوطنی و قوم پسندی کی طرف۔ آپ نے کہا کہ تعلیم میں سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ ہم جگہ بنائیں ۔ آزادی کے بعد سے اب تک کی تاریخ دیکھ لیں تو ہماری قوم نے تعلیم پر بہتر توجہ دی ہے۔ اور آئندہ بھی جاری رہے گی۔ انشا اللہ آپ دیکھیں گے کہ دس برسوں میں تعلیم یافتہ مسلمانوں کی وہ کھیپ نکل کر منظر عام پر آئے گی جن کے لئے جگہ تلاش کرنا مشکل بات ہوگی۔ بلکہ آج ہی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے باوجود کوئی پرسان حال نہیںہے ۔ اس کی کیا وجہ ہے آپ ضرور سوچیں۔
    ڈاکٹر نوہرہ شیخ نے پہلے تعلیم ۔ پھر تجارت اور پھر سیاست میں اپنا کیرئر شروع کیا ہے۔ اول کے دو چیزوں میں یہ بہن بین الاقوامی سطح پر ریکارڈ قائم کر چکی ہے۔ لیکن سر سیاست وہ دروازہ ہے جو تعلیم یافتہ لوگوں کو ان کے منزل مقصود تک پہنچاتی ہے۔ جو ہمارے درمیان نہیں ہے ۔ اور آئندہ ہونے کی بھی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ جب ہم ان سیاسی پارٹیوں میں اتنے برسوں میں کوئی جگہ نہیں بنا پائے اور نہ ہی آئندہ بننے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ اور اگر آپ کے اسی افکار کے حامل بنے بیٹھے رہے تو کیا ایسا آپ کو دکھا کہ ایسا ہی جاری رکھنے کیلئے آپ حوصلہ افزا ہیں۔ بتائیں۔ہم سیاست سے اس قدر کورے ہیں کہ آنے والی نسلیں جب تعلیم یافتہ ہونے کے بعد اس کا خاطر خواہ معاوضہ نہیں پائیں گی تو سابقہ دنوں جیسا تصور کریں گی کہ پڑھو گے لکھو گے بنو کے خراب۔ کیوں نا پڑھنے لکھنے کے بجائے اول دن سے ہی کسی دوکان ، ریڑھی پٹری کی طرف توجہ کی جائے گی۔ کیونکہ پیتیس چالیس سال خراب کرنے کے بعد روڈ چھاپ ہی رہنا ہے تو اس کا کیا فائدہ ۔ اس لئے یہاں ضرورت پڑتی ہے سیاست کی۔ اور آپ نے کہا کہ نہ کہنا کہ وہ ایک کالج چلا رہی ہے۔ حضور عالی یہ کون سی نا انصافی ہوئی ۔ کیوں نہ کہا جائے۔ وہ اکیلئے ۔ ہاں سر اکیلئے دم پر اتنا بڑا ۔ اتنا پر تعیش ،آرام دہ ۔ آسائش سے بھر پور ادارہ چلا رہی جتنا آپ کا جمعیت سمیت پورا ملک75سالوں میں نہ بنا سکا۔ آج آپ کے مرکزی ادارہ میں بچوں کی تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد 500ہے۔ اور ملازمین کی تعداد کل پچاس ہے۔اور جانتے ہیں۔ اس خاتون کے اکیلے دم پر چلنے والے ادارے میں پڑھنے والی طالبات کی تعداد ایک ہزار ہے۔ اور اساتذہ وملازمین کی تعداد 300ہے ۔حضورعالی۔اس کے علاوہ اس کے بزنس میں سپورٹ یعنی ملازمت پانے والے ملازمین کی تعداد دس ہزار کے قریب ہے۔ ہمارا پورا ہندستان اور اس کا مرکزی ادارہ کیا اتنی نوکریاں پیدا کرسکتا ہے۔ اور مزید سنئے سر۔ اس خاتون کے ہاتھوں سے فلاح و استفادہ پانے والے افراد کی کل تعداد کئی لاکھ کے قریب ہے۔ معذرت چاہتا ہوں ۔ واقعی میں ایک لمبی ملاقات کی ضرورت ہے۔ آپ کے وقت کی ضیاع پر معذرت ہے ۔یہ خاتون برقعہ پوش ضرور ہے لیکن اس کے افکار ذات پات کی سیاست نہیں ہے حضور۔ تمام ہندستان کے اقوام کو لے کر چلنے کا حدف لینے والی یہ آئرن لیڈی انشا اللہ آپ کی حمایت سے آگے جائے گی۔ بہت آگے۔اور سر مبالغہ نہ سمجھئے گا ناقدین کی تحریروں اور تقریروں میں ہندستان کی کوئی جمہوری پارٹی اس پارٹی کے ساتھ اتحاد کے بغیر حکومت قائم کرنے سے قبل ایک بار ضرور سوچے گی۔ معذرت چاہتاہوں یہ کہتے ہوئے کہ کجریوال جیسا نیا نویلا سیاست و تمام میدان کا غیر تجربے کار فرد۔ آپ اس کی پارٹی طرف سے الیکشن لڑنے کیلئے تین کروڑ روپئے خرچ کرنے اور الیکشن لڑنے کا بیڑہ اٹھا سکتے ہیں۔ اور آخر ایک خاتون جوآج کی سیاسی دنیا سے زیادہ خدمت کا ہوم ورک اور تجربہ رکھنے والی ہے آپ کی توجہ کا مرکز نہیں بن پا رہی ہے۔ آخرکیوں۔ سر میں جواب دیتا ہوں۔در اصل جواب یہی ہے کہ کیونکہ وہ اپنی بہن ہے اس لئے۔۔۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا