تحصیل علم دین میں نیت کے مستحسن پہلو

0
65

 

 

 

 

از : ڈاکٹر محمد واسع ظفر
استاذ وسابق ڈین، شعبہ تعلیم، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ
تحصیل علم دین میں نیت کی درستی کے موضوع پر احقر نے حال ہی میں ایک مضمون رقم کیا تھا جو ملک عزیز کے کئی اخبارات میں شائع ہوا۔ اُس مضمون میں احقر نے اس بات پر زور دیا تھا کہ علم دین کی تحصیل فخر و مباہات، شہرت و ناموری، مال وزر کے اکتساب یا دنیوی جاہ و منصب کے حصول کے لئے نہ ہو بلکہ اس راہ کی ساری تگ و دو خالصتاً اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے واسطے ہو نیز اپنے جہل کو دور کرنا اور تفقہ فی الدین حاصل کرنا اس راہ کے بنیادی اہداف میں سے ہو۔ زیر نظر تحریر اُس مضمون کی ہی دوسری کڑی ہے جس میں احقر کی منشاء تحصیل علم دین کی نیت کے عملی و مستحسن پہلوؤں پر طلباء کی توجہ مرکوز کرانا ہے۔
ان میں سب سے اہم اپنی اصلاح ہے۔ علم دین اور تفقہ فی الدین کے حصول سے ایک طالب علم کا ارادہ ترجیحی طور پر اپنے عقائد، اعمال اور اخلاق و اطوار کی اصلاح ہونا چاہیے۔ اگر ہم رسول اللہ ﷺ کی دعوت و اصلاح کے تدریجی مراحل پر غور کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ آپؐ نے سب سے پہلے لوگوں کے ایمان و عقائدکو درست کرنے کی فکر کی ہے۔ اس سلسلے میں حضرت جندب بن عبداللہؓ سے ایک روایت بھی ہے ، انہوں نے فرمایا: ’’کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ وَ نَحْنُ فِتْیَانٌ حَزَاوِرَۃٌ، فَتَعَلَّمْنَا الإِیمَانَ قَبْلَ أَنْ نَتَعَلَّمَ الْقُرْآنَ، ثُمَّ تَعَلَّمْنَا الْقُرآنَ، فَازْدَدْنَا بِہِ إِیمَانًا ‘‘ ’’ہمیں نبی کریم ﷺ کا ساتھ نصیب ہوا جب کہ ہم بھرپور جوان تھے، تو ہم نے قرآن کا علم حاصل کرنے سے پہلے ایمان سیکھا، پھر ہم نے قرآن سیکھا تو اس سے ہمارے ایمان میں اضافہ ہوگیا۔‘‘ (سنن ابن ماجہؒ، رقم الحدیث ۶۱)۔
اس لئے یہ ضروری ہے کہ ایک طالب علم دین تحصیل علم سے سب سے پہلے اپنے عقائد و ایمان کی اصلاح کی نیت رکھے۔ ہمارے عقائد کی بنیاد کتاب الٰہی اور احادیث و آثار صحیحہ پر ہونی چاہیے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہمارے عقائد اہل سنت و الجماعۃ کے عقائد کے موافق ہونے چاہیے اس کا یہی مطلب ہے۔ اہل سنت و الجماعۃ سے مراد وہ گروہ ہے جس نے اپنے اعتقادات، اصول حیات، عبادات اور اخلاق و معاملات کا محور کتاب الٰہی، سنت صحیحہ اور آثار صحابہ کو بنایا ہو۔ ’’الجماعۃ‘‘ سے یہاں صحابہ کی جماعت مراد ہے۔ قرآن کی آیت آمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ الآیۃ (البقرۃ: ۱۳) اس بات پر دال ہے کہ ایمان و عقائد اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ معتبر ہے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایمان و عقائد کے موافق ہو۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے براہ راست اس وقت تربیت پائی جب وحی الٰہی کا نزول ہورہا تھا اور کسی بھی قسم کی فروگزاشت کی فوراً اصلاح ہوجایا کرتی تھی اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں رضا کا پروانہ بھی اسی دنیا میں دے دیا تھا۔ اس لئے اللہ اور اس کے رسولؐ کی ذات و صفات، دیگر انبیاء علیہم السلام، ملائکہ، کتب الٰہی، آخرت، تقدیر وغیرہ کے مسئلے میں ہمارا وہی عقیدہ ہونا چاہیے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہے۔
تحصیل علم سے دوسری نیت اپنے اخلاق کی درستی و اصلاح ہونی چاہیے کیوں کہ مکارم اخلاق کی تعلیم بعثت نبویؐ کے مقاصد میں سے ہے اور نبوی نظام تعلیم و تربیت کا اہم حصہ ہے۔ صحیح روایات میںہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ صَالِحَ الأَخْلَاقِ‘‘ ’’بے شک مجھے تمہاری طرف اخلاق صالحہ کی تکمیل کے لئے ہی مبعوث کیا گیا ہے۔‘‘ (مسند احمدؒ، دارالسلام، رقم الحدیث ۸۹۵۲، بروایت ابوہریرہؓ)۔ بعض روایتوں میں ’’صَالِحَ الأَخْلَاقِ‘‘ کی جگہ ’’ مَکَارِمَ الأَخْلَاقِ‘‘ آیا ہے جس کا معنی بھی عمدہ و اعلیٰ اخلاق ہی ہے۔ (سنن الکبریٰ للبیہقیؒ، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، رقم الحدیث ۲۰۷۸۲)۔ رسول ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے: ’’أَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ إِیمَانًا أَحْسَنُھُمْ خُلُقًا‘‘ ’’مومنوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جو اخلاق میں سب سے بڑھ کر ہو۔‘‘ (سنن ابی داؤدؒ، رقم الحدیث ۴۶۸۲)۔ آپؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ’’إِنَّ مِنْ أَحَبِّکُمْ إِليَّ أَحسَنَکُمْ أَخلَاقًا‘‘ ’’یقینا تم میں سب سے زیادہ عزیزمجھے وہ شخص ہے جس کے اخلاق سب سے عمدہ ہوں۔‘‘ (صحیح بخاریؒ، رقم الحدیث ۳۷۵۹، بروایت عبداللہ بن عمروؓ)۔
اس اخلاق سے وہ مصنوعی اخلاق مراد نہیںجس کا مظاہرہ لوگ آج کل کے نام نہاد مہذب معاشرے میں کیا کرتے ہیںجس کی بنیاد ریاکاری اور مادیت پرستی پر ہوتی ہے بلکہ اس سے وہ تمام اخلاق کریمانہ اور اوصاف حمیدہ مراد ہیں جن کا عملی مظاہرہ نبی کریم ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں کیا ہے اور جن کو قرآن کریم نے خلق عظیم کہا ہے۔ ان میں خوش خلقی، تواضع و انکساری، نرم کلامی، صلہ رحمی، شفقت و رافت، ہمدردی و غم خواری، مروت و وفاداری، تحمل و بردباری، عفو و درگزر، صداقت شعاری، عدل پروری، جود و سخا، امانت داری، دیانت داری، زہد و قناعت، صبر و شکر، شرم و حیا، عفت و عصمت وغیرہ اہم ہیں۔ ایک طالب علم کو چاہیے کہ وہ ان اوصاف حمیدہ کو اختیار کرنے کی نیت رکھے اور اپنے نفس کو تدریجاً ان کا عادی بنائے۔ اس کے ساتھ ہی اخلاق رذیلہ جیسے بدخلقی، کبر، عجب، دروغ گوئی، خیانت، دھوکہ دہی، وعدہ خلافی، حسد، بدگمانی، عیب جوئی، بہتان تراشی، بغض و عناد، بخل و اسراف، سنگ دلی، ظلم و جبر وغیرہ سے بچنے کا بالقصد اہتمام کرے۔ اس کے بعد ہی علم و حکمت کا نور اپنا جلوہ دکھائے گا اور عنداللہ اس کے درجات کی بلندی کا باعث ہوگا۔
تیسری اہم بات یہ ہے کہ تحصیل علم، عمل کی نیت سے ہویعنی طالب علم اس بات کی نیت رکھے کہ احکام شریعت سے آگہی کے بعد ان کو عملی طور پر سب سے پہلے خود اپنی ذات پر نافذ کرے گا کیوں کہ ہر شخص خود اپنے عمل کا ہی خدا کے سامنے جوابدہ ہے اور محشر کے نفسا نفسی کے عالم میں اس کا سب سے بڑا مسئلہ خود اپنی نجات کا ہوگا۔ روایتوں میں آیا ہے کہ انسان کے قدم بروز قیامت اپنے رب کے پاس سے اس وقت تک حرکت نہیں کرسکیں گے جب تک اس سے پانچ سوالات نہ کر لئے جائیں۔ ان میں سے ایک سوال یہ بھی ہوگا ’’مَاذَا عَمِلَ فِیْمَا عَلِمَ‘‘یعنی جتنا علم تھا اس پر کہاں تک عمل کیا؟ (سنن ترمذیؒ، رقم الحدیث ۲۴۱۶، بروایت عبداللہ بن مسعودؓ)۔ اس لئے احکام شریعت پر عمل کا پختہ ارادہ اور اس پر کاربندی کے بغیر علم انسان کے خلاف ایک حجت ہوگا۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم شریعت کو دوسروں کی زندگی میں نافذ کرنا یا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن خود کو بھول جاتے ہیںحالانکہ ہر شخص اگر صرف اپنی زندگی میں احکام شریعت کو نافذ کرلے جس سے اسے کسی نے نہیں روکا ہے تو پورا معاشرہ خود بخود اسلامی ہوجائے گا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا معمول یہ تھا کہ وہ علم و عمل ساتھ ساتھ ہی سیکھا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’ کانَ الرجل مِنَّا إِذَا تعلَّم عَشْر آیاتٍ لم یجاوزھُنَّ حتی یعرف معانیھُنَّ، والعمل بھن‘‘ ’’ہم میں سے کوئی شخص جب دس آیتیں سیکھ لیتا تو اس وقت تک اس سے تجاوز نہ کرتا جب تک ان کا مفہوم نہ جان لیتا اور ان پر عمل پیرا نہ ہو جاتا۔‘‘ (تفسیر الطبری جامع البیان عن تأویل القرآن لأبي جعفر محمد بن جریر الطبريؒ، مکتبۃ ابن تیمیۃؒ۔ القاہرۃ، الطبعۃ الثانیۃ، الجزء الاول، صفحہ ۸۰) ۔
اسی طرح ابو عبدالرحمن سلمیؒ جو کہ کبار تابعین میں سے ہیں، روایت کرتے ہیں: ’’حَدَّثنا الذین کانوا یُقرِئوننا: أنھم کانوا یستقرِئون مِنَ النبيِّ ﷺ، فکانوا إِذا تعلَّموا عَشْرَ آیاتٍ لم یُخَلِّفوھا حتی یعمَلوا بما فیھا مِنَ العمل، فتعلَّمْنا القُرآنَ والعملَ جَمیعاً‘‘ (مفہوم): ’’ہم نے جن لوگوں سے قرآن سیکھا انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اسی طرح پڑھا کرتے تھے کہ جب دس آیتیں پڑھ لیتے تو اس وقت تک آگے نہ بڑھتے جب تک اس بات پر عمل نہیں کرلیتے جو اُن میں برائے عمل ہوتا، اس طرح انہوں نے قرآن کا علم اور عمل دونوں ایک ساتھ سیکھا۔‘‘ (حوالہ سابق)۔
لیکن ہمارے زمانے میں علم صرف لوگوں کی زبان پر ہی رہتا ہے، ان کے طرز عمل اور اخلاق و کردار پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس لئے ساری تقریریں اور وعظ و نصیحت سب بے جان ہوکر رہ گئی ہیں۔ یاد رہے کہ تحصیل علم کی قرآن و حدیث میں جو بھی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں وہ سب عمل کے ساتھ مشروط ہیں، جو لوگ علم کے تقاضوں کو نہیں سمجھتے اور اس سے متعلق ذمے داریوں کو ادا نہیں کرتے ان کی مثال قرآن میں اس گدھے سے دی گئی ہے جن پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ اس سلسلے میں یہ آیت ملاحظہ کیجئے: {مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوہَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ أَسْفَاراً} ’’جن لوگوں کو تورات کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھایا، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔‘‘(الجمعۃ: آیت ۵)۔ یہ بات یہود کے عالموں کے لئے کہی گئی تھی جنہیں تورات کا علم دیا گیا تھا لیکن انہوں نے اس کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا اور رسول اللہ ﷺ کے مشن کی مخالفت کی۔ اگر آج کوئی حامل قرآن اس کے فرامین کے تقاضوں سے یکسر عاری ہوکر زندگی گزارے تو کیا اس کے اوپر یہ مثال صادق نہیں آئے گی؟
رسول اللہ ﷺ نے بھی تحصیل علم کی فضیلت اور اس پر عمل کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا: ’’مَا مِنْ رَجُلٍ یَسْلُکُ طَرِیْقًا یَطْلُبُ فِیْہِ عِلْمًا إِلَّا سَھَّلَ اللّٰہُ لَہُ بِہِ طَرِیْقَ الْجَنَّۃِ، وَمَنْ أَبْطَأَبِہِ عَمَلُہُ لَمْ یُسْرِعْ بِہِ نَسَبُہُ‘‘۔ ’’جو شخص حصول علم کے لئے کوئی راستہ طے کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے، اور جس کو اس کے عمل نے پیچھے کردیا تو اسے اس کا نسب آگے نہیںبڑھا سکتا۔ ‘‘ (سنن ابی داؤدؒ، رقم ۳۶۴۳، بروایت ابوہریرہؓ)۔ اس حدیث سے بالکل واضح ہے کہ اللہ عزوجل کے قرب و رضا کی منزلیں عمل سے ہی طے ہوتی ہیں نہ کہ نسبی تعلق کی بنیا د پر ۔ اس لئے اگر کوئی شخص اپنے عمل کی کوتاہی کی وجہ سے پیچھے رہ گیاتو اس کا عالی نسب ہونا اسے آگے نہیں لے جاسکتا۔ جو لوگ اپنے عالی نسب ہونے یا علماء اور بزرگان دین سے اپنا نسبی تعلق ہونے کے غرہ میں مبتلا رہتے ہیں اور اس پر تکیہ کرنے کی وجہ سے اپنے اخلاق واعمال کی اصلاح پرکوئی توجہ نہیں دیتے، انہیں اس حدیث پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے نفع بخش علم کے لئے ہی اللہ سے سوال کرنے اور اسی کے حصول کے لئے کوشش کرنے کی ترغیب دی ہے اور ایسے علم سے اللہ کی پناہ مانگنے کو کہا ہے جو انسان کو نفع نہ دے۔ (سنن ابن ماجہؒ، رقم الحدیث ۳۸۴۳)۔ یہ ظاہر ہے کہ علم دین کا نفع اس پر عمل کے ذریعہ اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا ہی ہے ، سو اگر یہی نہ ہو تو علم حاصل کرنے کا حتمی مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔
طالب علم کو اس بات کی بھی نیت رکھنی چاہیے کہ شریعت کا جو کچھ علم بھی وہ حاصل کرے گا اس کی ترویج و اشاعت کے لئے مناسب اقدام کرے گا کیوں کہ علم بالخصوص کتاب و سنت کا علم نشر و اشاعت کا ہی متقاضی ہوتا ہے اور اہل علم سے ہر دور میں اسی کی توقع کی جاتی رہی ہے کہ وہ اپنے حاصل کردہ علوم سے عام لوگوں کو فیض پہنچائے گا۔قرآن کریم اس بات پر شاہد ہے کہ پچھلی امتیں جنہیں کتاب الٰہی سے نوازا گیا، ان سے یہ بھی عہد لیا گیا تھا کہ وہ اس کے علوم کو عام کریں گے جس کی پاسداری میں وہ ناکام رہے اور ملامت کے مستحق ہوئے۔ ارشاد باری ہے: {وَإِذَ أَخَذَ اللّہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ أُوتُوْا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَکْتُمُونَہُ فَنَبَذُوہُ وَرَاء ظُہُورِہِمْ وَاشْتَرَوا بِہِ ثَمَناً قَلِیْلاً فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُوْنَ} ’’اور جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جن کو کتاب عنایت کی گئی تھی یہ عہد لیا کہ تم اسے سب لوگوں سے ضرور بیان کروگے اور اسے چھپاؤگے نہیں، تو پھر بھی ان لوگوں نے اس عہد کو اپنی پیٹھ پیچھے ڈال دیا اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت وصول کرلی ، سو کتنا برا کاروبار ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔‘‘ (آل عمران: ۱۸۷، نیز دیکھیں البقرۃ: ۱۷۴ – ۱۷۶ )۔
قرآن کریم میں اس بات کا تذکرہ یوں ہی نہیں کیا گیا بلکہ یہ ہم سب کے لئے ایک عبرت انگیز پیغام ہے کہ اپنے حاصل کردہ علوم کو دوسروں تک پہنچانے کی فکر کرو ۔ نبی کریم ﷺ نے بھی ہمیں یہ ہدایت دی ہے : ’’بَلِّغُوا عَنِّي وَ لَوْ آیَۃً‘‘ یعنی ’’ میری طرف سے (لوگوں تک) پہنچاؤ اگرچہ ایک ہی آیت ہو‘‘۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث ۳۴۶۱، بروایت عبداللہ بن عمروؓ )۔ اس حدیث کا مطلب یہی ہے کہ میری نسبت سے جو بھی مصدقہ علم تم تک بلاواسطہ یا بالواسطہ پہنچے اسے لوگوں تک پہنچاؤ ۔ یہاں ایک آیت کا ذکرعلم کی کم سے کم مقدار کے اظہار کے لئے کیا گیا ہے اور مقصد یہ ہے کہ اتنی کم مقدار کو بھی قلیل اور غیر اہم سمجھ کر لوگوں تک پہنچانے سے باز نہ رہو۔ آپؐ نے اس شخص کے لئے دعا فرمائی ہے جو آپؐ کی نسبت سے حاصل کردہ علوم کو دوسروں تک پہنچائے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’نَضَّرَ اللّٰہُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاھَا، ثُمَّ بَلَّغَھَا عَنِّي‘‘ ’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے میرا کلام سنا، اسے یاد رکھا، پھر میری طرف سے اسے (دوسروں تک) پہنچا دیا۔‘‘ (سنن ابن ماجہؒ، رقم الحدیث ۲۳۶، بروایت انس بن مالکؓ)۔
تعلیم و تعلم، دعوت و تبلیغ، تصنیف و تالیف، اور بیان و تقریر علم کی ترویج و اشاعت کے مختلف ذرائع ہیں۔ طالب علم ان سب کو حسب ضرورت استعمال کرنے کی نیت رکھے اور موقع ملنے پر اس کو اختیار بھی کرے۔ نبی کریم ﷺ کو تعلیم و تعلم کا شعبہ بہت پسند تھا۔ ایک موقع پر آپؐ نے ارشاد فرمایا : ’’إِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا‘‘ ’’میں تو صرف معلم بنا کر مبعوث کیا گیا ہوں۔‘‘ (سنن ابن ماجہؒ، رقم الحدیث ۲۲۹، بروایت عبداللہ بن عمروؓ )۔ یہ روایت محدثین کے نزدیک سند کے لحا ظ سے گرچہ ضعیف ہے لیکن اس کی تائید صحیح مسلم کی اس روایت سے ہوجاتی ہے جس میں آپؐ سے یہ منقول ہے: ’’إِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ لَمْ یَبْعَثْنِي مُعَنِّتًا، وَ لَا مُتَعَنِّتًا، وَ لٰکِنْ بَعَثَنِي مُعَلِّمًا مُیَسِّرًا‘‘ ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے سختی کرنے والا اور لوگوں کے لئے مشکلات ڈھونڈھنے والا بنا کر نہیں بھیجا، بلکہ مجھے معلم (تعلیم دینے والا) اور آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، رقم الحدیث ۳۶۹۰، بروایت جابر بن عبداللہؓ)۔
اس لئے تعلیم و تعلم کا شعبہ بڑی فضیلت کا حامل ہے، بس شرط یہ ہے کہ خلوص و للہیت کے ساتھ اس کو اختیار کیا جائے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس شخص کو قابل رشک بتایا ہے جسے اللہ نے علم و حکمت سے نوازا اور وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا ہو اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہو۔ (صحیح بخاریؒ، رقم الحدیث ۷۳، بروایت عبد اللہ بن مسعودؓ)۔ کسی کو علم دین سکھانے کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ جتنا کچھ بھی اس پر عمل کرے گا اس کا ثواب علم سکھانے والے کو ضرور ملے گاجب کہ عمل کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی بھی نہیں ہوگی۔ یہاں تک کہ انسان اس دنیا سے رخصت ہوجائے گا اور اس کے ذریعے پھیلائے گئے علوم سے لوگ مستفید ہوتے رہیں گے اور وہ ثواب کا مستحق ہوتا رہے گا۔(دیکھیں علی الترتیب سنن ابن ماجہؒ، رقم الحدیث ۲۴۰، صحیح مسلمؒ، رقم الحدیث ۴۲۲۳)۔
اسی مثال پر تصنیف و تالیف اور علم کی ترویج و اشاعت کی دوسری صورتوں کو قیاس کیا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص علم سیکھتا ہے اور اسے چھپائے رکھتا ہے یعنی بر موقع اس کا اظہار نہیں کرتا، اس کے سلسلے میں نبی کریم ﷺ نے سخت وعید سنائی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’مَا مِنْ رَجُلٍ یَحْفَظُ عِلْمًا فَیَکْتُمُہُ، إِلَّا أُتِيَ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مُلْجَمًا بِلِجَامٍ مِنَ النَّارٍ‘‘ ’’جو شخص علم (کا کوئی مسئلہ)یاد کرتا ہے پھر اسے چھپائے رکھتا ہے، وہ قیامت کے دن اس حال میں لایا جائے گا کہ اسے آگ کی لگام پڑی ہوگی۔‘‘ (سنن ابن ماجہؒ، رقم الحدیث ۲۶۱، بروایت ابوہریرہؓ)۔
اگر یہ کتمان علم کسی کے استفسار کے باوجود ہو تو اور بھی بڑا جرم ہوجاتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’مَنْ سُئِلَ عَنْْ عِلْمٍ فَکَتَمَہُ أَلْجَمَہُ اللّٰہُ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘‘ ’’جس سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی اور اس نے اسے چھپالیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائے گا۔‘‘ (سنن ابی داؤدؒ، رقم ۳۶۵۸، بروایت ابوہریرہؓ)۔ اس لئے طالبان علم دین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کے اوپر علم کی ترویج و اشاعت کی ایک بڑی ذمے داری آنے والی ہے اور اس کے لئے ذہنی طور پر انہیں تیار رہنا چاہیے۔
طالب علم دین کو یہ بھی نیت رکھنی چاہیے کہ اپنے علم کی روشنی میں وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے گا یعنی حتی المقدور لوگوں کو نیکیوں کی تلقین کرے گا اور منکرات سے روکے گا۔ گو کہ یہ ذمے داری ہر ایک مومن پر عائد ہوتی ہے لیکن علماء پر یہ ذمے داری ان کے علم کی وجہ سے کئی گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے قرآن کریم نے یہود و نصاری کی بے راہ روی کے تذکرے میں ان کے عالموں اور عابدوں کی بھی مذمت کی ہے کیوں کہ انہوں نے اس فریضہ سے پہلو تہی کی تھی۔ ارشاد باری ہے: {لَوْ لَا یَنْھٰھُمُ الرَّبّٰنِیُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَنْ قَوْلِہِمُ الإِثْمَ وَأَکْلِہِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ}۔ (مفہوم): ’’انہیں ان کے مشائخ اور علماء گناہ کی باتیں کہنے اور حرام کھانے سے آخر کیوں نہیں روکتے، بلا شبہ برا کام ہے جو وہ کر رہے ہیں۔‘‘ (المآئدۃ:۶۳)۔
اسی کے پیش نظر مسلمانوں کو قرآن میں یہ ہدایت دی گئی: {وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوْا فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنذِرُوْا قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُوْا إِلَیْْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ ہ} (مفہوم): ’’اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مسلمان سب کے سب نکل کھڑے ہوں سو ایسا کیوں نہ کیا کہ ان کی ہر بڑی جماعت سے چند اشخاص نکل جاتے اس غرض سے کہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں تاکہ وہ اپنی قوم کو ڈر سنائیں جب ان کی طرف لوٹیں، شاید کہ وہ (حکم عدولیوں سے) پرہیز کریں۔‘‘ (التوبہ: ۱۲۲)۔
ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ شریعت کا علم اور دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے والوں کی یہ خصوصی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی قوم کو انذار و تبشیر کے ذریعے راہ راست پر رکھنے کی فکر کریں۔ قرآن کریم نے اسے صالحین کی بنیادی صفات کے طور پر پیش کیا ہے اور احادیث میںبھی اس کی بڑی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ’’إِنَّ الدَّالَّ عَلَی الْخَیْرِ کَفَاعِلِہِ‘‘ ’’بلاشبہ نیکی پر دلالت کرنے والا اس کو کرنے والے کی طرح ہے۔‘‘ (جامع ترمذیؒ، رقم الحدیث ۲۶۷۰، بروایت انس بن مالکؓ)۔ سادے الفاظ میں اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والا ثواب میں بھلائی کرنے والے ہی کی طرح ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ جب ایک بار انسان کسی نیک عمل پر آگیاتو اب جب تک وہ اس پر عمل پیرا رہے گا اس کی نیکیوں کا صلہ اس نیکی کی طرف رہنمائی کرنے والے شخص کو ملتا رہے گا۔
اسی طرح اگر کسی کی دعوت و تلقین سے کوئی شخص ہدایت پر آگیا یعنی اسے ایمان نصیب ہوگیا یا وہ ایمان والا تو تھا لیکن احکام اسلامی سے جو سرکشی اختیار کر رکھی تھی اس سے تائب ہوکر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے رقبٔہ اطاعت میں آگیا تو ا ب وہ جتنی نیکیاں کرے گا ان سب کے برابر نیکی اس شخص کو ملے گی جو اس کی ہدایت کا سبب بنا۔ گویا یہ نیکیوں کی ایک تھوک تجارت ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ذریعے کچھ لوگوں کو ہدایت پر لگا دیا جائے اور ان کی نیکیوں کا صلہ بیٹھے بیٹھے حتی کہ مرنے کے بعد بھی وصول کیا جائے۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ نے حضرت علیؓ کو فرمایا تھا: ’’فَوَ اللہِ! لَأَنْ یَھْدِيَ اللہُ بِکَ رَجُلًا وَاحِدًا خَیْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ یَکُونَ لَکَ حُمْرُ النَّعَمَ‘‘ ’’اللہ کی قسم ! اللہ ایک انسان کو بھی تمہاری وجہ سے ہدایت عطا کردے تو یہ تمھارے لئے اس سے زیادہ اچھا ہوگا کہ سرخ اونٹ تمھیںمل جائیں۔‘‘ (صحیح مسلم، رقم الحدیث ۶۲۲۳، بروایت سہل بن سعدؓ)۔ سرخ اونٹ عرب میں بہترین مال تصور کیا جاتا تھا۔ گرچہ دنیوی مال و متاع کا اخروی نیکیوں سے کوئی موازنہ ہی نہیں لیکن آپؐ نے حضرت علیؓ کو ہدایت کی طرف کسی کی رہنمائی کرنے کی اہمیت اور جزا کو سمجھانے کے لئے یہ تمثیل اختیار کی گویا آپؐ یہ کہنا چاہتے ہوں کہ اگر سرخ اونٹ تمھیں مل جائے اور تم اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کردو تب بھی کسی کی ہدایت کی طرف رہنمائی کرنے کا اجر اس سے بہت بڑھ کر ہے۔
ان سب کے برخلاف اگر کوئی قوم امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو بالکلیہ ترک کردیتی ہے تو لعنت کی مستحق اور عذاب الٰہی میں گرفتار ہوجاتی ہے۔ بنی اسرائیل جسے اپنے زمانے کی دیگر اقوام پر فضیلت دی گئی تھی ، کے لعنت میں گرفتار ہونے کے اسباب میں قرآن کریم نے ترک نہی عن المنکر کا بھی ذکر کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے : {لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِیْ إِسْرَآئِیْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوُودَ وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُونَ ہ کَانُوْا لاَ یَتَنَاہَوْنَ عَن مُّنکَرٍ فَعَلُوہُ لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُونَ ہ} (مفہوم): ’’بنی اسرائیل کے جو لوگ کافر ہوئے ان پر داؤد اور عیسی ابن مریم کی زبان سے لعنت بھیجی گئی تھی ۔ یہ سب اس لئے ہوا کہ انہوں نے نافرمانی کی تھی اور وہ حد سے گزر جایا کرتے تھے ۔ وہ جس بدکاری کا ارتکاب کرتے تھے، اس سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا طرز عمل نہایت برا تھا۔‘‘ (المائدہ: ۷۸- ۷۹)۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت سے فرمایا: ’’وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہِ لَتَأمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَ لَتَنْھَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ، أَوْ لَیُوشِکَنَ اللہُ أَنْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عِقَابًا مِنْہُ، ثُمَّ تَدْعُونَہُ فَلَا یُسْتَجَابُ لَکُمْ‘‘ ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! تم معروف (بھلائی) کا حکم ضرور دو اور منکر (برائی) سے ضرور روکو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیج دے پھر تم اللہ سے دعا کرو اور تمھاری دعا قبول نہ کی جائے۔‘‘ (سنن ترمذیؒ، رقم الحدیث ۲۱۶۹، بروایت حذیفہؓ)۔ یہ عمومی عذاب کی وہ بدترین صورت ہے کہ نیک اور صالح لوگ بھی دعائیں کریں تو قبول نہ ہو۔ یہ صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے خدا کے احکام کو ٹوٹتے ہوئے دیکھا پھر بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ سے غفلت برتی۔ بعض روایات میں ایسی قوم پر ظالم بادشاہ کے مسلط کردئے جانے کی وعید بھی منقول ہے۔ (دیکھیں معجم الاوسط للطبرانیؒ، رقم الحدیث ۱۳۷۹، بروایت ابوہریرہؓ)۔
اس لئے اس معاملے میں اہل علم کی ذمے داری بہت بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنی قوم کی اصلاح کی فکر کرے بالخصوص اپنے اہل و عیال اور ماتحتوں کی فکر تو ضرور ہی کرے کیوں کہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے: {یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا قُوْآ أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَارًا وَّ قُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ} ’’ اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔‘‘ (سورۃ التحریم: ۶) اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’أَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ، وَ کُلُّکُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ‘‘ ’’آگاہ ہوجاؤ، تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا (ماتحتوں) کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔‘‘ (صحیح بخاریؒ، رقم الحدیث ۷۱۳۸، بروایت عبداللہ بن عمرؓ)۔
طلباء کو چاہیے کہ وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی کے لئے خود کو تیار کریں، اس کی اہمیت، فضیلت، شرائط اور آداب کو سیکھیں۔ اس سلسلے میں سید عبد القادر جیلانیؒ کی تصنیف ’’غنیۃ الطالبین‘‘ اور امام غزالیؒ کی تصانیف ’’کیمیائے سعادت‘‘ اور ’’احیاء علوم الدین‘‘ کے امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے متعلق باب کا مطالعہ بہت مفید ہوسکتا ہے۔ یہ کتابیں اب اردو میں بھی دستیاب ہیں۔ ان کے علاوہ عربی جاننے والوں کے لئے شیخ محمد بن الحسین بن محمد بن خلف ابویعلی الفراء الحنبلیؒ (المتوفی ۴۵۸ھ) کی کتاب ’’الأمر بالمعروف و النہي عن المنکر‘‘، شیخ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہؒ (المتوفی ۷۲۸ھ) کی کتاب’’الأمر بالمعروف و النہي عن المنکر‘‘ ، امام تقی الدین ابوبکر بن عبداللہ ابن قاضی عجلون الدمشقی الشافعیؒ (المتوفی ۹۲۸ھ) کی کتاب ’’الکنز الأکبر في الأمر بالمعروف و النہي عن المنکر‘‘ اور شیخ سلیمان بن قاسم العید کی کتاب ’’الأمر بالمعروف و النہي عن المنکر۔ الحث علی فعلہ والتحذیر من ترکہ‘‘ وغیرہ کا مطالعہ بھی کافی مفید ہوسکتا ہے۔ عربی زبان میںاس موضوع پر اور بھی کئی اہم تصانیف ہیں۔
اہل علم کے اوپر ایک بڑی ذمے داری یہ بھی ہے کہ وہ دین اسلام کو زندہ رکھنے اور دیگر تمام ادیان پر اسے غالب کرنے کی کوشش کرے۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا ایک بنیادی مقصد تھا جیسا کہ قرآن کریم کا اعلان ہے: {ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ } ’’وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اسے تمام دوسرے دینوں پر غالب کردے، خواہ مشرک لوگوں کو یہ بات کتنی ہی ناپسند ہو۔‘‘ (التوبہ: ۳۳)۔ یہ آیت قرآن کریم میں دو اور جگہ آئی ہے؛ ایک تو سورۃ الصف کی آیت نمبر ۹ جہاں یہ بعینہ موجود ہے اور دوسرے الفتح کی آیت نمبر ۲۸ جس کے آخر میں {وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ} کے بجائے {وَ کَفٰی بِاللہِ شَھِیْدًا} ہے جس کا مطلب ہے ’’اس بات کی گواہی دینے کے لئے اللہ کافی ہے‘‘۔ آیت کے تکرار سے اس مقصد کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
دین اسلام کو دوسرے ادیان پر غالب کرنے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ دلائل ساطعہ اور حجت بالغہ کے ذریعے ہر شخص پر یہ واضح کردیا جائے کہ اسلام ہی حق ہے اور اس کے مقابل و مخالف جتنے نظریات ہیں وہ سب باطل ہیں اور ناکامی و ذلت و رسوائی کی طرف لے جانے والے ہیں۔ اس کا دوسرا مطلب افرادی قوت کے اعتبار سے غلبہ ہے یعنی انسانوں کی اکثریت اسلام کو اپنا لے اور اس پر عمل پیرا ہوجائے۔ دین کو غالب کرنے کا تیسرا مفہوم حکومت و سلطنت کے اعتبار سے ہے یعنی نظام خلافت اسلامی کا قیام عمل میں آجائے اور مخالف طاقتیں اسلامی حکومت کے سامنے سرنگوں ہو جائیں اور اس کی تابعدری قبول کرلیں۔ ان مقاصد کے حصول میں علماء کا کردار بہت اہم ہے۔ وہ نہ صرف اپنی قوم کو بلکہ اقوام عالم کو ان کی زبان اور زمانے کے اسلوب میں اسلام کی حقانیت کی دعوت محکم دلائل کے ساتھ پہنچا سکتے ہیں، مدعوئین کے شکوک و شبہات کو رفع کرسکتے ہیں، مخالفین کے ذریعے اسلام پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کا معقولیت سے جواب دے سکتے ہیں اور اسے قبول کرنے والوں کی تعلیم و تربیت کا فریضہ بھی بحسن و خوبی انجام دے سکتے ہیں۔
ان سب کے لئے یہ ضروری ہے کہ طلباء اپنی نیتوں میں اس ہدف کو بھی شامل کرلیں اور تحصیل علم کے دوران اس کی بہترین تیاری بھی کریں۔ اس سلسلے میں اسلامی ماخذوں کے علاوہ دیگر ادیان و افکار کا مطالعہ کرنا اور اردو، عربی و فارسی کے علاوہ دوسری زبانوں پر عبور حاصل کرنا بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ ان کے علاوہ اسلامی عقائد و احکام کو فلسفیانہ، عقلی اور سائنسی نقطہ نظر سے سمجھنا بھی بہت کارآمد ہوسکتا ہے۔ دیگر ادیان اور باطل افکار کو سمجھنے میں مدینہ یونیورسٹی کے پروفیسر فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبدالقادر شیبۃ الحمد حفظہ اللہ کی کتا ب ’’النّقوش النّاضرۃ في ترجمۃ الأدیان والفرق والمذاھب المعاصرۃ‘‘ (اردو ترجمہ: ’’اقوام عالم کے ادیان و مذاہب‘‘ از ابوعبداللہ مولانا محمد شعیب حفظہ اللہ) معاون ہوسکتی ہے۔ ویدک دھرم اور اس میں اسلامی عقائد و نظریات کی بنیادوں کو سمجھنے کے لئے شمس نوید عثمانیؒ کی کتاب ’’اگر اب بھی نہ جاگے تو‘‘ (ترجمانی: جناب ایس عبداللہ طارق)، ڈاکٹر ایم اے شریواستو کی کتاب ’’حضرت محمدؐ اور بھارتی دھرم گرنتھ‘‘، ڈاکٹر وید پرکاش اپادھیائے کی کتاب ’’کلکی اوتار اور محمد صاحبؐ‘‘، راجندر نارائن لال کی کتاب ’’اسلام ایک سویں سدھ ایشوریے جیون ویوستھا‘‘ وغیرہ کارآمد ہوسکتی ہیں۔
اسلامی عقائد و احکام کو عقل کی روشنی میں سمجھنے کے لئے مولانا سید مناظر احسن گیلانیؒ کی تصنیف ’’الدین القیم‘‘، مولانا محمد شہاب الدین ندوی کی تصنیف ’’اسلامی شریعت علم اور عقل کی میزان میں‘‘، مولانا اشرف علی تھانویؒ کی تصنیف ’’المصالح العقلیہ للاحکام النقلیہ‘‘ (احکام اسلام عقل کی نظر میں) اور شیخ عبدالقادر المعروف کردی کی تالیف ’’مواھب البدیع فی حکمۃ التشریع‘‘ (اردو ترجمہ: ’’اسلامی احکام اور ان کی حکمتیں‘‘ از مولانا خالد محمود) مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔ اسی طرح اسلامی عقائد و نظریات کو سائنسی نقطہ نظر سے سمجھنے کے لئے موریس بوکائلے کی کتاب ’’بائیبل، قرآن اور سائنس‘‘ (مترجم: ثناء الحق صدیقی)، مولانا محمد شہاب الدین ندوی کی کتاب ’’اسلام اور جدید سائنس‘‘، جناب آئی اے ابراہیم؍ محسن فارانی کی کتاب ’’اسلام کی سچائی اور سائنس کے اعترافات‘‘، پروفیسر عبداللہ ہارون اور ایس ایم شاہد کی کتاب ’’اسلام اور سائنس‘‘، شیخ احمد دیداتؒ کی کتاب ’’اسلامی نظام زندگی ۔ قرآن اور عصری سائنس کی روشنی میں‘‘ (اردو ترجمہ از جناب مصباح اکرم)، پروفیسر ڈاکٹر فضل کریم کی کتاب ’’قرآن اور جدید سائنس‘‘، ڈاکٹر ہلوک نور باقی کی کتاب ’’قرآنی آیات اور سائنسی حقائق‘‘ (مترجم: سید فیروز شاہ گیلانی)، جناب ھارون یحییٰ کی کتاب ’’قرآن رہنمائے سائنس‘‘ (مترجم: محمد یحییٰ)، علامہ ڈاکٹرطاہر القادری کی کتاب ’’اسلام اور جدید سائنس‘‘ وغیرہ سودمند ثابت ہوسکتی ہیں۔
اساتذہ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے طلباء کی ذہن سازی دعوتی نقطہ نظر سے کریں اوراسی نہج پر شروع سے ان کی تربیت کریں تب ہی وہ آگے چل کر کار آمد ہوسکتے ہیں۔ رہا اسلامی نظام حکومت کا قیام اور دعوت کی راہ میں حائل ہونے والی مخالف قوتوں کا استیصال تو یہ بہت بعد کا مرحلہ ہے۔ ابھی کا حال تو یہ ہے کہ نسلی مسلمان بالخصوص نئی نسل خود اسلامی احکام پر چلنے کو تیار نہیں، انہیں ارتداد سے بچانا اور اسلام پر باقی رکھنا ہی بہت بڑا چیلنج بنتا جارہا ہے اور دوسری اقوام تک دعوت پہنچانے کے جو تقاضے ہیں وہ اپنی جگہ ہیں۔ اس لئے ان دونوں محاذ پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جو طالب علم یہ نیت رکھے گا ، اس کام کے لئے خود کو تیار کرے گا اور اس کی تگ و دو میں تاحیات مصروف رہے گا، وہ اس حدیث میں دی گئی بشارت کا مستحق گردانا جائے گا : ’’مَنْ جَائَہُ الْمَوْتُ وَ ہُوَ یَطْلُبُ الْعِلْمَ، لِیُحْیِيَ بِہِ الْاِسْلَامَ، فَبَیْنَہٗ وَ بَیْنَ النَّبِیِّیْنَ دَرَجَۃٌ وَاحِدَۃٌ فِي الْجَنَّۃِ‘‘ (مفہوم): ’’جس شخص کی موت ایسی حالت میں آئے کہ وہ علم اس لئے حاصل کررہا تھا کہ اس کے ذریعے سے اسلام کو زندہ کرے تو جنت میں اس کے اور انبیاء کے درمیان صرف ایک درجہ کا فرق رہے گا‘‘۔ (سنن الدارمیؒ، کتاب العلم، باب فِي فَضْلِ الْعِلْمِ وَالْعَالِمِ، بروایت حسن بصریؒ)۔
احقر نے تحصیل علم دین کی نیت کے مستحسن پہلوؤں کا حتی المقدور احاطہ کردیا ہے۔ ان میں اپنے عقائد، اعمال اور اخلاق و اطوار کی اصلاح ، احکام شریعت کا اپنی زندگی اور اپنے دائرہ اختیار میںعملی نفاذ، دینی علوم کی ترویج و اشاعت کی سعی، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ادائیگی اور دین کی سربلندی کے لئے جد و جہد کرنے کا عزم شامل ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ طلباء کو ان اعلیٰ مقاصد کے حصول کے تحت تحصیل علم کی جد و جہد کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کا جذبہ عطا کرے۔ آمین! وما علینا الا البلاغ!
(رابطہ: [email protected] )

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا