سیتا سدھا
لنکرنسر، راجستھان
ہمارے ملک میں بنیادی ضرورتوں میں تعلیم بھی اہم ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد اس پر بھی سب سے زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جسے نظر انداز کر کے کوئی بھی حکومت ترقی کا ہدف حاصل نہیں کر سکتی۔اسی لئے مرکز سے لے کر ریاست تک تمام حکومتوں نے تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز کی ہے۔ پرائمری سطح کی تعلیم ہو یا اعلیٰ تعلیم، ان سب پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ حکومت کی ان کوششوں کی وجہ سے ملک میں شرح خواندگی میں ہمیشہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ لیکن تعلیم کی سطح پر جس طرح کی کوششیں کی گئی ہیں اس میں تسلی بخش کوئی بہتری نظرنہیں آتی ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ لیکن بنیادی وجوہات میں سب سے اہم محکمہ تعلیم اور خود معاشرے کی بے حسی ہے۔ ملک کے دیہی علاقوں میں تعلیم کے ناقص نظام نے اس کی ترقی کو کمزور کر دیا ہے۔ ملک میں اب بھی کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں دیہی علاقوں میں تعلیمی نظام بہت کمزور ہے۔ جہاں اساتذہ، عمارتوں اور دیگر بنیادی سہولیات کی شدید کمی ہے۔ جس کی وجہ سے تعلیم کی سطح انتہائی قابل رحم ہو جاتی ہے۔ اس کا سب سے زیادہ منفی اثر لڑکیوں کی تعلیم پر پڑتا ہے۔راجستھان کے بیکانیر میں واقع لنکرنسر بلاک کا ڈھانی بھوپالارام گاؤں ایسے ہی ناقص تعلیمی نظام کی ایک مثال ہے۔ اس گاؤں میں ایک ہائی اسکول ہے لیکن اساتذہ کی کمی کی وجہ سے اسکول کا تدریسی نظام متاثر ہو رہا ہے۔ جس کا براہ راست اثر نوعمر لڑکیوں کی تعلیم پر پڑتا ہے۔
اس حوالے سے گاؤں کی ایک لڑکی نے بتایا کہ اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ لیکن اسکول میں مضامین کے لحاظ سے اساتذہ کی کمی کی وجہ سے اس کی پڑھائی بہت متاثر ہوئی۔ جس کی وجہ سے اس نے دسویں کے بعد اسکول چھوڑ دیا۔ اس نے بتایا کہ جب اساتذہ ہی اسکول نہیں آتے تو پھرا سکول جانے کا کیا فائدہ؟ کیونکہ اس سے مطالعہ متاثر ہوتا ہے۔وہیں ایک طالبہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی گیارہویں جماعت میں پڑھتی ہے۔ وہ روزانہ گھر آتی ہے اور شکایت کرتی ہے کہ اسکول میں کوئی استاد نہیں ہے جس کی وجہ سے پڑھائی نہیں ہو رہی ہے۔ تاہم، ان کی بیٹی پڑھائی میں بہت اچھی ہے اور وہ اسے آگے بھی پڑھانا چاہتی ہیں۔ لیکن غریب ہونے کی وجہ سے وہ اسے کسی پرائیویٹ اسکول میں داخل نہیں کروا سکتی ہیں۔ ایسے میں ان کی بیٹی اسی اسکول میں پڑھنے پر مجبور ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ حکومت اسکول توکھولتی ہے لیکن وہاں سہولیات مہیا کرانا بھول جاتی ہے۔ ایسے حالات میں بچے کیسے پڑھیں گے؟ وہ حکومت، انتظامہ اور محکمہ تعلیم سے ذمہ داران سے سوال کرتی ہیں کہ کیا غریب کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے اور آگے بڑھنے کا حق نہیں ہے؟ آخر حکومت اور محکمہ تعلیم اس طرف توجہ کیوں نہیں دیتا ہے؟
اس سلسلے میںاسکول کی پرنسپل پوجا پروہت کا کہنا ہے کہ اس اسکول کو دو سال قبل 12ویں کلاس میں اپ گریڈ کیا گیا تھا۔ اس وقت اس اسکول میں کل 226 طلباء زیر تعلیم ہیں جن میں 105 لڑکیاں اور 121 لڑکے ہیں۔ انہیں پڑھانے کے لیے 10 مرد اور 7 خواتین اساتذہ ہیں۔جس میں صرف ایک استاد اے گڑیڈ یعنی دسویں سے بارہویں جماعت کو پڑھانے کے اہل ہیں اور ایک سکینڈ گڑیڈ یعنی آٹھویں سے دسویں جماعت کے بچوں کو پڑھانے کے اہل ہیں۔ باقی تمام اساتذہ کو پرائمری اسکول کے بچوں کو پڑھانے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ لیکن اساتذہ کی کمی کے باعث پرائمری کلاسوں میں پڑھانے والے یہ اساتذہ بارہویں جماعت کے بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ جب تک محکمہ تعلیم اعلیٰ کلاسوں میں پڑھانے کے لیے اساتذہ کا تقرروری نہیں کرتا ہے، ہمیں ان اساتذہ سے ہی کام چلانا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ اسکول میں نہ صرف مضمون بلکہ پی ٹی ٹیچرکا عہدہ بھی گذشتہ کئی سالوں سے خالی ہے جس کی وجہ سے بچے کھیل کود جیسی سرگرمیوں سے کافی دور ہیں۔اسکول میں سالانا کھیل کود ٹورنامنٹ کا انعقاد بھی نہیں ہو پا رہا ہے۔ اگرچہ کچھ بچوں میں کھیلوں کا ٹیلنٹ ہو ہے لیکن جب اساتذہ ہی نہیں ہیں تو ہم ان کے ٹیلنٹ کو کیسے نکھار سکتے ہیں؟اس حوالے سے گاؤں کے 72 سالہ سرپنچ بلورام جاٹ کا کہنا ہے کہ یہ اسکول ایک پرائمری اسکول کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔جسے 35 سال قبل سماجی کارکن اور چرخہ کے بانی آنجہانی سنجوئے گھوش کی کوششوں سے اسے 8ویں تک اپگڑیڈگیا تھا۔ اس کے بعد چند سال قبل حکومت نے اس اسکول کو 12ویں جماعت میں اپ گریڈ کیا ہے۔ لیکن اساتذہ کی تقرروری نہیں کی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے بچوں بالخصوص بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر حکومت اور محکمہ تعلیم اس طرف سنجیدگی سے توجہ دے تو اس مسئلہ کا جلد حل ممکن ہے۔ لیکن اس کے لیے گاؤں والوں کو بھی بیدار ہونا پڑے گا۔ تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے انہیں میری کوششوں میں ساتھ دینا ہو گا تاکہ گاؤں میں ہر کوئی معیاری تعلیم حاصل کر سکے۔درحقیقت آج بھی ہمارے ملک میں کچھ گاؤں ایسے ہیں جہاں لڑکیوں کو درمیان میں ہی صرف اس لئے اسکول چھوڑ دینا پڑتاہے کیونکہ گاؤں میں کوئی ہائی اسکول نہیں ہوتاہے، یا اسکول اتنا دور ہوتاہے کہ والدین اپنی لڑکیوں کو اتنی دور نہیں بھیجنا چاہتے ہیں۔ تاہم، علم وہ سمندر ہے جس کے ذریعے ترقی ممکن ہے اور معاشرے میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
لیکن محکمہ تعلیم جس طرح بے حسی کا مظاہرہ کرتا ہے اس سے لڑکیوں کی تعلیم کسی حد تک متاثر ہوتی ہے۔ جو کسی بھی معاشرے کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔اس پر صرف حکومت، انتظامہ یا محکمہ کو ہی نہیں بلکہ معاشرہ اور عوامی نمایندہ کو بھی سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ (چرخہ فیچرس)