تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں !

0
38
  • جدھر دیکھو سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیاں زوروشوروں سے چل رہی ہیں ،ہر کوئی اپنی قسمت آزمانے کے لئے سیاست میں ڈبکی لگانا چاہتا ہے تو کئی لوگ سیاستدانوں کے پیچھے دوڑ لگاتے نظر آرہے ہیں،ان سے پھینکی ہوئی روٹیاں سمیٹنے میں لگے ہیں، جسکے لئے انہیں نہ اپنی عزت کی پرواہ ہے نہ ہی ملک و ملت کی ۔فی الحال انہیں تو بس جھوٹی روٹیاں ہی نظر آرہی ہیں۔جسکو حاصل کرنے کے لئے غریب بھولی بھالی عوام کا مستقبل داؤ پہ لگاتے ہوئے ان روٹیوں کے عوض میں ووٹوں کا سودا کرتے نظر آرہے ہیں ۔کوئی سوشیل ورکر کے روپ میں تو کوئی اپنی پہنچ اور رتبہ دکھاکر ۔انہیں مفاد پرست مطلب پرست جو بھی کہیں کم ہی ہوگا اور ایسے منافقوں کی ذہنیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاستدان اپنی سیاست کررہے ہیں ۔ جن ووٹرس کو طاقت سمجھا جاتا ہے آج وہی طاقت کہلانے والے و وٹوں کو کوڑیوں کے داموں میں خرید کر بدلے میں پورے پانچ سالوں تک کی عوام کو اپنا غلام بناکر بھوک مر ی ، بے روزگاری،مہنگائی دیکرمادہ مچھر کی طرح انکا خون چوستے ہوئے اپنی تجوریاں بھرتے رہیں گے۔ آج جو گلی محلوں میں ووٹ مانگتے ماں بھائی بہن کہتے نہیں تھکتے کل وہی اپنے پالتو کتوں سے کٹوانے سے بھی باز نہیں آتے اور ان سب کے ذمے دار کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود ہیں ۔الیکشن کے نام پہ ہر گلی میں ایک امیدوار پیدا ہوجاتا ہے مانو الیکشن میں کھڑا ہونا اسکا پیدائشی حق ہے۔ چاہے اس میں اس ذمیداری کو بخوبی نبھانے کی قابلیت ہو یا نہ ہو ۔ چاہے جیت حاصل کرنا انکے لئے ناممکن کیوں نہ ہو پر نہیں انہیں تو ہار کا تاج پہننے کے لئے ہی صحیح الیکشن کے لئے کھڑاہونا ہے بیکار کی شہرت حاصل کرنے کے چکر میں۔۔  جدھر دیکھو سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیاں زوروشوروں سے چل رہی ہیں ،ہر کوئی اپنی قسمت آزمانے کے لئے سیاست میں ڈبکی لگانا چاہتا ہے تو کئی لوگ سیاستدانوں کے پیچھے دوڑ لگاتے نظر آرہے ہیں،ان سے پھینکی ہوئی روٹیاں سمیٹنے میں لگے ہیں، جسکے لئے انہیں نہ اپنی عزت کی پرواہ ہے نہ ہی ملک و ملت کی ۔فی الحال انہیں تو بس جھوٹی روٹیاں ہی نظر آرہی ہیں۔جسکو حاصل کرنے کے لئے غریب بھولی بھالی عوام کا مستقبل داؤ پہ لگاتے ہوئے ان روٹیوں کے عوض میں ووٹوں کا سودا کرتے نظر آرہے ہیں ۔کوئی سوشیل ورکر کے روپ میں تو کوئی اپنی پہنچ اور رتبہ دکھاکر ۔انہیں مفاد پرست مطلب پرست جو بھی کہیں کم ہی ہوگا اور ایسے منافقوں کی ذہنیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاستدان اپنی سیاست کررہے ہیں ۔ جن ووٹرس کو طاقت سمجھا جاتا ہے آج وہی طاقت کہلانے والے و وٹوں کو کوڑیوں کے داموں میں خرید کر بدلے میں پورے پانچ سالوں تک کی عوام کو اپنا غلام بناکر بھوک مر ی ، بے روزگاری،مہنگائی دیکرمادہ مچھر کی طرح انکا خون چوستے ہوئے اپنی تجوریاں بھرتے رہیں گے۔ آج جو گلی محلوں میں ووٹ مانگتے ماں بھائی بہن کہتے نہیں تھکتے کل وہی اپنے پالتو کتوں سے کٹوانے سے بھی باز نہیں آتے اور ان سب کے ذمے دار کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود ہیں ۔الیکشن کے نام پہ ہر گلی میں ایک امیدوار پیدا ہوجاتا ہے مانو الیکشن میں کھڑا ہونا اسکا پیدائشی حق ہے۔ چاہے اس میں اس ذمیداری کو بخوبی نبھانے کی قابلیت ہو یا نہ ہو ۔ چاہے جیت حاصل کرنا انکے لئے ناممکن کیوں نہ ہو پر نہیں انہیں تو ہار کا تاج پہننے کے لئے ہی صحیح الیکشن کے لئے کھڑاہونا ہے بیکار کی شہرت حاصل کرنے کے چکر میں۔۔ انکی اس بیوقوفی کی وجہ سے 16 کروڑ کی آبادی والے مسلمان بٹ کر ٹکڑوں کی شکل میں بکھر جاتے ہیں جسکا فائدہ فرقہ پرست جماعتیں اٹھاتے ہوئے کامیابی حاصل کر ہماری بیوقوفیوں ،آپسی اختلافات کا پوری طرح سے فائدہ اٹھاتی ہے ۔ دراصل اتنے سارے امیدواروں کو الیکشن میں کھڑے ہونے کے لئے ٹکٹ دینا یہ کوئی ہم پہ مہربانی نہیں ہے ۔نہ ہی ٹکٹ حاصل کرنے والے نے کوئی بلکہ یہ تو بی جے پی کی منصوبہ بندی ہے۔ بی جے پی خود چاہتی ہے کہ مسلمانوں میں جتنے ہوسکے اتنے زیادہ امیدوار کھڑے ہوںتاکہ ووٹ بٹ کے رہ جائیں ۔ہم مسلمانوں میں رشتے نبھانے کی جو وفاداری ہے کہیں نہ کہیں وہی ہمیں لے ڈوب رہی ہے۔ ہم یہ نہیں سوچتے کے ہمارا ووٹ جسکو جارہا ہے کیا اس میں جیتنے کی صلاحیت ہے ، نہیں!! ہمیں تو بس اپنے رشتہ اور دوستی نبھانی ہے بھلے ہمارے اس فیصلے کی وجہ سے ہماری قوم کو کیوں نہ دوچار ہونا پڑے۔ دوستی رشتے داری نبھانا اچھی بات ہے پر الیکشن جیسے وقت میں نہیں کیونکہ یہاں ہوئے ایک غلط فیصلے کی وجہ سے خود کے ساتھ ملک اور قوم کو بھی جوجنا پڑیگا۔ غلطیاں کرتے بھی ہم ہی ہیں اور پانچ برس تک سرکار کو کوستے بھی ہم ہی ہیں،اگر کبھی کسی دن سرکار کو کوستے ہوئے فلاش بیک میں چلے جائیں تو ہر کوئی کہے گا کہ اس پارٹی کو تو میں نے ووٹ دیا ہی نہیں پتہ نہیں یہ کیسے جیت گئی ؟ پھر انہیں میں بیٹھے ایک یا دو شخص کہیں گے کہ یہ خرافات ضرور ای وی ایم مشین کی ہے جو ساری پارٹیوں کے ووٹس لے جاکر اسی ایک کے نام پہ کر اسکو جتوائی ہے , بھلے ای وی ایم کی غلطی ہو , پر ا ن تمام میں کوئی یہ کیالکیولیٹ نہیں کرتے کہ کس کس نے کس کس کو ووٹ ڈالے اور کس کس گلی، شہر میں کتنے کتنے امیدوار کھڑے کئے تھے اور ہمارے ووٹس اتنوں میں بٹنے کے بعد کس کس کے حصے میں کتنے کتنے آئے۔۔ مثلًا کانگریس میں سے ایک امیدوار کھڑا ہے تو بی جے پی ہندتوا کے نام پر کسی ہندوتوا کے ایجنٹ کو امیدوار بناکر کھڑائیگی، سماج وادی ، بھوجن سماج وادی پارٹی ، جے ڈی یس سے بھی مسلمان امیدوار میدان میں اترے گا، ان تمام کے درمیان کچھ اور مسلمان آزاد امیدوار بن کر میدان میں اترتے ہیں ۔ان سب کی وجہ سے ووٹس ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے ہیں اور اسکا سیدھا فائدہ فرقہ پرست اٹھاتے ہیں۔ مسلمان تو فائدہ اٹھانے سے رہ جاتے ہیں اور وہ اگلے انتخابات کے لئے متحد ہونے کی بات کرنے لگتے ہیں پھر اگلے انتخابات میں بھی یہی چال دہرائی جاتی ہے ۔ کا بھی بھلا نہ ہوپائے ۔پھر ایک اور بڑی کامیابی کے ساتھ بی جے پی جیت اپنے نام لے جائیگی اور ہم مسلماں بس اپنی دوستی، رشتے داری نبھاتے ہوئے اگلے پانچ سالوں تک ایک اور ہار کا سہرہ باندھنے کی چاہت میں سیاستدانوں کے پیچھے گھومتے نظر آئینگے ۔۔ ہمارے اپنوں میں ہی کوئی ووٹس کا سودا کررہا ہے تو کوئی قوم کی خدمت کے نام میں قوم کو ہی لے ڈوب رہا ہے۔۔ جو لوگ زندگی میں کسی کی مدد نہیں کیا ہو وہ بھی سماجی کارکن بننے لگا ہے ۔ سفید کپڑے پہن کر اپنے آپ کو قائد ملّت کہلانے لگاہے ۔ ہماری سیاست تو ابھی مسجدوں کی کمیٹی سے جواں ہوکر ہوٹلوں تک ہی پہنچی کہ اپنے آپ کو یم یل اے امیدوار کہلا رہے ہیں ، اپنے آپ کو کارپوریشن انتخابات کا امیدوار کہلا رہے ہیں ، حقیقی قائد وہی ہے جو قوم کو ساتھ لے کر قوم کے مسائل کو حل کرے ، انکی آواز بن کر ابھرے ، قوم پر جب ظلم ہوتا ہے تو وہ مظلوموں کی آواز بن کر ابھرنے کی بجائے اس پر اظہار افسوس کے کلمات ادا کرنے کے بجائے ظالموں کو تخت دار پر پہنچانے کے لئے آگے آئے وہی ہمارا قوم کا لیڈر ہے اور وہی ہمار ی قیادت کے قابل ہے ۔ آنے والے اسمبلی انتخابات مسلمانوں کے لئے سخت امتحان ہے ۔ اگر آپ میں قوم کے لئے سچی محبت ہے اور قوم کو آنے والے برے دنوں سے بچانا ہے تو ہمیں ابھی سے فیصلہ کرلینا چاہئے کہ مسلمانوں کے ووٹوں کا بٹوارہ نہ ہو۔ بازار میں ووٹوں کو فروخت کرنے کے بجائے اپنی آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ سماج کی بنیاد رکھی جائے ۔ سارے ایک جٹ ہوکر کسی ایک پارٹی کو جتوائیں جو ہم مسلمانوں کے لئے سب سے بہتر ہے چاہے وہ کوئی بھی پارٹی کیوں نہ ہو ورنہ گجرات یوپی میں جو حالات ہیں اللہ نہ کریں اسکا سا یہ کرناٹک پربھی پڑے اور ہر دن کوئی افرازول ، جنید اور محمد اخلاق کی طرح لحدمیں سونے لگے ۔ مسلم پرسنل لاءکی دھجیاں اڑیں۔ لہٰذاخبردار۔۔ اوربیدارہوجائیں ۔۔کیونکہ حالات اورواقعات یہی پیغام دیتے ہیں کہ۔۔۰۰۰۰۰وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں  علامہ اقبالؒ

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا