جیب کترے کا خط جیب کُترے کے نام

0
56

۰۰۰
منظور گلشن ۔راجوری
9858696034
۰۰۰

………………………

 

۰۰۰۰۰۰راجوری جموں وکشمیر

فروری   2018–  ء ِ

بمنیش بھائی۔۔۔۔! نمستے۔۔۔۔۔!

  • عرصہ بعد آپ کو خط لکھ رہا ہوں‘میں نے کہی بار کوشش کی تھی کہ  آپ سے ٹیلیفون  رابط کرلوں مگر یہاں کا ما حول ابھی  میرے لیے بہت پُر خطر ہے۔ہر آدمی پہ دوسرے آدمی کی نظر ہے۔میرے دونوں ساتھی رندیپ اور مشتاق کسی کی جیب کاٹتے ہوئے آتے ہی پکڑ لیے گئےتھے اور دونوں جیل میں ہیں۔ پولیس میری تلاش میں بھی ہے مگر میں بھیس بدل کر یہاں مزدوری کر رہا ہوں‘ پچھلے ان چار مہینوںمیں یہاں کے ماحول  ‘عام طور طریقے اور طرز زندگی سے واقف ہو گیا ہوں۔  میں یہ خط اسلئے بھی لکھ رہا ہوں کہ آپ یہاں کے جغرافیہ ’‘ ماحول ’عام سماجی زندگی اور روایات سے واقف ہو جائیں ۔ چونکہ یہاں ریا ست کے باہر سے آئے ہوے مزدوروں پر کوئی کسی طرح کا شک نہیں کرتا۔اسلئے وہ یوں تیوں کرکے اچھی کمائی کرلیتے ہیں۔ اگرحالات مناسب رہے توواپس آنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔آپ میرے بوڑھے والدین اور بچوں کا خیا ل رکھیں  میں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ دونوں ساتھیوں کو رہا کروا کر ہی واپس آوں گا‘ ۔یہاں جیب کتروں کی کچھ نہیں چلتی معمولی دو چار سو روپےکےلیےہم نے تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ہاتھ ڈال کر بہت بڑا خطرہ مول لے لیا ۔ ہم جس شہر میں ہیں اس کا نام راجوری ہے۔ دور برفیلے ‘ پہاڑوں اور لہلاتی متوازی وادیوں کے اس شہر میں پانچ دریا یکے بعد دیگرے آکر بغلگیر ہوتے ہیں۔پانچ دریائوں کے اس شہر کا قدیم نام پہنچل دیش رہا ہے ۔یوں لگتا ہے نیا شہر ہنگامی حالات میں بس گیا ہے جس کی ہر تعمیر بے ترتیب ہے۔ یہ پاکستان بارڈر کے بہت قریب اور جموں ریلوے سٹیشن سے ڈیڑھ سو کلو میٹر کی دوری پہ ہے۔  شہر بالکل چو راہے پر ہے مغل شاہراہ نام کا ایک راستہ یہاں سے کشمیر وادی کی طرف نکلتا ہے ۔ علاقہ پہاڑی مگر بہت خوبصورت ہے۔ تھوڑی سی ادلا بدلی سے سارا سال موسم ایک جیسا رہتا ہے۔ چاندنی راتوں میںجنگلی انار اور پھلواڑی کے رتے’ چٹے پھولوں کا نظارہ دیکھنے لایق ہوتا ہے۔ راستے دیہاتوں کے ہوں یا کھلی سڑک لیکن موڑ بہت ہیں۔ عام سڑکوں کی حالت یہا ن کی عوامی ذہا نت کی ترجمان ہیں۔ ہرسکڑے ہوئے گائوں کے دامن سے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے چشمے اُبل رہے ہیں۔ پانی کی تاثیر اگر کشمیر جیسی ہو تی تو یہ علاقہ دُنیا کی توجہ کا مرکز ہوتا ۔ یہاں کے لوگوںکا عجیب سا مزاج ہے۔ آثار قدیمہ میں گہندھارہ ‘ ماتھورہ اور مغلیہ فنی نمونوں کا بے بہا بکھرا ہوا ذخیرہ ہے مگر نہایت بے دردی سے حکومت اور عوام مل جُل کر استحصال کررہے ہیں ’۔ نہایت ہی زر حیزآبی زمینوں پر بے تحاشہ تعمیرات اس وقت یہاں کا اہم مشغلہ ہے۔ انتظامیہ عوامی اور قومی مفادات کے حساس محا ملات میں خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ عوام کی بات چیت کے عام موضوعات مذہب اور سیاست رہتے ہیں‘ مگر دونوں محاذوں پر یہ بہت کنفیوز لگتے ہیں ۔ علاقائی پسماندگی یہ کہہ رہی ہے کہ یہاں کچھ ابن الوقت سیاستدان تب تک نظر آتے ہیں جب تک انھیںکسی سیاسی جماعت سے اکسیجن ملتی رہتی ہے۔ جو کچھ بھی وہ کہتے ہیں وہ ان کے دل دماغ اور روح کی آواز نہیں ہوتی۔ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے میں لگے رہتے ہیں۔ جنہوں نے سیاست کا حُلیہ بگاڑ کر رکھدیا ہے ۔ وہ عوام کی خواہشوںکو زبان نہیں دے سکے۔ پورے خطہ کو کویئ دور اندیش فکر ی و نظریاتی لیڈر نہیں ملا جو عوامی شعور کو بیدار رکھتا‘۔  کچھ نوجوان باصلاحت بھی ہیں مگر خود غرضی اور لالچ کے دلدل میں ان کی شخصیت ‘ سیاست ‘ قیادت ‘کردار اور اعتبار عوام میں مشکوک ہے۔ چونکہ ان میں سے اکثر اپنا گھر بار اور کارو بار راجوری سے 175    کلومیٹر دور جموں شہر میں منتقل کرچکے ہیں اور انتخابی حلقے صرف انکے لیے چرا گاہیں ہیں ۔جہاں کبھی کبھار یہ عوامی خدمت گار نہیں بلکہ کسی بیرونی ملک سے سیر وتفریح پر آئے ہوئے شہزادوں کی طرح   عمدہ اور قیمتی گاڑیوں سے آنکھوںپہ سیاہ چشمے چڑھائے ہوئے نمودار ہوتے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی منافع بخش جگہوں پر کام کرنے والے علاقے کے سرکاری ملازموں نے بھی سب پیسہ اکٹھا کر کے جموں اور سرینگر میں مکانات بنانے اور زمینیں خریدنے میں جٹے ہوہے ہیں۔  اس دوڑ میں یہ علاقہ اس وقت عدم توجہی اور لوٹ کھسوٹ کا شکار ہے۔ یہاں کا عدم برداشت یہ کہہ رہا ہے کہ ہر فرقے اور مذہب میں جنون کی آمیزش ہے۔  گوجراور پہاڑی یہان کے دو طبقے ہیں جن کو الیکشن کے موسم یا اپنے مفادات کے لیے بڑی آسانی سے سیاستدان بہکا کر اپنا مطلب نکالتے ہیں۔جس وجہ سے اب تک مقامی سیاستدانوںنے علا قائ ی مفاد کے بجائے نقصان زیادہ دیا ہے۔ ہمارے ہاںکی طرح سُنی وھابی بھی یہاں کے جاہل صوفیوں اور ادھ پڑھ ملائوں کی روزی روٹی کا کھیل تماشہ ہے۔ زیادہ تر لوگ وہم ‘تو ہمات ‘اور روایتوں کے خرافات میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ 90% عورتیں اور 73% فیصد مرد اپنا دماغ بالکل استعمال نہیں کرتے۔ فرقہ پرستی‘پیر پرستی‘قبر پرستی‘ مفاد پرستی کے علاوہ تعویز فروشی‘ جادو ‘جنتر منتر‘  اور ٹونے ٹکانے کا کاروبار وسع پیمانے پر چل رہا ہے۔جس کے عوض میں خود ساختہ پیر‘ باجی‘ سادھو‘ ، جوگی اور سنیاسی نقد و جنس، میں مال بٹور کر دونوں جہان کی کامیابی اور کامرانی کی سرٹیفکیٹ عطا کرتے رہتے ہیں۔  اس منافع بخش کارو بار میں’ بہت سے سرکاری ملازم سایڈ بزنس کے طور  جُٹ گیے ہیں‘جن کے ہاں تعیویزات کی بمپر سیل چل رہی ہے۔ وہمیں افسروں کی وجہ سے ان کی سرکاری ڈیوٹی معاف اور ما ہانہ تنخواہ وقت پر مل جاتی ہے۔ بہت سے سرکاری ملازمت کو خیر باد کہہ کر اس کارو بار میں مگن ہیں۔یہاں ان پاکھنڈیوں کے پاس بیش بہا جا ئیداد‘ ،اچھے مکان‘عمدہ گاڑیاں‘نوکر چاکر‘بینک بیلنس‘ عام لوگوں کا اعتماد‘عزت‘ بعض الیکشن کے موسم میں اچھی خاصی کمائی کر لیتے ہیں۔   ہمارے سامری محلہ کے منجو اور کنجو بھی آجکل یہا ں آئے ہیں ۔دونوں سر پہ سبز رنگ کی رومال اور چادر اُوڑھ کر گلے میں تقدس کی تسبیاںڈالکر اس دوڑ میںشامل ہو گئے ہیں وہم اور وسوسے پھیلا کر خوب کماتے ہیں۔ مشتاق کے چچا حکیم میاں انور صاحب کو میں یہاں بلاتا نجانے وہ اس نقلی مار کیٹ میں چل پائیں گے یا نہیں۔ منیش جی اگر یہ ہُنر ہاتھ آجائے تو روز‘ روز کی جیب کتری بد نا مت اور مار کھانے سے بچ جاتے۔ بیرونی کاریگر یا مزدور کی شکل میں یہاں بہت آسانی سے معصوم بن کر کوئی بھی منافع بخش دھندہ چلایا جا سکتا ہے ۔کانو کان خبر نہیں ہوتی۔اپنے بیگو سرائے والے مدن اور انکو بھی یہاں کام کرتے ہیں ۔کلفی کے نام سے ریڑھی لگا رکھی ہے‘ ،انکا اصل دھنداب بھی وھی ہے۔شہر میں میونسپلٹی والوں سے۔ بنا رکھی ہے۔صرف پندرہ سو ما ہانہ دینا پڑتا ہے۔  مجھے خط اشونی۔کمار مزدور کے نام سے لکھنا۔باقی آئندہ آر۔کے۔۔اشونی کمار۔معرفت

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا